۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
علامہ شبیر میثمی

حوزہ/ امام جمعہ مسجد بقیۃ اللہ ڈیفنس کراچی نے کہا کہ ہم یہودیوں کے خلاف نہیں ہیں کیونکہ بہت سے یہودی خود ان صیہونیوں کے خلاف ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، شیعہ علماء کونسل پاکستان کے مرکزی رہنما اور امام جمعہ مسجد بقیۃ اللہ ڈیفنس کراچی علامہ شبیر میثمی نے خطبہ جمعہ میں بیان کرتے ہوئے کہا کہ بعض مرتبہ لوگ نادانی میں یا جان بوجھ کر علماء کے خلاف چیزیں چلا دیتے ہیں۔ اور ہم بھی نادانی میں وہ چیزیں چلانے لگتے ہیں۔ یہ شرعاً گناہ ہے۔ صرف علماء ہی نہیں بلکہ ایک عام مومن کے لئے بھی اس کی اجازت نہیں ہے۔ لیکن ہماری قوم کے اندر چسکے لینے کی عادت پڑگئی ہے۔ حدیث میں ہے کہ جب عالم فوت ہوجاتا ہے تو اس کے فوت ہوجانے سے اسلام میں ایک ایسی دراڑ پڑ جاتی ہے جسے کوئی پورا نہیں کرسکتا۔ عالم دین ہی ہے کہ جس کے مرنے پر شیطان سب سے زیادہ خوش ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک ٹرینڈ بنا ہوا ہے۔ اگر آپ کو بہت زیادہ پریشانی ہے تو اس عالم دین کو ڈھونڈئیے اور اس سے معلوم کرلیجئے کہ کیا آپ نے ایسا کیا ہے؟ اگر وہ تسلیم کرلیں تو ان سے کہیں کہ آپ توبہ کرلیں اور آئندہ اس کی تکرار مت کریں۔ لیکن یقین حاصل کئے بغیر ایسی چیزوں کو نہ پھیلائیں۔ ہر وہ شخص گناہگار ہے جس نے اس میسیج کو تیار کیا اور اسے فارورڈ کیا۔ یہاں درود پڑھ کر آپ جنت کما رہے ہیں اور وہاں ایسے میسیج فارورڈ کرکے آپ جہنم کما رہے ہیں۔ تحقیق کرنے کا آپ کو حق ہے، لیکن اسی شخصیت سے۔ تحقیق کرنے کے بعد آپ انہیں امر بالمعروف یا نہی عن المنکر کرسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ قرآن کریم کے الفاظ میں ایسا کرنا مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف ہے۔ اگر اس نے وہ کیا ہے تو وہ غیبت ہوگئی اور اگر اس نے نہیں کیا تو وہ تہمت ہوگی۔ دونوں صورتیں جائز نہیں ہیں۔ بات یہ ہے کہ تین چار سال پہلے او آئی سی نے ایک اعلان کیا تھا کہ جو بھی آپ کے ہاں مذہبی کارنامے کرنے والی شخصیات ہیں، ان کی تفصیلات آپ ہمیں بھیجیں۔ مجھ سے پوچھا گیا کہ آپ کی کتابیں کتنی ہیں، آپ کی تحقیقات کتنی ہیں، باقی چیزیں کتنی ہیں۔ ہم نے تمام تفصیلات بتا دیں ۔ کوئی انعام نہیں ملا لیکن اب سوشل میڈیا پر یہ چیز چل رہی ہے کہ شاہ فیصل ایوارڈ لے کر انہوں نے فلسطین کے کاز کو نقصان پہنچایا ہے۔ لیکن یہ مسئلہ تو تین سال پرانا ہے۔ آج کیسے نکال لیا؟ پتا چلتا ہے کہ ان کے دلوں میں مرض ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اگر یہ لوگ ہدایت کے قابل ہیں تو ان کی ہدایت کردے اور اگر ہدایت کے قابل نہیں ہیں تو انہیں اپنے پاس بلا لے۔

علامہ ڈاکٹر شبیر میثمی نے کہا کہ فلسطین کے بارے میں یہ بہت واضح ہے کہ جسے ہر کوئی چھپا رہا ہے اور وہ یہ ہے کہ فلسطین ایک ملک تھا۔ اس میں آہستہ آہستہ اسرائیلیوں کو لا کر بسایا گیا۔ بیل فورڈ ایگریمنٹ تھا جس کے تحت برٹش والوں نے یہ فیصلہ کیا کہ چونکہ پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں یہودیوں کو قتل کیا گیا تو اس کے عوض میں ہم اس مقام پر ان کو جگہ دے دیں گے ۔ صیہونی طاقتوں نے ان یہودیوں کو یہاں پر لاکر بسانا شروع کیا اور فلسطینیوں کو دھکیلنا شروع کیا۔ سوشل میڈیا پر اسرائیلیوں کے آنے سے پہلے فلسطین کا نقشہ موجود ہے، یہ بھی موجود ہے کہ ہر سال فلسطینیوں کو کتنا دھکیلا گیا اور آج فلسطینیوں کی کیا صورتحال ہے۔ ظلم ان پر یورپ میں ہوا، اور ان کے دل کو بہلانے کے لئے زمین کا ایک ٹکڑا مسلمانوں کے سینے میں لا کر انہیں دے دیا گیا۔ میں اور آپ سادہ ہیں کہ مثلاً دو ہزار سال پہلے ان کی زمینیں تھیں، اور انہیں نکال دیا گیا ۔ اگر اس طرح دیکھا جائے تو پھر عرب ممالک کا ایک بڑا حصہ ایران کو دے دیا جائے۔ سلطنت عثمانیہ کو کیسے توڑا گیا، برٹش والوں نے کیا کیا کھیل کھیلا، سعودی حکومت اور امارات حکومت کیسے بنی، یہ ایک دلچسپ تاریخ ہے۔ فلسطینیوں کو یہ لوگ بے دخل کرتے گئے، صبرا شتیلا کا قتل عام ہوا۔ اس میں ہم شرمندہ ہیں کہ ہمارے پاکستان سے بھی لوگ گئے اور انہوں نے وہ کام کیا۔ ظلم یہ ہوا کہ جن کی زمین تھی، ان کو ان کی زمین سے بے دخل کردیا گیا۔

وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے سیکرٹری اطلاعات نے کہا کہ مسلمان وہاں بسے ہوئے تھے، انہیں مجبور کرکے نکال دیا۔ دوسرا یہ کہ وہاں پر ہماری مقدس جگہیں ہیں۔ تم کہتے ہو کہ تمہاری وہاں مقدس جگہیں ہیں تو کوئی ایسا طریقہ نکالو کہ اپنی مقدس جگہوں کی زیارت کرو اور چلے جاؤ۔ لیکن نہیں، ان کو اپنے خاص ایجنڈا کو آگے بڑھانا ہے۔ یہ لوگ بہت بڑا گیم کھیلتے ہیں۔ انہوں نے بہت کچھ پہلے سے تیار کر رکھا ہے۔ جو یہ آج کر رہے ہیں، یہ ابھی کا نہیں بلکہ یہ ان کا بیس سال پہلے کا منصوبہ ہوگا۔ اس وقت فلسطین کو تباہ و برباد کردیا گیا ہے۔ جو ویڈیوز ہم سب دیکھ رہے ہیں، اگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں معاف نہ کیا تو ہم اللہ تعالیٰ کو کیا جوا ب دیں گے؟ مجبوری یہ ہے کہ اگر میں آج اعلانِ جہاد کردوں تو مجھے پکڑ کر لے جائیں گے اور جیل میں بند کردیں گے۔ میری تو آواز یہیں پر بند کر دی جائے گی کہ آپ نے جہاد کا نام لیا اور لوگوں کو مسلح قیام کے نام پر آگے بڑھایا۔ مجھے یوکے سے کسی نے فون کیا کہ ہم کیا کریں، ہم بہت پریشان ہیں۔ میں نے کہا کہ آپ کے پاس اسلحہ ہے؟ انہوں نے کہا کہ یہاں اس کی اجازت نہیں ہے۔ میں نے کہا کہ یہ موبائل جس سے آپ بات کر رہے ہیں، یہی آپ کا اسلحہ ہے۔ آپ اپنے جاننے والوں اور دیگر تک ان کی مظلومیت پہنچا دیں۔ کل برٹش پارلیمنٹ میں ان کی ایک ممبر نے بہت خوبصورت بیان دیا کہ تم بعد میں یہ کہتے ہو کہ تمہیں پتا نہیں تھا۔ اب تو سب کچھ واضح ہے۔ بچوں اور خواتین کا قتل، الجزیرہ پریس، ہاسپٹل، اسکول، کوئی جگہ ایسی نہیں جو انہوں نے سلامت چھوڑی ہو۔

انہوں نے مزید کہا کہ فلسطین والوں نے کیسا بھرپور جواب دیا۔ لوگ چھوٹے علماء کے خلاف باتیں کرتے ہیں تاکہ بڑوں تک پہنچ سکیں۔ لیکن جو تقویٰ والا ہوتا ہے ان کے راستے کھلتے جاتے ہیں۔ امام خمینی، رہبر معظم اور مراجع عظام کا تقوی ہے کہ آج فلسطینیوں نے ہزاروں راکٹ مار کر اپنے دشمن کو یہ سمجھا دیا کہ تمہاری آئرن ڈوم بھی تمہیں نہیں بچا سکتی۔ ان کے ہسپتال بھرے ہوئے ہیں، لوگ خوفزدہ ہو کر بھاگ رہے ہیں۔ میری اطلاع کے مطابق ان کے ایک منسٹر بھی بھاگ چکے ہیں۔ یہ لوگ بزدل ہیں، ان کے سامنے اسلحہ سے زیادہ ایمان کارگر ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر یہ فلسطینی میزائل کے ساتھ یاعلی، یا حسین کا نعرہ بھی لگا لیتے تو دشمن کا کام تمام ہوجاتا۔ جمہوری اسلامی ایران، لبنان، شام وغیرہ سب مل کر وہاں مدد کر رہے ہیں۔ تازہ ترین خبر تو آپ سن چکے ہوں گے کہ مصر نے سیزفائر کو جو فارمولا دیا ہے ہم اسے قبول کرنے کے لئے تیار ہیں۔ حالانکہ ابھی ایک دن پہلے ہی نیتن یاہو نے بیان دیا تھا کہ ہم اس وقت تک حملے کرتے رہیں گے جب تک ان کے میزائل ختم نہ ہوجائیں۔ تم سمجھتے ہو کہ میزائل ختم ہوجائیں گے؟ جس کے پیچھے اللہ کا ہاتھ ہو، اللہ اس کے قدموں کو مضبوطی عطا کرتا ہے۔

ان مسائل کی وجہ سے کہ شیعہ سنی متحد ہو کر صیہونیوں (Zionism) کے خلاف کھڑے ہیں، ہم یہودیوں کے خلاف نہیں ہیں کیونکہ بہت سے یہودی خود ان صیہونیوں کے خلاف ہیں۔ آپ دیکھیں کہ پچھلے پندرہ دنوں میں کیا ہوا ہے؟ (۱) بعض نادان دوستوں نے علماء کے خلاف بھرپور میدان کھول دیا۔ شیعہ سنی اختلاف کو ہر صورت میں ایٹم بم کی طرح پھوڑنا چاہتے ہیں۔ نادانی نہ کریں اور کوئی ایسا میسیج نہ چلائیں جو مسلمانوں کے درمیان اتحاد کیلئے نقصاندہ ہو۔ہمارے مولاؑ نے پچیس سال اس طرح صبر کیا کہ آنکھوں میں شہتیر اور گلے میں کانٹا پھنسا تھا۔ یہ کہہ کر شکایت بھی کی کہ جو قبا رسول اللہ ﷺ نے میرے لئے تیار کی تھی، وہ کسی اور نے پہن لی اور اُلٹی پہن لی۔ مولاؑ نے اس لئے صبر کیا کہ خلافت نہیں بلکہ اسلام بچانا تھا۔ آج ہمیں بھی اسلام اور مسلمانوں کو بچانا ہے۔ مشہور واقعہ ہے کہ مولائے کائنات کے پاس دو عورتوں کو لایا گیا جو ایک بچے کے بارے میں جھگڑ رہی تھیں۔ بہت سمجھانے پر بھی کسی کی سمجھ میں نہ آیا تو مولا نے قنبر سے کہا کہ بچے کے دو ٹکڑے کردو اور دونوں کو ایک ایک ٹکڑا دے دو۔ یہ سن کر ایک عورت چیخ پڑی کہ ایسا مت کریں۔ بچہ مرجائے گا۔ ٹھیک ہے بچہ دوسری عورت کو دے دیں، کم از کم بچہ زندہ تو رہے گا۔ مولا نے قنبر سے کہا کہ یہ عورت اس بچے کی اصلی ماں ہے۔ جب مولا علیؑ نے دیکھا کہ مسلمانوں کے دو ٹکڑے ہوجائیں گے تو کہا کہ فعلاً اسے دے دیں، زندہ تو رہے گا، جب ہمارا وقت آئے گا تو ہم دیکھ لیں گے۔ اس لئے کہ بارہ اماموں نے آنا ہے۔ کربلا کا معرکہ دوبارہ ہونا ہے اور حق کا حق اور باطل کا باطل واضح ہوجائے گا۔

انہوں نے آخر میں کہا کہ اسرائیل کے خلاف جنگ میں دو کام کئے جا رہے ہیں۔ (۱) علماء اور مراجع کے خلاف شدید زہر اگلا جا رہا ہے(2) شیعہ سنی اتحاد میں بہت بڑا رخنہ ڈالا جا رہا ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ماہِ رمضان کے ٹی وی پروگراموں میں جو چیزیں ڈالی جا رہی تھیں، اس میں پہلے سے کوئی ہاتھ کام کر رہا تھا۔ ہم حق پر ہیں۔ ہمیں کوئی فکر نہیں ہے۔ ہمارا کلمہ خلیفۂ بلا فصل پر مشتمل ہے۔ کسی کا باپ نہ روک سکا۔ یہ وہ اسلام ہے جو رسول خدا لے کر آئے، جس کے لئے جناب زہرا سلام اللہ علیہا نے قربانی دی۔ جس کے لئے بارہ اماموں نے قربانی دے اور جس کے لئے بارہویں امام منتظر ہیں۔ مجھ پر اور آپ پر واجب ہے کہ صبر کریں اور کوئی اینٹی مسلمان میسیج نہ چلائیں تاکہ سازش کرنے والے جان لیں کہ مسلمان متحد ہیں۔آپ نے پوچھا کہ ہم کیا کریں؟ میں نے آپ کو آپ کی ڈیوٹی بتادی۔ اتحاد اتحاد اتحاد۔ اگر اس میں کسی نے ذرا بھی خلل ڈالنے کی کوشش کی تو وہ ذمہ دار ہوگا۔ قائد ملت جعفریہ نے تمام مسالک سے درخواست کی کہ مل کر احتجاج کریں۔ ایسا نہ سمجھیں کہ احتجاج سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ آپ کم از کم بتا دیتے ہیں کہ آپ مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ ہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .