۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
آیت الله سید محمد تقی مدرسی از علمای عراق

حوزہ / عراقی ممتاز عالم دین آیت اللہ سید محمد تقی مدرسی نے عراقی امور میں اصلاح کے لئے تین تجاویز پیش کرتے ہوئے  قوم اور حکومتی اداروں کے مابین اتحاد کی فضا قائم کرنے کا مطالبہ کیا ہے ۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ، عراقی ممتاز عالم دین آیت اللہ سید محمد تقی مدرسی نے عراقی امور میں اصلاح کے لئے تین تجاویز پیش کرتے ہوئے  قوم اور حکومتی اداروں کے مابین اتحاد کی فضا قائم کرنے کا مطالبہ کیا ہے ۔

آیت اللہ مدرسی نے قوم اور حکومت کے مابین وجود میں آنے والے خلاء کو دور کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ اس خلاء کا وجود ملکی سیاسی نظام میں مسائل کے حل کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے ، ان دوریوں کے وجود اور اس کی نشوونما کی وجہ ، آمریت اور قابض حکومتوں کی وہ قسم ہے جسے قوم کا اعتماد ختم ہو جاتا ہے،اسی طرح غیر منصفانہ قوانین کا وجود ہے جس سے لوگ مطمئن نہیں ہیں اور لوگوں کے ساتھ بات چیت میں کچھ عہدیداروں یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کا غیر معقول یا ناروا سلوک دوسری وجوہات میں سے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ ان فاصلوں کو  تین بنیادی اقدامات کے ذریعے ختم کیا جاسکتا ہے، سب سے پہلے ، عوام اور حکومت کی قیادت کے درمیان ثالثی اور بات چیت کرنے میں شامل سیاسی جماعتوں کے اصل کردار کو متحرک کرنا ہے ۔

ممتاز عراقی عالم دین نے مزید کہا کہ بہت ساری عراقی سیاسی جماعتیں کبھی بھی یہ کردار ادا نہیں کریں گی،کیونکہ یہ پارٹیاں تسلط اور اقتدار چاہتی ہیں اور اس کے ذریعے فوائد اور مواقع حاصل کرنا چاہتی ہیں اور حکومت ہی ان کا مقصد ہے ، لہذا اس مسئلے نے ان کو حکومتی اداروں میں بدل دیا ہے اور کوئی ایسی جماعت نہیں رہی ہے جو قومی دکھ درد کا احساس کرتی ہو ۔

آیت اللہ مدرسی نے ملک کو چلانے میں عوامی اداروں کے کردار کو متحرک کرنے اور لوگوں کے امور کے نظم و نسق میں ان کی آراء کے احترام کئے جانے کا ذکر کرتے ہوئے اسے دوسری تجویز کے طور پر پیش کیا اور کہا کہ ان اداروں میں مذہبی اور قبائلی ادارے اور معاشرے کی رفاہی تنظیمیں ہیں ، جو امت کے مسائل کو حل کرنے میں ایک اہم کردار ادا کر سکتے ہیں ۔

اپنی تقریر کے آخر میں انہوں نے کہا کہ تیسری تجویز یہ ہے کہ ایک تربیتی ورکشاپ کا انعقاد کیا جائے جس میں ہر سطح کے سرکاری ملازمین شریک ہوں اور یہ بتایا جائے کہ لوگوں سے اچھا  اور شائستہ انداز میں بات چیت کیسے کی جاتی ہے اور قوم و ملت کے ساتھ بات چیت میں مغرور اور غنڈہ گردی کے رویے کو ختم کیا جائے ، یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو انہیں عوامی سطح پر بدنام کر رہا ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .