۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
خطبہ فدک کی روشنی میں دشمن کا تدریجی نفوذ اور اسکی علامتیں

حوزہ/ ہر طرف مسلمانوں کے اوپر عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے اورآج اسلام اور مسلمانوں کا وہ حال ہے جس کا  خواب میں بھی تصور نہیں کیا جا سکتا تھا کیا ان تما چیزوں کے پیچھے علی  (ع) کی تنہائی اور فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا  کی مظلومیت نہیں ہے۔

تحریر: مولانا سید نجیب الحسن زیدی

تمہید :
حوزہ نیوز ایجنسی
دوستی و دشمنی کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی انسان کی تاریخ ، جب سے انسان سے اس دنیا میں قدم رکھا ہے جب سے آپسی مفادات کے درمیان ٹکراو کی صورت پیدا ہوئی ہے تبھی سے دشمنیوں نے بھی جنم لیا ہے ۔ایک زمانہ تھا جب دوستی و دشمنی کا معیار قوم قبیلہ و رنک و نسل کو بنایا جاتا تھا لیکن آج دوستی و دشمنی کی بنیاد نظریات پر ہے ، دنیا میں ہر طرف نظریات کا تصادم نظر آتا ہے ایسا نہیں ہے کہ قوم قبیلہ و رنگ و نسل کی بنیادوں پر اب دشمنیاں ختم ہو گئی ہوں وہ اپنی جگہ پر اب بھی قائم ہیں اور ہم وقتا فوقتا انکی بنیاد پر ٹکراو و تصادم کو بھی دیکھتے رہتے ہیں لیکن نظریاتی دشمنی کی بنیاد پر جو خون خرابہ ہورہا ہے اسکی بات ہی الگ ہے ۔حضور سرورکائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کسی سے دشمنی ذاتی نہ تھی نہ قوم قبیلے سے کوئی دشمنی تھی پھر بھی آپکو جنگیں لڑنا پڑیں جن کے پیچھے نظریہ ہی کارفرما تھا ،یہ حضر ت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا کارنامہ تھا کہ آپ نے ۲۳ سال کی مختصر سی مدت تبلیغ میں قوم قبیلہ و رنگ و نسل کے فرق کو مٹا کر اس جاہل معاشرے کو توحید کے محور تلے جمع کر دیا جو ذرا ذرا سی بات پر چالیس چالیس سال جنگوں کا تجربہ رکھتا تھا وہ لوگ جو اب تک قوم قبیلہ کی بنیادوں پر مال و منال و مقام و منصب و دنیا کے لئے لڑ رہے تھے وہی ہر چیز کو بھلا کر توحید کی بالا دستی کے لئے اہل باطل سے لڑتے نظر آئے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اتنا بڑا انقلاب بپا کر دیا کہ جو کل تک ایک دوسرے کا منھ دیکھنا گوارا نہیں کرتے تھے وہی اب شانہ بشانہ توحید کے لئے دشمن خدا سے لڑنے اور راہ خدا میں شہادت کو اپنے لئے باعث افتخار سمجھنے لگے ، اسلام کی جتنے بھی جنگیں ہیں کسی میں بھی تلاش کرنے کے باوجود کہیں شخصی و ذاتی دشمنی کا پہلو نظر نہیں آتا ابتدائے اسلام سے لیکر اب تک ہر جگہ نظریہ کی بنیاد پر کلمہ گویوں سے دشمنی کی گئی ہے ، اور آج تک یہی سلسلہ جاری ہے۔ نظریہ کی بنیاد پر دشمنی جب بھی ہوئی ہے دشمن کو ہر اس جگہ شکست فاش ہوئی ہے جہاں ہم نے دشمن کے حربوں و اسکی نیرینگی چالوں کو پہچان کر بروقت فیصلہ لیا ہے اور دشمن کو دوستوں کے بھینس میں اپنی صفوں میں داخل ہونے سے روکے رکھا ہے ،اس لئے کہ دشمن جب دیکھ لیتا ہے کہ اب حق سے مقابلہ نہیں ممکن تو وہ تفنگ و تلوار و نیزے و بھالے لیکر نہیں آتا ہے وہ لبوں پر مسکراہٹ سجا کر ہاتھوں میں پھولوں کا گلدستہ لیکر دوست کے روپ میں آتا ہے اور بڑی خاموشی کے ساتھ آتا ہے ، پیش نظر تحریر میں ہم نے بی بی زہرا سلام اللہ علیہا کے خطبہ فدک کی روشنی میں اسی بات کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے کہ دشمن کس طرح دھیرے دھیرے خاموشی کے ساتھ ہمارے درمیان داخل ہو کر فتنوں کے شعلے بھڑکاتا ہے اور ہم کس طرح دشمن کے نفوذ کو بروقت اسکی شناخت کے ذریعہ روک سکتے ہیں ۔

دشمن شناسی کی ضرورت و اہمیت :
ہم غور کریں تو اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ یہ دنیا مقابلے کی جگہ ہے یہ رزم گاہ ہے اس میں بازی اس کی ہے جو بڑھ کر آگے کی چال ڈالے اور حریف کو پسپا کر دے اور اس بات میں دو رائے نہیں کہ ہر قسم کے مقابلے کیلئے دشمن کی پہچان پہلی ضرورت ہے، وہ معاشرے جوآج گمنامی کا شکار ہیں اور انہیں کوئی پوچھتا تک نہیں اگر ان کی تاریخ اٹھا کر دیکھی جائے تو نظر آئے گا کہ ان کی تباہی اسی وجہ سے ہوئی کہ انہوں نے دشمن کو پہچاننے میں غلطی کی اور آپ اگر کسی کامیاب قوم کو آگے بڑھتے اور تاریخ سے اس کی کامیابی کا راز معلوم کریں تو تاریخ یہی بتائے گی کہ کامیابی کے دیگر اصولوں کی رعایت کے ساتھ اس قوم کو ایک اور ہنر آتا ہے جس کی وجہ سے یہ کامیاب ہے وہ ہے دشمن کی صحیح شناخت اور اس کے حملوں کو پسپا کرنے کی طاقت۔ آج کے دور میں بھی بڑی طاقتیں اس بات پر بہت بجٹ لگاتی ہیں کہ دشمن کی شناخت حاصل کر سکیں لہذا پیچیدہ قسم کے سسٹم بنانے اور مٹانے کے بعد کہیں وہ ایسا فارمولہ بنا پاتی ہیں جس کے ذریعے دشمن کی نقل و حرکت پر نظر رکھ سکیں اور یہی ان کی بڑی کامیابی کے طور پر جانا جاتا ہے کہ انہوں نے دشمن کو پہچان لیا ہے اور وہ اس کام کے لئے اربوں اور کھربوں کا بجٹ خرچ کر دیتی ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ آج کی دنیا میں بھی یہ تسلیم شدہ اصل ہے کہ آگے بڑھنا ہے تو دشمن کی شناخت ضروری ہے۔یقینا کسی بھی معاشرے یا فرد کی کامیابی میں ضروری ہے کہ مختلف پہلووں میں انسان یہ جان لے کہ اس کا دشمن کہاں اور کون ہے؟ اس لئے کہ جب تک انسان جانے گا نہیں اسے نقصان کہاں سے اور کون پہنچا رہا ہے تو اس کا سد باب نہیں کر سکےگا۔
انسان کی فطرت سے اس کا ماحول اس وقت تک سازگار نہیں ہوتا ہے جب تک اس پر حملہ کرنے والے کو نہ پہچانا جائے یہی وجہ ہے کہ انسان نے عالم طبیعت میں جب یہ پہچان لیا کہ مثلا اس کی طبیعت کے اضمحلال میں فلاں قسم کے میکروب اثر انداز ہوتے ہیں انسان کا بدن فلاں ماحول اور موسم میں حملوں کی زد میں ہوتا ہے تو انسان خود کو بچاتا ہے، انسان نے جب تک دنیا میں میکروب کی شناخت نہ کی تھی نہ جانے کتنے انسان انجانے میکروب و بیکٹریا کا شکار ہو کر چل بسے لیکن جب انسان نے پہچان لیا کہ میکروب کتنے قسم کے ہوتے ہیں اور انکا عمل کیا ہوتا ہے انکا سسٹم کیا ہے تو اب انسان نے اس کا علاج نکالا اسی لئے آج علم طب نے مختلف میکروب و جراثیم سے لڑنے کی دوائیں تیار کر لی ہیں۔ کرونا کی وبا آپ کے سامنے کس طرح پوری دنیا کو اس وبا نے اپنے پنجوں میں جکڑ کر مفلوج کر دیا ہے اگر اسکی وجہ کو تلاش کیا جائے تو نظر آئے گا یہ انتہائی جدید قسم کی بیماری ہے جس سے ملتی جلتی بیماریاں پہلے ضرور تھیں لیکن فطرت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اور وائرس کے ساتھ انسان کے کھیل نے سارا کھیل بگاڑ دیا یہی وجہ ہے کہ اس سے مقابلہ کے لئے صحیح اور دقیق طور پر مکمل علاج ابھی تک دریافت ہیں ہو سکا ہے اور میڈیکل رسرچ جاری ہے ، جب تک وائرس کے صحیح شناخت نہی ہو جاتی ہے اسکی دوا بننا بہت مشکل ہے ،چاہے یہ کرونا کی وبا ہو یا دوسرے امراض ہر جگہ دوا اسی وقت بن پاتی ہے جب مرض کی صحیح تشخیص ہو جائے اور پتہ چل جائے اس مرض کی تباہ کاریاں کیا ہیں اور بدن میں داخل ہونے کے راستے کیا کیا ہیں جتنا جتنا انسان مختلف جراثیم کے مہلک اثرات کو پہچانتا جائے گا اتنا ہی ان سے بچنے کا تدارک بھی کر تا جائے گا دشمن بھی اسی طرح ہے جب تک پہچانا نہیں جائے گا اس کی زد پر آ کر معاشرہ خاموشی کے ساتھ موت کی آغوش میں سوتا رہے گا لیکن جب اسے پہچان لیا جائے گا کہ ہمارا دشمن یہ ہے تو انسان اس سے مقابلہ کرے گا۔ کتنی ہی ایسی اقوام ہیں جو دشمن شناسی نہ ہونے کی وجہ سے ہلاک ہوگئیں، یا دشمن سے غفلت کے نتیجہ میں اور بصیرت اور صحیح راستے کا علم نہ رکھنے کے باعث غیروں کے چنگل میں پھنس کر ان کا نوالہ بن گئیں۔ جس طرح ایک ماہر شطرنج باز کا کمال یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے مد مقابل حریف کی فکر کو پڑھ لیتا ہے اور ایسی چال چلتا ہے کہ طرف مقابل بھول ہی جاتا ہے کہ اسے کیا کرنا ہے اسی طرح دشمن شناسی بھی ہے جو انسان اپنے دشمن اور اس کی چالوں سے واقف و با خبر ہوتا ہے وہ کبھی اس کی چال میں گرفتار نہیں ہوتا ہے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ انسان خود غفلت کا شکار نہ ہو اور بیدار ہو امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ اپنے ایک بیان میں فرماتے ہیں:
"ہمیں غفلت کا شکار نہ ہو کرہمیشہ بیدار اور ہوشیار رہنا ہوگا، ہمیں چاہیئے کہ دشمن کی سازشوں کو عملی جامہ پہننے سے پہلے بھانپ لیں اور انہیں پہچان کر ناکام بنا دیں صحیفہ نور ج7 ص48 لہذا ضروری ہے کہ انسان پر پل اور ہر لحظہ بیدار رہے اور اپنے دشمن سے ہوشیار رہے اگر وہ غفلت برتے گا تو ہلاکت اس کا مقدر ٹہرے گی جیسا کہ امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں: جو اپنے دشمن کے مقابلے میں خواب غفلت کا شکار ہوگا تو پھر دشمن کا فریب ہی اسے چونکائے گا۔ غررالحکم ج5 ص344۔ دشمن کو اگر پہچاننا ہے تو آنکھ بند کر کے پڑے رہنے سے کچھ نہیں ہوگا حرکت میں آنا ہو گا مسلسل آگے بڑھنا ہوگا خود دشمن پر چوٹ کرنا ہوگی کہ وہ ہم پر چوٹ نہ کرے چنانچہ
امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں : وَ اللَّهِ لَا أَكُونُ كَالضَّبُعِ تَنَامُ عَلَى طُولِ اللَّدْمِ حَتَّى يَصِلَ إِلَيْهَا طَالِبُهَا وَ يَخْتِلَهَا رَاصِدُهَا وَ لَكِنِّي أَضْرِبُ بِالْمُقْبِلِ إِلَى الْحَقِّ الْمُدْبِرَ عَنْهُ وَ بِالسَّامِعِ الْمُطِيعِ الْعَاصِيَ الْمُرِيبَ أَبَداً حَتَّى يَأْتِيَ عَلَيَّ يَوْمِي فَوَاللَّهِ مَا زِلْتُ مَدْفُوعاً عَنْ حَقِّي مُسْتَأْثَراً عَلَيَّ مُنْذُ قَبَضَ اللَّهُ نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ حَتَّى يَوْمِ النَّاسِ هَذَا .
خدا کی قسم میں اس بجو کے مانند نہیں ہو سکتا جس کا شکاری مسلسل کھٹکھٹاتا رہتا ہے اور وہ آنکھ بند کئے پڑا رہتا ہے ، یہاں تک کہ گھات لگانے والا اسے پکڑ لیتا ہے۔میں حق کی طرف آنے والوں کے ذریعہ انحراف کرنے والوں پر اوراطاعت کرنے والوں کے سہارے معصیت کا ر تشکیک کرنے والوں پر مسلسل ضرب لگاتا رہوں گا یہاں تک کہ میرا آخری دن آجائے۔ نھج البلاغہ خطبہ ۶ ترجمہ علامہ جوادی ۔ ص ۲۷ مولا نے یہاں پر بجو کی مثال دی ہے جسکی بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایسا جانور یا پرندہ ہے جو بہت جلدی اپنے شکاری کے جال میں پھنس جاتا ہے بجو کو عربی میں ام عامر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔اس کے شکار کا طریقہ یہ ہے کہ شکاری اس کے گرد گھیرا ڈال کر زمین کو تھپتھپاتا ہے اور وہ اندر سوراخ میں گھس کر بیٹھ جاتا ہے۔پھر شکاری اعلان کرتا ہے کہ ام عامر نہیں ہے اور وہ اپنے کو سویا ہوا ظاہر کرنے کے لئے پیر پھیلا دیتا ہے اور شکاری پیر میں رسی باندھ کر کھینچ لیتا ہے ۔یہ انتہائی احمقانہ عمل ہوتا ہے جس کی بنا پر بجو کو حماقت کی مثال بنا کر پیش کیا جاتا ہے آپ(ص) کا ارشاد گرامی ہے کہ جہاد سے غافل ہو کر خانہ نشین ہو جانا اور شام کے لشکروں کو مدینہ کا راستہ بتا دینا ایک بجو کا عمل تو ہو سکتا ہے لیکن عقل کا اورباب مدینة العلم کا کردارنہیں ہوسکتا ہے۔ نھج البلاغہ خطبہ ۶ ترجمہ علامہ جوادی ۔ ص ۲۷ یقینا دشمن کو نہ پہچاننے کا نتیجہ قوم و ملت کی تباہی ہے لہذا ہمیں بیدار رہنے کی ضرورت ہے ظاہری دوست اور حقیقی دوست کی شناخت کی بھی ضرورت ہے ان دشمنوں کو پہچاننے کے لئے بصیرت فاطمی کی ضرورت ہے جو چولے بدل بدل کر آتے ہیں لیکن انکی دشمنی اپنی جگہ پر رہتی ہے ۔

دشمن اور مخالف میں فرق :
ہر فکر و نظریئے کے ساتھ ایسا ہوتا ہے کہ اس کے مقابل قرار پانے والے افراد اگر اس سے متفق نہیں ہوتے تو دو طرح کے رد عمل کو پیش کرتے ہیں:
۱۔ یا تو اس نظریئے کے واضح طور پر مخالف ہوتے ہیں اور سر عام اس کی مخالفت کا اعلان کرتے ہیں اور اسے تسلیم نہیں کرتے اگر یہ تسلیم نہ کرنا محض اس لئے ہو کہ انہیں نظریئے میں کچھ لوچ نظر آتی ہے اور ان کے لئے یہ نظریہ واضح دلیلوں کے بنیاد پر قابل قبول نہیں ہوتا اور ان کی مخالفت مبنایی اور اصولی ہوتی ہے تو اسے مخالف کہا جاتا ہے لیکن جب یہی مخالفت بغیر کسی مبنیٰ کے عناد کی بنیا د پر ہو تو اسے دشمن سے تعبیر کیا جاتا ہے مخالفت کا بالکل واضح و آشکار ہونا واضح دشمنی کی دلیل ہے لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان عناد بھی رکھتا ہے اور مخالف بھی ہوتا ہے مخالفت بھی کوئی مبنائی نہیں ہوتی بےمبنیٰ مخالفت اسے عناد کی آگ میں جلاتی ہے اور وہ اسے دل میں رکھتا ہے اپنے اہداف و مقاصد تک پہنچنے کے لئے نفاق کا سہارا لیتا ہے اس کا سارا ہم و غم یہ رہتا ہے کہ ابھی حالات سازگار نہیں ہیں جیسے ہی سازگار ہوں گے ہم اپنا کام کرلیں گے لہذا ایسے مخالفین کبھی کھل کر میدان میں نہیں آتے پس پردہ اپنا کام کرتے رہتے ہیںانہیں کو پوشیدہ دشمن کہا جاتا ہے یہ دشمن واضح اور آشکار دشمن سے بہت خطرناک ہوتا ہے اتنا خطرناک کہ آستین تک در آتا ہے اور جب باہر نکلتا ہے تو آستین سے سرسرا کر کسی دوسری کی آستین میں پہنچ جاتا ہے جبکہ صاحب آستین کا کام تمام ہو چکا ہوتا ہے لہذا ضروری ہے ہم دشمن کو پہچانیں تاکہ نہ سامنے سے حملہ کرنے والے کو موقع دیں نہ چھپ کر حملہ کرنے والے کو حملہ کرنے کی فرصت نصیب ہو سکے۔

دشمن شناسی کا پہلا مرحلہ:
دشمن شناسی کے پہلے مرحلے میں ضروری ہے کہ انسان اپنے فکری خطوط کو معین کرے اپنے ہدف کی تعیین کرے اپنے اقدار واغراض کو پہچانے اور دوست و دشمن کا ایک جامع معیار بنائے تاکہ اس کے مطابق دوست و دشمن میں تمیز کر سکے اور اس سلسلے میں وہم و مغالطہ کا شکار نہ ہو لہذا ایسی تعریف ضروری ہے جو تمام افراد پر مشتمل ہو اور جو دشمن نہ ہو اس میں شامل نہ ہو، علماء کے بقول جامع و مانع ہو۔ جب دشمن کی بات آتی ہے اور ہم اس کی تعریف تلاش کرتے ہیں تو ہمیں مشکل کا سامنا یقینی ہے اس لئے کہ اگر ملاک و معیار ہماری دنیا بن گئی یا دنیا کی کوئی بھی ایسی چیز جس کا حصول ہمارا مقصد ہے تو جو بھی اس کے لئے رکاوٹ ہوگا وہ ہمارا دشمن ٹہرے گا جبکہ واضح سی بات ہے دشمنی کا یہ معیار ثابت نہیں ہے اور دنیا کے مفادات کے ساتھ بدلتا رہے گا ایسے میں ممکن ہے دنیا کے حصول میں ہم آنکھ کان بند کر کے لگ جائیں اور آخرت کو بھلا دیں اور ہمارا کوئی دوست دنیا طلبی کی راہ میں ہمارا مانع ہو تو وہ ہماری نظر میں دشمن بن جائے، جبکہ حقیقت میں دیکھا جائے تو وہ ہمارا دشمن ہرگز نہیں بلکہ ہمارا بہی خواہ ہے اور قرآن نے بھی ہر ایک کو دشمن نہیں کہا ہے بلکہ قرآن نے تو ان لوگوں سے رابطہ کو ہرگزممنوع قرار نہیں دیا ہے دین کے سلسلہ سے ہماری مخالفت نہیں کرتے ہیں ارشاد ہوتا ہے " لا يَنْهَاكُمُ اللّـٰهُ عَنِ الَّـذِيْنَ لَمْ يُقَاتِلُوْكُمْ فِى الدِّيْنِ وَلَمْ يُخْرِجُوْكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ اَنْ تَبَـرُّوْهُـمْ وَتُقْسِطُوٓا اِلَيْـهِـمْ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ
"اللہ تمہیں ان لوگوں سے منع نہیں کرتا جو تم سے دین کے بارے میں نہیں لڑتے اور نہ انہوں نے تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا ہے اس بات سے کہ تم ان سے بھلائی کرو اور ان کے حق میں انصاف کرو، بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
اسکا مطلب ہے ہمیں ہر ایک سے دشمنی بھی مول لینے کی ضرورت نہیں ہے دشمنی انہیں سے مول لینا ہے جو ہمارے دین کے مخالف ہوں یا ہمیں تباہ و برباد کرنے دینے پر تلے ہوں اب ایسے میں سب سے پہلے تو ضروری ہے کہ ہم سمجھیں کہ حقیقت میں دشمن ہوتا کون ہے تاکہ اس کے معنی کے روشنی میں ہم اس کی تطبیق اس طرح کر سکیں جو حقیقت مبنی ہو۔

دشمن کے لغوی و اصطلاحی معنی:
عدو، مادہ عدو، عداء سے تجاوز کرنے کے معنی میں ہے العدو وھو التعدی فی الامر وتجاوز ما ینبغی لہ ان یقتصر علیہ العداوۃ، العین، کلیل بن احمد فراہیدی، ج2، ص313، لسان العرب، ج15، ص33، مجمع البحرین، ج1، ص283، معجم مقاییس اللغۃ ج4، ص249۔ اسی لئے دشمنی کو اعدی علیہ، یعنی اس پر تجاوز کیا کے طور پر پیش کیا گیا (ایضا مزید تفصِل کے لئے ملاحظہ ہو دشمن شناسی، ص11، علی شیرازی، موسسہ فرہنگی خادم الرضا علیہ السلام) تجاوز کرنا اور حد سے گذر جانے کو ظلم کے معنی میں بھی بیان کیا گیا۔ والعدوان ولاعتداء، لسان العرب، ج15، ص33۔
دشمن کے اصطلاحی معنی کو اس طرح بیان کیا گیا ہے: عدو یعنی دشمن، وہ دشمن جو دل میں بغض رکھتا ہے اور اسی بغض کے مطابق عمل انجام دیتا ہے ( تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو قاموس قرآن، ج4، ص35۔) اسی لئے بغض رکھتے ہوئے انسان کسی کو گرانے کے لئے دل میں پائی جانے والی نفرت کے مطابق کسی کے لئے کچھ کرے تو اسے عداوت کہتے ہیں دشمن کی لغوی و اصطلاحی تعریف کے بعد اب ہمیں اس کی قسموں کو بھی دیکھنا ہوگا:
دشمنی دو طرح کی ہو سکتی ہے: ایک وہ جس کے اندر نفرت و دشمنی کی آگ جل رہی ہو جیسے کسی کو قتل کر دیا گیا ہو اور اس کے وارث انتقام کے در پہ ہوں جس کی طرف قرآن میں بھی اشارہ ہے۔ (فَإِن كَانَ مِن قَوْمٍ عَدُوٍّ لَّكُمْ، نساء 92.)
دوسرا وہ جہاں انسان کسی چیز سے ناراض ہے اور کسی پر غضباک ہے جیسے جناب ابراہیم کی کیفیت بتوں کے سلسلے سے تھی کہ آپ انہیں دشمن تعبیر کرتے ہیں جبکہ وہ بے جان ہیں اور آپ کو کوئی نقصان بھی پہچاننے والے نہیں ہے لیکن آپ انہیں اس لئے دشمن قرار دیتے ہیں (فَإِنَّهُمْ عَدُوٌّ لِّي إِلَّا رَبَّ الْعَالَمِينَ، شعراء 77) کہ آپ کی اذیت کا سبب تھے اور کافر انہیں خدا مانتے تھے۔
یقینا دونوں ہی قسم کے دشمن کا معیار اگر اللہ کا دین اور اس کی کتاب ہو تو انسان دشمن کے پہچاننے میں غلطی کا مرتکب نہیں ہوگا کیونکہ جہاں قرآن نے مختلف مقامات پر دشمن کے سلسلے سے متوجہ کیا ہے (ایک سو چھ بار کلمہ عدو اور اس کے مشتقات قرآن میں بیان ہوئے ہیں، المعجم الاحصائی، ج1، ص 492۔) وہیں ان لوگوں کو بھی واضح طور پر پہچنوا دیا ہے جو خدا، دین خدا اور کتاب خدا کے دشمن ہیں

خطبہ فدک اور دشمن کے تدریجی نفوذ کی نشانیاں :
قرآن کریم و روایات کی روشنی میں کسے دشمن کہا گیا ہے اور اس کا کیونکر مقابلہ کیا جائے؟ یہ اپنی جگہ خود ایک مستقل موضوع ہے، فی الحال جس بات کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے وہ یہ کہ دشمن کی شناخت کے بعد ہماری سب سے ضروری قدم یہ ہونا چاہیے کہ جب ہم نے اسے پہچان لیا ہے تو ہرگز اسے نفوذ کا موقع نہ دیں اور اگر نفوذ کا موقع دیا گیا تو نتیجہ ہمارے سامنے ہوگا کہ وقت کا علی ع تنہا ہوگا فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا دروازہ جلایا جائے گا محسن کی شہادت ہوگی اور بات یہیں پہ ختم نہیں ہوگی بات کربلا تک پہنچے گی اور پھر کربلا کے بعد نہ جانے کتنی ہی ظلم کی داستانیں لکھی جائیں گی یہی وجہ ہے کہ بی بی دوعالم شہزادی کونین نے سخت و بحرانی ترین حالات میں ہمیں متوجہ کیا ہے کہ دشمن کے نفوذ کو روکنا ضروری ہے اسکاتدارک ضروری ہے ورنہ وہ ہماری جڑوں کو کھوکھلا کر دے گا اور کوئی کچھ نہ کر سکے گا ، حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نے اپنے معروف خطبہ فدک میں انہیں باتوں کی طرف اشارہ کیا ہے ۔
آپ فرماتی ہیں :
..."ثُمَّ لَمْ تَلْبَثُوا إِلَّا رَیثَ أَنْ تَسْکنَ نَفْرَتُهَا، وَ یسْلَسَ قِیادُهَا، ثُمَّ أَخَذْتُمْ تُورُونَ وَقْدَتَهَا، وَ تُهَیجُونَ جَمْرَتَهَا، وَ تَسْتَجِیبُونَ لِهُتَافِ الشَّیطَانِ الْغَوِی، وَ إِطْفَاءِ أَنْوَارِ الدِّینِ الْجَلِی، وَ إِهْمَادِ سُنَنِ النَّبِی الصَّفِی، تَشْرَبُونَ حَسْواً فِی ارْتِغَاءٍ، وَ تَمْشُونَ لِأَهْلِهِ وَ وُلْدِهِ فِی الْخَمْرَةُ وَ الضَّرَاءِ، وَ نَصْبِرُ مِنْکمْ عَلَى مِثْلِ حَزِّ الْمُدَى، وَ وَخْزِ السِّنَانِ فِی الْحَشَا،"
... پھر تمھیں خلافت حاصل کرنے کی اتنی جلدی تھی کہ خلافت کے بدکے ہوے ناقہ کے رام ہونے اور مہار تھامنے کا بھی تم نے مشکل سے انتظار کیا، پھر تم نے آتش فتنہ کو بھڑکایا اور اس کے شعلے پھیلانے شروع کر دیے اس طرح تم شیطان کی گمراہ کن پکار پر لبیک کہنے لگے تم دین کے روشن چراغوں کو بجھانے اور برگزیدہ نبیؐ کی تعلیمات سے چشم پوشی کرنے لگے، تم بالائی لینے کے بہانے پورے دودھ کو پی جاتے ہو اور رسول کی اولاد اور اہلبیت کے خلاف خفیہ چالیں چلتے ہو تمہاری طرف سے خنجر کے زخم اور نیزے کے وار کے باوجود ہم صبر سے کام لیں گے ۔{ہم تمہاری جانب سے دئے گئے زخموں پر ایسے صبر کریں گے جیسے کسی کو بڑے چاقوں گود دیا ہو اور نیزے بدن میں دھنسا دئیے ہوں لیکن وہ بڑے مقصد کے پیش نظر صبر سے کام لیتا ہے }۔ (خطبہ فدک- کتاب الاحتجاج جلد 1/ شرح نھج البلاغہ جلد 12۔خطبہ فدک ص ۷۵ خطبہ فدک ،شیخ محسن علی نجفی ، ادارہ نشر معارف اسلامی ،لاہور ۔}
ان نورانی کلمات میں بی بی سلام اللہ علیہا نے واضح الفاظ میں اس بات کو بیان کیا ہے کہ کس طرح کچھ لوگوں نے خلافت پر قبضہ جما کر دین کے روشن چراغوں کو بجھانے کی کوشش کی اور اگر بصیرت فاطمی و علوی نہ ہوتی تو کس طرح وہ اپنے عزائم میں کامیاب ہو جاتے لیکن بی بی دو عالم نے جہاں رہتی دنیا تک اس دور کے دشمنان خدا کو رسوا کیا وہیں بتایا کہ اگر دین کا معاملہ ہو اور دشمن دین کی نابودی کے درپے ہو تو ایسی صورت میں بصیرت کا تقاضہ یہی ہے کہ خود زخم کھا لو لیکن دین کو زخمی نہ ہونے دو دشمن کی چالوں کو سمجھتے بھی رہو لیکن دین کی خاطر خاموشی اختیار کرو اور جب وقت آئے تو ہر چال کو ہر مکر کو برملا کرو اس لئے کہ جب دشمنی نظریاتی ہوتی ہے تو دشمن کا ہم و غم نظریہ پر چوٹ کرنا ہوتا ہے دشمن یہ چاہتا ہے کہ ہم اصولوں کا سودا کر لیں لیکن ہمارا کمال یہ ہونا چاہیے کہ دشمن چاہے جتنے حربے استعمال کر لے ہم اصولوں کا سودا نہ کریں اس لئے کہ یہ تو پرانی ریت ہے دنیا میں کوئی نظام ایسا نہیں ہے جسکا کوئی دشمن نہ ہو اور نہ ہی کوئی ایسی قوم ہے جس کے سب دوست ہوں، دوستی و دشمنی کی داستان ازل سے ہے ابد تک یہ سلسلہ رہنے والا ہے ، قرآن کریم نے بھی صراحت کے ساتھ اس بات کو بیان کیا ہے کہ ہمیشہ ایسے دشمن موجود رہیں گے جو اپنے مفادات کے خطرے میں پڑ جانے کی وجہ سے ہم سے چاہیں گے کہ ہم اپنے اصولوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں ، اپنے دین و آئین کا سودا کر لیں اپنے تعلیمات کو پس پشت ڈال دیں ، اب یہ ہمارے اوپر ہے کہ کس طرح ہم انکے مقابل ڈٹ جائیں اور سب کچھ لٹا کر بھی اپنی جان سے عزیز متاع یعنی اپنے دین کو محفوظ کر لیں
اسی لئے قرآن نے حقیقی دشمنی کو دین کی دشمنی کے طور پر بیان کیا ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے :
"إِنَّمَا يَنْهَاکُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ قَاتَلُوکُمْ فِي الدِّينِ وَ أَخْرَجُوکُمْ مِنْ دِيَارِکُمْ وَ ظَاهَرُوا عَلَى إِخْرَاجِکُمْ أَنْ تَوَلَّوْهُمْ وَ مَنْ يَتَوَلَّهُمْ فَأُولٰئِکَ هُمُ الظَّالِمُونَ‌"
وہ تمہیں صرف ان لوگوں سے روکتا ہے جنہوں نے تم سے دین میں جنگ کی ہے اور تمہیں وطن سے نکال باہر کیا ہے اور تمہارے نکالنے پر دشمنوں کی مدد کی ہے ہ تمہیں صرف ان لوگوں سے روکتا ہے جنہوں نے تم سے دین میں جنگ کی ہے اور تمہیں وطن سے نکال باہر کیا ہے اور تمہارے نکالنے پر دشمنوں کی مدد کی ہےکہ ان سے دوستی کرو اور جو ان سے دوستی کرے گا وہ یقینا ظالم ہوگا
( ممتحنہ ۹۔ ۱۰ }
اب اگر کوئی دین کا دشمن ہے تو ہرگز ایسے دشمن پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا ہے اسلئے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو نظریاتی طور پر دین کے خلاف ہیں یہ کبھی ہماری بھلائی کے بارے میں نہیں سوچ سکتے اب عقلمندی یہی ہے کہ ایسے دشمنوں سے ہوشیار رہا جائے اور کوئی راز کی بات انہیں نہ بتائی جائے کہ یہ اس سے ناجائز فائدہ اٹھائیں چنانچہ ارشاد ہوتا ہے : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَ تَتَّخِذُوا بِطَانَةً مِنْ دُونِکُمْ لاَ يَأْلُونَکُمْ خَبَالاً وَدُّوا مَا عَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاءُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ وَ مَا تُخْفِي صُدُورُهُمْ أَکْبَرُ قَدْ بَيَّنَّا لَکُمُ الْآيَاتِ إِنْ کُنْتُمْ تَعْقِلُون
اے ایمان والو خبردار غیروں کو اپنا راز دار نہ بنانا یہ تمہیں نقصان پہنچانے میں کوئی کوتاہی نہ کریں گےیہ صرف تمہاری مشقت و مصیبت کے خواہش مند ہیں- ان کی عداوت زبان سے بھی ظاہر ہے اور جو دل میں چھپا رکھا ہے وہ تو بہت زیادہ ہے. ہم نے تمہارے لئے نشانیوں کو واضح کرکے بیان کردیا ہے ۔ سورہ آل عمران ۱۱۸
یہ وہ لوگ ہیں جنکے بارے میں قرآن آواز دے رہا ہے کہ یہ تمہاری بے بصیرتی ہے کہ تم انہیں اپنا سمجھ رہے ہو لیکن یہ تو موقع کی تلاش میں ہیں یہ ہرگز تمہیں اپنا دوست نہیں سمجھتے ہیں چنانچہ ارشاد ہوتا ہے :
هَا أَنْتُمْ أُولاَءِ تُحِبُّونَهُمْ وَ لاَ يُحِبُّونَکُمْ وَ تُؤْمِنُونَ بِالْکِتَابِ کُلِّهِ وَ إِذَا لَقُوکُمْ قَالُوا آمَنَّا وَ إِذَا خَلَوْا عَضُّوا عَلَيْکُمُ الْأَنَامِلَ مِنَ الْغَيْظِ قُلْ مُوتُوا بِغَيْظِکُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِخبردار... تم ان سے دوستی کرتے ہو اور یہ تم سے دوستی نہیں کرتے ہیں- تم تمام کتابوں پر ایمان رکھتے ہو اور یہ جب تم سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے اور جب اکیلے ہوتے ہیں تو غّصہ سے انگلیاں کاٹتے ہیں- پیغمبر آپ کہہ دیجئے کہ تم اسی غّصہ میں مرجاؤ. خدا سب کے دل کے حالات سے خوب باخبر ہے ( ۱۱۹۔ ۱۲۰ ایضا)
قرآن کریم نے جہاں دشمن سے ہوشیار رہنے کی بات کی وہیں ہم دیکھتے ہیں بعض لوگوں نے انکی چال میں آکر ان پر اعتماد کیا جسکا نتیجہ عالم اسلام آج تک بھگت رہا ہے
دشمن پر اعتماد اور اس کے نتائج :
یوں تو دشمن پر جہاں بھی ذرا سا بھی اعتماد کیا گیا ہے عالم اسلام کو منھ کی کھانی پڑی ہے ، آج ایک بار پھر تاریخ تکرار ہو رہی ہے اور اسلامی ممالک دھیرے دھیرے اپنے سب سے ازلی دشمن سے دوستی کی پینگیں بڑھانے میں مصروف ہیں ، خلافت کا معاملہ ہو یا علی ابن ابی طالب علیہ السلام جیسے تاریخ کے عظیم ترین امام و انسان کی تنہائی دشمن پر اعتماد کے سایے ہر جگہ نظر آتے ہیں ، خوارج کے وجود میں آنے کا ایک سبب اگر دیکھا جائے تو یہی تھا کہ لوگوں نے امام وقت کو چھوڑ دیا اور دشمن کی جال میں پھنس گئے یہ وہ بات ہے جسے خد امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے اس طرح بیان کیا ہے:
"أَلَمْ تَقُولُوا عِنْدَ رَفْعِهِمُ الْمَصَاحِفَ حِيلَةً وغِيلَةً - ومَكْراً وخَدِيعَةً إِخْوَانُنَا وأَهْلُ دَعْوَتِنَا - اسْتَقَالُونَا واسْتَرَاحُوا إِلَى كِتَابِ اللَّه سُبْحَانَه - فَالرَّأْيُ الْقَبُولُ مِنْهُمْ - والتَّنْفِيسُ عَنْهُمْ - فَقُلْتُ لَكُمْ هَذَا أَمْرٌ ظَاهِرُه إِيمَانٌ - وبَاطِنُه عُدْوَانٌ - وأَوَّلُه رَحْمَةٌ وآخِرُه نَدَامَةٌ فَأَقِيمُوا عَلَى شَأْنِكُمْ - والْزَمُوا طَرِيقَتَكُمْ -
ذرا بتلائو کہ جب صفین والوں نے حیلہ و مکر اورجعل و فریب سے نیزوں پر قرآن بلندکردئیے تھے تو کیا تم نے یہ نہیں کہا تھا کہ یہ سب ہمارے بھائی اور ہمارے ساتھ کے مسلمان ہیں۔اب ہم سے معافی کے طلب گار ہیں اور کتاب خداسے فیصلہ چاہتے ہیں لہٰذا مناسب یہ ہے کہ ان کی بات مان لی جائے اورانہیں سانس لینے کا موقع دے دیا جائے۔میں نے تمہیں سمجھایا تھا کہ اس کا ظاہر ایمان ہے لیکن باطن صرف ظلم اور تعدی ہے۔اس کی ابتدا رحمت و راحت ہے لیکن اس کا انجام شرمندگی اور ندامت ہے لہٰذا اپنی حالت پر قائم رہو اور اپنے راستہ کو مت چھوڑو" نھج البلاغہ ترجمہ علامہ جوادی ص ۲
۲۱۹
وعَضُّوا عَلَى الْجِهَادِ بَنَوَاجِذِكُمْ - ولَا تَلْتَفِتُوا إِلَى نَاعِقٍ نَعَقَ - إِنْ أُجِيبَ أَضَلَّ وإِنْ تُرِكَ ذَلَّ - وقَدْ كَانَتْ هَذِه الْفَعْلَةُ وقَدْ رَأَيْتُكُمْ أَعْطَيْتُمُوهَا - واللَّه لَئِنْ أَبَيْتُهَا مَا وَجَبَتْ عَلَيَّ فَرِيضَتُهَا - ولَا حَمَّلَنِي اللَّه ذَنْبَهَا ووَ اللَّه إِنْ جِئْتُهَا إِنِّي لَلْمُحِقُّ الَّذِي يُتَّبَعُ - وإِنَّ الْكِتَابَ لَمَعِي مَا فَارَقْتُه مُذْ صَحِبْتُه فَلَقَدْ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - وإِنَّ الْقَتْلَ لَيَدُورُ عَلَى الآباءِ والأَبْنَاءِ - والإِخْوَانِ والْقَرَابَاتِ - فَمَا نَزْدَادُ عَلَى كُلِّ مُصِيبَةٍ وشِدَّةٍ - إِلَّا إِيمَاناً ومُضِيّاً عَلَى الْحَقِّ - وتَسْلِيماً لِلأَمْرِ - وصَبْراً عَلَى مَضَضِ الْجِرَاحِ - ولَكِنَّا إِنَّمَا أَصْبَحْنَا نُقَاتِلُ إِخْوَانَنَا فِي الإِسْلَامِ - عَلَى مَا دَخَلَ فِيه مِنَ الزَّيْغِ والِاعْوِجَاجِ - والشُّبْهَةِ والتَّأْوِيلِ - فَإِذَا طَمِعْنَا فِي خَصْلَةٍ يَلُمُّ اللَّه بِهَا شَعَثَنَا - ونَتَدَانَى بِهَا إِلَى الْبَقِيَّةِ فِيمَا بَيْنَنَا - رَغِبْنَا فِيهَا وأَمْسَكْنَا عَمَّا سِوَاهَا.
اور جہاد پر دانتوں کو بھینچے رہو اور کسیبکواس کرنے والے کی بکواس کو مت سنو کہ اس کے قبول کرلینے میں گمراہی ہے اور نظر انداز کردینے میں ذلت ہے۔لیکن جب تحکیم کی بات طے ہوگئی تو میں نے دیکھا کہ تمہیں لوگوں نے اس کی رضا مندی دی تھی حالانکہ خدا گواہ ہے کہ اگرمیں نے اس سے انکار کردیا ہوتا تو اس سے مجھ پر کوئی فریضہ عائد نہ ہوتا۔اورنہ پروردگار مجھے گناہ گار قراردیتا اور اگر میں نے اسے اختیار کیا ہوتا تو میں ہی وہ صاحب حق تھا جس کا اتباع ہونا چاہیے تھا کہ کتاب خدا میرے ساتھ ہے اور جب سے میرا اس کا ساتھ ہوا ہے کبھی جدائی نہیں ہوئی۔ہم رسول اکرم (ص) کے زمانے میں اس وقت جنگ کرتے تھے جب مقابلہ پر خاندانوں کے بزرگ بچے۔بھائی بند اور رشتہ دار ہوتے تھے لیکن ہر مصیبت و شدت پر ہمارے ایمان میں اضافہ ہوتا تھا اور ہم امر الٰہی کے سامنے سر تسلیم خم کئے رہتے تھے۔راہ حق میں بڑھتے ہی جاتے تھے اور زخموں کی ٹیس پر صبر ہی کرتے تھے مگر افسوس کہ اب ہمیں مسلمان بھائیوں سے جنگ کرنا پڑ رہی ہے کہ ان میں کجی۔انحراف ۔شبہ اور غلط تاویلات کادخل ہوگیا ہے لیکن اس کے باوجود اگرکوئی راستہ نکل آئے جس سے خدا ہمارے انتشار کو دور کردے اورہم ایک دوسرے سے قریب ہو کر رہے سہے تعلقات کو باقی رکھ سکیں تو ہم اسی راستہ کو پسند کریں گے اور دوسرے راستہ سے ہاتھ روک لیں گے۔امام علیہ السلام کے جملے آج بھی ہمیں دشمن کی جانب سے ہوشیار رہنے کی دعوت دے رہے ہیں ۔" ولَا تَلْتَفِتُوا إِلَى نَاعِقٍ نَعَقَ - إِنْ أُجِيبَ أَضَلَّ وإِنْ تُرِكَ ذَلَّ"یہاں پر مولا بتانا چاہتے ہیں کہ دشمن کی منصوبہ بندی پر اگر ہماری توجہ نہ رہے گی تو نتیجہ یہ ہوگا کہ علی ع جیسا رہبر تنہا رہ جائے گا حکمیت پر علی ع کو مجبور کیا جائے گا اور خوارج وجود میں آءیں گے ، لہذا ضروری ہے کہ ہر انقلابی ان خطرات سے سبق حاصل کرے ۔
حضور سرورکائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا پیغام توحیدی اور دشمن کا نفوذ۔
"ثُمَّ لَمْ تَلْبَثُوا إِلَّا رَیثَ أَنْ تَسْکنَ نَفْرَتُهَا، وَ یسْلَسَ قِیادُهَا، ثُمَّ أَخَذْتُمْ تُورُونَ وَقْدَتَهَا"
شہزادی کونین بی بی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے ان فقروں کے ذریعہ ہمارے سامنے اس دور کی تصویر پیش کی ہے جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد خلافت کی رسہ کشی شرور ہو گئی اور اصحاب پیغمبر ص کی سطحی نگری کی بنا پر خود حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تمام تر جانفشانیوں کے باوجود دشمن مسلمانوں کے درمیان پیٹھ بنانے میں کامیاب ہو گیا ، جسکا نتیجہ علی کی ۲۵ سالہ خاموشی اور خلافت کے اپنی ڈگر سے ہت جانے کی صورت سامنے آیا شک نہیں کہ نظریاتی دشمن کسی بھی جگہ اپنی دشمنی سے باز نہیں آتا ہے وہ موقع کی تلاش میں رہتا ہے کہ کب اپنا زہر انڈیل دے اسکے لئے بہت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہوتی ہے ،
فہم عمق کا نہ ہو نا تجزیہ کی صلاحیت کا نہ ہونا ظاہری چیزوں پر ٹہر جانا یہ ساری وہ چیزیں ہیں جنکی بنا پر دشمن کو اپنے مقاصد کے حصول میں بڑی آسانیاں فراہم ہو جاتی ہیں ، جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد ہوا کچھ شاطر افراد نے جہل مرکب سے استفادہ کرتے ہوئے ، رہبریت و قیادت کو ہی اپنی جگہ سے ہٹا دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد نظام ہدایت اپنے محور سے ہٹ گیا ۔ جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے دشمن کے تدریجی نفوذ کے سلسلہ سے یہاں پر چند نکات کی طرف اشارہ کیا ہے ۔
۱۔ آپ فتنہ خلافت کو ایسے ناقے سے تشبیہ کرتی ہیں جو بدک گیا ہو اس لئے کہ ہر قبیلہ یہ کہہ رہا تھا کہ خلافت ہمارے یہاں ہونا چاہیے اوراپنے آ پ کو خلافت کا اہل بنا کر پیش کر رہا تھا ، انجام کار یہ ناقہ رام ہو گیا اور اسکی مہار ایسے شخص کے ہاتھوں چلی گئی جسکا بس ایک ہی امتیاز تھا اور وہ تھا بوڑھا ہونا ۔
شتر خلافت کی مہار ہاتھوں میں لینے اور اس پر سوار ہونے کے بعد اسی پر اکتفا نہ ہوئی بلکہ حالات کو مزید اپنے حق میں بہتر بنانے کے لئے اور بھی آگ بھڑکائی گئی اور خلافت کے بعد فدک کو غصب کیا گیا اسکے بعد جبری بیعت لی گئی اور پھر اسلام کی تاریخ میں وہ دردناک واقعات رقم ہوئے جن کو پڑھ اور سن کر ہر صاحب احساس کی روح کانپ جاتی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعدفورا بعد حالات اسقدر بھی پلٹ سکتے ہیں کہ دختر رسول ص کا گھر جلا دیا جائے ۔لیکن یہ حقیقت ہے اور یہ سب اس لئے ہوا کہ لوگوں نے اس وقت سمجھوتہ کر لیا جب علی ع کا حق چھینا گیا جب غدیر کو بھلا دیا گیا انہیں باتوں کو آپ نے اس طرح بیان کیا ہے
ثُمَّ أَخَذْتُمْ تُورُونَ وَقْدَتَهَا، وَ تُهَیجُونَ جَمْرَتَهَا ۔۔۔۔
، پھر تم نے آتش فتنہ کو بھڑکایا اور اس کے شعلے پھیلانے شروع کر دیے
۲۔ آپنے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ دشمن جب تدریجی طور پر داخل ہوتا ہے تو ایسا ہی ہوتا ہے ، یک بعد دیگرے وہ معاشرہ میں اپنے کھونٹے گاڑتا رہتا ہے اور ایک دن وہ آتا ہے جب ہر طرف اسی کا راج ہوتا ہے پھر کسی کی زبان میں اس کے خلاف بولنے کی سکت نہیں ہوتی ہے ۔
۔ وَ تَسْتَجِیبُونَ لِهُتَافِ الشَّیطَانِ الْغَوِی، وَ إِطْفَاءِ أَنْوَارِ الدِّینِ الْجَلِی، وَ إِهْمَادِ سُنَنِ النَّبِی الصَّفِی،
دیے اس طرح تم شیطان کی گمراہ کن پکار پر لبیک کہنے لگے تم دین کے روشن چراغوں کو بجھانے اور برگزیدہ نبیؐ کی تعلیمات سے چشم پوشی کرنے لگے
تَشْرَبُونَ حَسْواً فِی ارْتِغَاءٍ۔۔
، تم بالائی لینے کے بہانے پورے دودھ کو پی جاتے ہو اور رسول کی اولاد اور اہلبیت کے خلاف خفیہ چالیں چلتے ہو
یہاں پر مراد یہ ہے کہ جب دودھ دوہواجاتا ہے تو کبھی ملائی کے بہانے انسان دودھ پیتا ہے کبھی دودھ دوہنے کی بنا پر جھاگ آنے کی وجہ سے پورے دودھ کے برتن پر قبضہ ہو جاتا ہے اور بلی کی طرح سارا دودھ پی لیا جاتا ہے اور جھاگ ہی بچ پاتا ہے ۔
وَ نَصْبِرُ مِنْکمْ عَلَى مِثْلِ حَزِّ الْمُدَى، وَ وَخْزِ السِّنَانِ فِی الْحَشَا،"
تمہاری طرف سے خنجر کے زخم اور نیزے کے وار کے باوجود ہم صبر سے کام لیں گے ۔{ہم تمہاری جانب سے دئے گئے زخموں پر ایسے صبر کریں گے جیسے کسی کو بڑے چاقوں گود دیا ہو اور نیزے بدن میں دھنسا دئیے ہوں لیکن وہ بڑے مقصد کے پیش نظر صبر سے کام لیتا ہے
یہ جملے مولائے کائنات کے جملوں سے کس قدر شبیہ ہیں جنہیں ۲۵ سال سکوت کے بعد آپ نے فرمایا تھا
فَصَبَرتُ، وفِی العَینِ قَذىً، وفِی الحَلقِ شَجاً؛ أرى تُراثی نَهبا... فَصَبَرتُ عَلى طولِ المُدَّةِ، وشِدَّةِ المِحنَةِ. خطبہ ۳
بی بی دوعالم کے ان جملوں کی روشنی میں ہم اگر اس سوال کا جواب دیں گے تو بہت سے حقائق ہم پر روشن ہو جائیں گے کہ گر اصحاب پیغمبر گہری نگاہ رکھتے مسائل کا صحیح تجزیہ کرتے حالات کے رخ کو بجا طور پر بھانپنے کی صلاحیت ہوتی تو کیا ایسا ہوتا ؟ اور اگر اہلبیت اطہار علیھم السلام کو انکا حق مل جاتا تو اسلامی میراث کتنی عظیم میراث ہوتی ، لیکن سطحی طرز فکر کی بنیاد پر جو ہوا وہ سامنے ہے ہر طرف مسلمانوں کے اوپر عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے اورآج اسلام اور مسلمانوں کا وہ حال ہے جس کا خواب میں بھی تصور نہیں کیا جا سکتا تھا کیا ان تما چیزوں کے پیچھے علی (ع) کی تنہائی اور فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی مظلومیت نہیں ہے ، اگر مظلومیت ہے تو گزرے ہوئے کل سے ہم عبرت کیوں نہیں لیتے آج پھر کیوں اسی ڈگر پر گامزن ہیں جس پر کل بعد وفات پیغمبر مدینہ کا معاشرہ چل پڑا تھا جسکا نتیجہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا تلخ سکوت تھا جسکا نتجہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا مرثیہ تھا کیا آج بھی ہمارے کانوں سے یہ آواز نہیں ٹکرا رہی ہے ۔ صُبَّــــــتْ عَلَیَّ مَصَائِــبُ لَوْ أَنَّهَا صُبَّـتْ عَلَـى الْأَیَّـامِ صِـرْنَ لَیَالِیَا۔۔۔۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .