۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
مولانا ابوالقاسم رضوی

حوزہ/ شیعہ اور سنی اسلام کا "میمنہ و میسرا" ہیں۔ یہ اسلام کے دو بازو ہیں۔ کبھی آپ نے دیکھا کہ  ایک بازو سے دوسرا بازو کاٹا گیا ہے؟۔ جب دونوں بازو مل جائیں گے تو پھر اس کے بعد یقینا دشمن کیلئے بہت سخت ہوگا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،شیعہ امام کونسل آسٹریلیا کے صدر و امام جمعہ میلبورن حجۃ الاسلام و المسلمين مولانا سيد ابو القاسم رضوی سے امت مسلمہ پیکر واحد، وحدت اسلامی کے راستے کی رکاوٹیں، مزاحمتی محاذ بیک وقت سامراج مخالف طاقت اور اتحاد بین المسلمین کا مظہر، ہفتہ وحدت منانے کا نظریہ جیسے نکات پر اہم گفتگو کو ہم سوال و جواب کے شکل میں قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔

سوال: رہبر انقلاب اسلامی پوری مسلم امہ کو پیکر واحد سے تعبیر کرتے ہیں، اس کا کیا مطلب ہے؟ ‏

مولانا ابوالقاسم رضوی: آپ کو بھی بہت بہت ولادتِ سرورکائنات، رحمت للعالمین، فخر موجودات، صاحب لولاک لما خلقت الافلاک احمد مجتبی بہت بہت مبارک ہو اور یقینا یہ دن ہے ہی امت کو متحد کرنے کے لئے۔ لیکن صرف آج کا دن نہیں بلکہ ہمیں مستقل متحد رہنا ہے۔ کیونکہ بارہ ربیع الاول سے سترہ ربیع الاول، یہ جو سلسلہ ہے یہ دو تاریخیں اہل سنت کی، ہمارے برادران اسلامی کے ہاں بارہ ربیع الاول ہے اور ہمارے ہاں سترہ ربیع الاول ہے اور بانی انقلاب امام خمینی(رہ) کی ہی کوشش تھی کہ دشمن ناکام ہو۔ اور دیکھیں جب ہمارے درمیان اختلاف ہوگا تو دشمن کامیاب ہوگا۔ ہماری صفوں میں اتحاد ہوگا  تو دشمن کی نیند اڑ جائے گی اور رہبر معظم کا یہ کہنا کہ مسلم امہ ایک پیکر واحدکی طرح ہے توبے شک ایسا ہی ہے۔ اور جب رہبر معظم نے کہا ہے تو اس کی بنیاد حدیث ہے۔ جہاں حدیث میں سرورکائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ"المومنون کالجسد الواحد" مومنین ایک جسم کی طرح ہیں اور جسم کے ایک حصے کو، اگر ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو پھر اس کے بعد پورے جسم کو تکلیف کا احساس ہوتا ہے۔ تو پھر اس کے بعد دنیا میں کہیں بھی کسی مسلمان کوکوئی تکلیف ہو تو دوسرے مسلمان کو اس کا درد ہوگا۔وہ اس تکلیف کو محسوس کرے گا کیونکہ ایک جسم کی طرح سے ہیں اور قرآن مجید کی تعلیم بھی ہے۔ جہاں سورہ آل عمران کی آیت نمبر 103 میں کہا جارہا ہے "واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقوا" اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو۔یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کا وقت ہے۔ آئیے اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں اور اس طرح سے تھامیں کہ پھر اس کے بعد اس رسی کو ہمیں چھوڑنا نہیں ہے۔ "ولا تفرقوا" اپنے درمیان کے تفرقہ کو ختم کرو۔ "واذکروا نعمۃ اللہ علیکم" اور اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو جو اللہ نے تم کو دی ہیں۔ اذکنتم اعداء" تم دشمن تھے ایک دوسرے کے "فالف بین قلوبکم" تو اللہ نے تمہارے دلوں کو جوڑ دیا "فاصبحتم بنعمتہ اخوانا" اور تم اللہ کی دی ہوئی نعمتِ ایمان کے سبب ایک دوسرے کے بھائی ہوئے۔ تو اب یہ نعمتِ ایمان  ہمارے پاس ہے، نعمتِ اسلام ہمارے پاس ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں"المسلم اخ المسلم" قرآن مجید کہہ رہا ہے "انما المومنین اخوۃ" اور پھر قرآن مجید کا یہی تو آگے حکم بھی ہے کہ اگر مسلمین و مومنین کے درمیان (Dispute) ہے تو اس کو ختم کریں ۔

بہترین عبادت؛ "مسلمانوں کے درمیان سے تفرقہ کا خاتمہ"

بہترین یعنی عبادت کیا ہے؟ "مسلمانوں کے درمیان سے تفرقہ کا خاتمہ"۔ نماز و روزہ سے بڑھ کر جس عبادت کو قرار دیا گیا ہے وہ اصلاح، دو لوگوں کے درمیان جو رنجشیں ہیں اس کا خاتمہ۔ تو"کالجسد الواحد" تو جب ہم ایک جسم کی طرح سے ہیں تو اس جسم کا ہمیں خیال کرناہے اور اپنے بھائیوں کا خیال کرنا ہے اور یاد رہے کہ جو آج ہمارے نقصانات ہیں اس کا سبب یہی ہے۔ کیونکہ ہماری صفوں میں اختلاف ہے۔

میں یہیں پر ایک مثال اکثر دیا کرتا ہوں کہ آپ اندازہ لگائیں کہ امت کی ایک ایک فرد بہت اہم ہے۔ نماز جماعت ہورہی ہو دس ہزار لوگ ہیں، رکوع میں ہیں اور ایک نمازی آتا ہے تو اس کا انتظار کیا جاتا ہے رکوع کو طول دیا جاتا ہے شریعت کا حکم ہے۔ تو ایک ایک کو اکٹھا کرو۔ اللہ کی رحمت کے حقدار بن جاؤ گے کیونکہ حدیث کے جملے ہیں "یداللہ علی الجماعۃ" اللہ کی رحمتیں، اللہ کا ہاتھ اس پر ہے، اللہ کی Blessings اس کو ملیں گی کہ جو متحد ہے۔ اختلاف کے نتیجہ میں اللہ کی رحمتوں سے محروم ہوجائیں گے۔ رحمت للعالمین کی ولادت کا وقت ہے۔ آئیے رحمتِ خدا کے مستحق بن جائیں۔ اپنی صفوں کے اختلاف کو ختم کرکے اور یہ یاد رہے کہ یقینا امتِ مسلمہ پیکر واحد ہے اور دشمن اس پیکر کو ٹکڑے نہیں کرسکتا، تقسیم نہیں کرسکتا۔

سوال: وحدت اسلامی یعنی اسلام کے تمام فرقے ایک ساتھ پرامن زندگی بسر کریں، اس میں کہاں رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں، یہ ‏رکاوٹیں ‏عمدی ہیں یا نہیں، ان کو کیسے دور کیا جائے؟ ‏

مولانا ابوالقاسم رضوی: یہ جو آپ کا سوال کہ وحدتِ اسلامی یعنی اسلام کے تمام فرقے ایک ساتھ پرامن زندگی بسر کریں۔ دیکھیں اسلام کا جو ویژن ہے وہ بہت ہی وائڈر (وسیع) ہے۔ یہ اسلام انسانوں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دے رہا ہے۔ یہ اسلام جانوروں کے حقوق کا خیال کرنے کیلئے کہہ رہا ہے۔ جب یہ اسلام جانوروں اور انسانوں کیلئے کہہ رہا ہے تو پھر اس کے بعد یہ تو رسول کے کلمہ گو ہیں، مسلمان ہیں۔

اگر ہم متحد رہیں گے تو اسلام سربلند رہے گا۔ہاں کچھ چیزیں ہیں جو ان کے درمیان ڈیفرینسز (اختلافات) ہیں لیکن بہت سی چیزیں ہیں جو متحد کرسکتی ہیں تو متحد کرنے والی چیزیں جو ہیں، اللہ کی توحید ہے، قبلہ ہے، اللہ کی کتاب ہے، قرآن ہے، عقیدۂ آخرت ہے۔ یہ وہ تمام چیزیں ہیں جو مسلمانوں کو جوڑتی ہیں۔ تو آئیے کیوں نہ کوشش کریں ان تمام نکات کو ان تمام پوائنٹس کو لے کر آئیں جو ہمیں ایک دوسرے سے متحد کرسکیں۔ اسی لئے کیونکہ اگر ہم متحد رہیں گے تو اسلام سربلند رہے گا۔

سوال: مغربی ایشیا کے علاقے میں اسلامی مزاحمتی محاذ ایک طرف استکبار کے خلاف پیکار کا مظہر ہے تو دوسری طرف ‏اتحاد ‏بین المسلمین کا آئینہ بھی ہے کیونکہ اس میں شیعہ و سنی فورسز شامل ہیں اور ایک دوسرے کے لئے قربانیاں دینے پر ‏آمادہ ‏ہیں۔ اس کامیاب تجربے کے درس کیا ہیں؟ ‏

مولانا ابوالقاسم رضوی: یہ دیکھیں مغربی ایشیا کے علاقوں میں جو  Residence ہے جہاں مسلمان متحد ہیں کیونکہ ان مسلمانوں نے دشمن کو پہچان لیا ہے۔ اصلا جب تک ہم اپنے دشمن کو نہیں پہچانیں گے تو ایک دوسرے سے لڑتے رہیں گے اور جب ہم دشمن کو پہچان لیں گے تو اپنے اختلاف کا خاتمہ کریں گے۔ اس لئے کہ ٹکڑوں میں رہ کر، بٹ کر، تقسیم ہوکر دشمن کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اور کتنے افسوس کی بات ہے کہ اسلام کے سارے دشمن متحد ہوجاتے ہیں اور مسلمان متحد نہیں ہوتا۔ ایک اچھی سائن ہے ایک اچھی علامت ہے، جو ویسٹرن ایشیا کے اندر ہے کہ اتحاد بین المسلمین کی بہترین علامت دکھائی دے رہی ہے، ایک بہترین سائن  ہے سمجھ لیں کہ اچھا ہو رہا ہے۔انشاء اللہ یہ توقع رکھتا ہوں میں کہ دنیا میں دوسری جگہوں میں بھی مسلمان متحد ہوجائیں گے۔

اسلام کے سارے دشمن متحد ہیں اور مسلمان متحد نہیں !

یاد رہے کہ شیعہ اور سنی اسلام کا "میمنہ و میسرا" ہیں۔ یہ اسلام کے دو بازو ہیں۔ کبھی آپ نے دیکھا کہ  ایک بازو سے دوسرا بازو کاٹا گیا ہے؟۔ جب دونوں بازو مل جائیں گے تو پھر اس کے بعد یقینا دشمن کیلئے بہت سخت ہوگا اور یاد رہے کہ ہمارے دشمنیوں سے، ہمارے اختلاف سے دشمن کو فائدہ پہنچتا ہے اور ہمیں دشمن کو فائدہ پہنچنے نہیں دینا ہے۔ یہ عہد کرنا ہے اور ہاں! قربانیاں دینا، ایک دوسرے کے لئے قربانی دیں۔ اسلام کی تاریخ  ہے آپ دیکھیں کہ جب مہاجر آئے ہیں مدینہ کے اندر تو کس طریقے سے انصار نے اپنا مال دیا، اپنا گھر دیا ۔ میرے پاس جو چیز ہے اسے آدھی کر رہا ہوں۔ یہ انصار نے کیا یہ تاریخ ہے۔ ایک جنگ کا موقع، آپ اندازہ لگائیں اسلام کی قربانی دیکھیں آپ، اسلام کی تاریخ قربانی سے بھری ہوئی ہے۔ ایک مثال کہ  میدان میں زخمی ہیں اور ایک سقا ہے جو زخمیوں کو پانی پلا رہا ہے کیونکہ ظاہر سی بات ہیے کہ عرب ملکوں میں گرمی بہت ہوتی ہے۔ زخم لگ جائے، خون بہہ جائے تو اس کے بعد پیاس ہوتی ہے کیونکہ بہت زیادہ لگتی ہے۔ اور اب وہ جو سقا پانی پلا رہا ہے جو مرہم پٹی کے لئے لوگ ہیں تو اب جو وہ سقا پانی پلا رہا ہے وہ دیکھ رہا ہے کہ یہ کوئی زخمی ہے اور آخری وقت ہے۔  ایک زخمی کے پاس جاتا ہے پانی لے کر تو وہ کہتا ہے کہ "نہیں مجھ  سے زیادہ میرے دوسرے بھائی کو ضرورت ہے"۔ دوسرے کے پاس پہنچتا ہے وہ کہتا ہے "نہیں مجھے بعد میں پہلے اسے دے دو"۔ دوسرا تیسرے کے پاس، تیسرا چوتھے کے پاس تو چوتھا جب پہلے کے پاس بھیجتا ہے نا تو پہلے کی جان جاچکی تھی، دم نکل چکا تھا، شہہید ہوچکا تھا۔ یہ چاروں شہید تو ہوئے تھے اسلام کیلئے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے ساتھ میدان جنگ میں گئے تھے، زخمی بھی ہوئے تھے لیکن انہوں نے وحدتِ امت پر اپنی جانیں قربان کردی تھیں ۔ تو آئیے سرکارِ ختمی مرتبت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی زندگی میں جو وحدتِ امت کا ایک تصور تھا اس تصور کو آگے بڑھائیں اور اس جشن کی اہمیت کو اور بڑھادیں، اس میں اضافہ کردیں انشاء اللہ۔

سوال: تصور کیجئے کہ عالم اسلام متحد ہو جائے تو دنیا کی کیا تصویر ہوگی اور اس میں عالم اسلام کی کیا حیثیت ہوگی؟ ‏

مولانا ابوالقاسم رضوی: کیا کہنے! خدا کرے کہ یہ خواب جو ہے اس کی تعبیر مل جائے کہ تصور کی یہ ایک عالم اسلام متحد ہوجائے۔ ظاہر سی بات ہے عالم اسلام اگر متحد ہوجائے تو دنیا سے کرپشن کا خاتمہ ہوجائے گا۔ عالمِ اسلام متحد ہوجائے تو ظلم کا خاتمہ ہوجائے گا۔ عالم اسلام متحد ہوجائے تو پھر اس کے بعد حقوق پامال نہیں ہوں گے کیونکہ اسلام کا تصور ہی یہی ہے کہ حقوق کی ادائیگی ہو، ظلم کا خاتمہ ہو، عدل و انصاف کی حکومت قائم ہو۔ لیکن یاد رہے کہ ہمیں خواب نہیں دیکھنا ہے۔ خواب کی تعبیر بننا ہے اور خواب کی تعبیر بننے کیلئے کوشش کرنی ہو گی۔ کئی مرتبہ بہت سی باتیں جب ہوتی ہیں تولوگ کہتے ہیں کہ  ٹاسک بہت مشکل ہے۔

عالم اسلام کو متحد کرنے کیلئے ہم اپنے محلہ سے، اپنے شہر سے، اپنی پڑوس کی مساجد سے سفر شروع کردیں۔  دیکھیں! عالم اسلام کو متحد کرنے کیلئے ہم اپنے محلہ سے، اپنے شہر سے، اپنی پڑوس کی مساجد سے سفر شروع کردیں۔ شیعہ سنی جو ایک محلہ میں رہتے ہیں وہ بارہ ربیع الاول کو شیعہ انہیں مبارک باد دیں اور سترہ ربیع الاول کو سنی انہیں مبارکباد دیں۔ لیکن یہ صرف بارہ اور سترہ ربیع الاول  کا نہیں بلکہ سال بھر کا رہے۔ ان کے دکھ سکھ میں شریک ہوجائیں۔ دیکھیں یہ دونوں اگر ایک دوسرے سے متحد ہوجائیں تو یہ چیز آگے آگے بڑھے گی لیکن یہ کام شروع کرلیں گے تو یقینا کہ عالم اسلام متحد ہوگا اور عالم اسلام اگر متحد ہوتا ہے تو اللہ کا  وہ وعدہ پورا ہوگاکہ " هُوَ الَّذي أَرسَلَ رَسولَهُ بِالهُدىٰ وَدينِ الحَقِّ لِيُظهِرَهُ عَلَى الدّينِ كُلِّهِ وَلَو كَرِهَ المُشرِكونَ" کہ اللہ نے رسول کو دینِ حق کے ساتھ اور ہدایت کے ساتھ بھیجا ہے اور اسلام کو تمام ادیان پر خدا غالب کرے گا کہ جو ادیان پر اسلام کے غالب کرنے کا خدا نے تین مقامات پر وعدہ کیا ہے سورہ توبہ میں، سورہ فتح میں، سورہ صف میں تو یہ وعدہ اسی وقت شرمندۂ تعبیر ہوگا کہ جب مسلمانوں کی صفوں میں اتحاد ہوگا چونکہ اتحاد سے بڑی کوئی نعمت نہیں ہے۔

سوال: برادران اہل تسنن بارہ وفات مناتے ہیں، اہل تشیع 17 ربیع الاول کو آنحضرت کا یوم ولادت مناتے ہیں۔ ایران کے اسلامی نظام میں یہ فیصلہ کیا گيا کہ کہ بارہ سے 17 ربیع الاول تک ھفتہ اتحاد منایا جائے، اس فیصلے پر آپ کا کیا تبصرہ ہے۔

مولانا ابوالقاسم رضوی: جی ہاں! برادرانِ اہلِ تسنن میں نے جو پہلے سوال کے جواب میں کہا تھا کہ وہ بارہ ربیع الاول کو مناتے ہیں اور اہل تشیع سترہ ربیع الاول۔ ظاہر سی بات ہے آپ اندازہ لگائیں کہ پورا ایک ہفتہ جو ہے نا وہ جشن منایا جائے اور پھر اس کے بعد رسول کی تعلیمات پر گفتگو ہو، رسول کی زندگی جو ہے جہاں اخلاق ہے، جہاں عفو ہے، جہاں درگذر ہے، جہاں سچائی ہے، جہاں ایمانداری ہے، جہاں دیانت ہے، جہاں محبت ہے، جہاں لوگوں کی مدد ہے۔ یہ خلق رسالت مآب جو ہے نا، ان بارہ سے سترہ ربیع الاول میں اتنی روشنی کرتے ہیں خلقِ رسالت مآب کے نام پر۔ چراغاں کرنا ہے ہمیں لیکن خلقِ پیغمبری کے نام پر جو چراغاں کریں گے نا، کہ پھر اس کے بعد تاریکی نہ رہنے پائے تو یہ جو کام ایران میں ہوا الحمدللہ دنیا کی بہت سی جگہوں پر کیا جارہا ہے اور الحمدللہ یہاں پر بھی ہوتا ہے۔ اگر یہ ایسا کیا جائے گا تو یقینا ہماری صفوں میں جو اختلاف ہے اس کا خاتمہ ہوگا۔ ایسا نہیں ہے کہ مسلمانوں میں اختلاف نہیں ہے، اختلاف ہے۔لیکن ایسا نہیں ہے کہ مسلمان متحد نہیں ہوسکتے۔ مثال آپ کے پچھلے سوال میں بھی جواب مل چکا ہے۔ اس کے مثال ایران بھی ہے، اس کی مثال اسلام کی وہ درخشاں تاریخ بھی ہے، اس کی مثال آپ دیکھیں کہ امام خمینی (رہ) کا ایک بہترین قول ہے ماہ مبارک رمضان میں آخری جمعہ "جمعۃ الوداع" قدس کے سلسلہ میں۔ قول تو امام خمینی (رہ)نے دیا لیکن پوری دنیا کے مسلمان جو ہیں یہودیت کے خلاف، صہیونیت کے خلاف کھڑے ہیں یا نہیں کھڑے ہیں؟۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں میں بہتری آرہی ہے اور اس جشن کے صدقہ میں ان شاء اللہ تعالی مجھے بہت امید ہے، بہت توقع ہے کہ اختلافات ختم ہوں گے۔ یہ جو مغربی ایشیا کی مثال دی گئی ہے انشاء اللہ پورے عالم کے اندر بارہ سے سترہ ربیع الاول،

ہمیں چاہیے کہ ہماری تقریبات میں تعلیماتِ نبوی کو بیان کریں اور اسےعام کیا جائے۔

عزیزو! یہ جو جشن منایا جائے اس میں تعلیماتِ نبوی کو بیان کیا جائے، عام کیا جائے۔ انشاء اللہ تعالی آپ اور ہم دیکھیں گے کہ اس کے بہترین نتائج انشاء اللہ تعالی اسلام کی سربلندی اسی صورت میں ممکن ہے۔ خدا ہم سب کو توفیق دے، خدا ہم سب کی صفوں کے اختلاف کا خاتمہ کرے اور خداوند تعالی ہمیں توفیق دے کہ یہ جو ہمارے روٹھے ہوئے بھائی ہیں، جو ناراض ہیں، جو دور ہوگئے ہیں انہیں قریب کرنے کی۔ اس لئے کہ جب انہیں قریب کرلیں گے تو رب کی رضا ہم سے قریب ہوجائے گی اور حقیقت میں یہی رسول اللہ کا بہترین جشن ہوگا کہ جس دن امتِ مسلمہ میں ہر طرح کا اختلاف ختم ہوجائے گا اور سب مل کر رسول کا جشن منائیں گے۔

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ***

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .