۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
علامہ شبیر میثمی

حوزہ/ خطبہ جمعہ میں بیان کرتے ہوئے کہا کہ فطرے میں سب سے پہلے آپ کے ضرورتمند رشتہ داروں کا حق ہے۔ شب عید سے پہلے اسے قرض کے طور پر دے دیں اور شب عید فطرہ کی نیت کرلیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،شیعہ علماء کونسل پاکستان کے مرکزی رہنما اور امام جمعہ مسجد بقیۃ اللہ ڈیفنس کراچی علامہ شبیر میثمی نے خطبہ جمعہ میں بیان کرتے ہوئے کہا کہ آج تین مناسبتیں ہیں اور تینوں ہی بہت اہم ہیں: (۱) جنگ بدر کی فتح کا دن (۲) شب ہائے قدر (۳) شہادت مولائے کائنات۔ ان تمام کے بارے میں کچھ عرائض آپ کی خدمت میں پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ جنگ بدر اسلام کا پہلا معرکہ ہے۔ اس جنگ کے محرکات میں کچھ ایسے عناصر موجود تھے جو رسول اکرم کی ہجرت کو اپنی ہار سمجھتے تھے۔ اس لئے کہ جب آپ نے ہجرت فرمائی اور مکہ کے کفار صبح داخل ہوئے تو دیکھا کہ رسول اکرم کی جگہ مولائے کائنات استراحت فرما رہے ہیں۔ پوچھا: کہاں ہیں؟ جواب دیا: اگر مجھے سونپ کر گئے ہوتے تو میں امانت واپس لوٹا دیتا۔یہ کفارِ مکہ کی بہت بڑی ہار تھی۔ ابوجہل اور ابوسفیان چاہتے تھے کہ کوئی ایسا راستہ نکل آئے کہ جنگ ہوجائے۔ یہاں پر مؤرخین کا ظلم دیکھئے۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ مال بھرا قافلہ شام سے مدینہ کے پاس سے ہوتے ہوئے مکہ جانے والا تھا۔ مسلمانوں کو اطلاع مل گئی تھی۔ ایسا ظاہر کیا جاتا ہے کہ نعوذ باللہ رسول اکرم چاہتے تھے کہ کفار کا مالِ تجارت لوٹ لیں۔ انسان کی جیسی سوچ ہوتی ہے، ویسا ہی وہ سمجھتا ہے اور ویسا ہی لکھ کر آگے منتقل کرتا ہے۔ تاریخ کی کتابوں میں یہ لکھا ہوا ہے کہ مدینہ کے کچھ رہنے والے۔ ظاہر ہے انہیں صحابی ہی کہا جائے گا۔ جب انہیں پتا چلا تو انہوں نے سوچا کہ اچھا ہے کچھ مال ہاتھ آجائے گا، ویسے بھی غربت کا زمانہ ہے۔ حضور اکرم نے لوگوں کو جمع کیا اور بتایا کہ قریش کا لشکر مکہ سے چل چکا ہے اور مدینہ کے پاس کسی جگہ پہنچنے والا ہے۔ ایک قافلہ تھا اور ایک لشکر تھا۔ خیال یہ تھا کہ وہ قافلہ کو لوٹ لیں گے۔ لیکن جب پتا چلا کہ لشکر بھی ہے تو ہمت ہار بیٹھے۔ کیونکہ اسلحہ تھا نہیں۔ قرآن میں ہے کہ بعض لوگ چاہتے تھے کہ ان کا مقابلہ چالیس یا ستر افراد پر مشتمل قافلے والوں سے ہوجائے لیکن ان کا مقابلہ ہوگیا قریش مکہ سے جو مکہ سے جنگ کی نیت سے نکل چکے تھے۔ اس لئے کہ وہاں پر یہ شور مچا دیا گیا تھا کہ ابوسفیان کے قافلے کو حضور اکرم نے لوٹ لیا ہے۔ حضور اکرم نے لوگوں کو جمع کیا اور پوچھا کہ کیا کیا جائے۔ کچھ لوگوں نے ہمت توڑنے کی بات کی جن کے نام تاریخ میں محفوظ ہیں۔ لیکن جناب عمار کھڑے ہوئے اور فرمایا: یا رسول اللہ! ہم بنی اسرائیل جیسے نہیں ہیں کہ کہیں کہ آپ اور آپ کا رب جا کر جنگ کریں۔ آپ کہیں گے کہ جنگ کرو تو ہم جنگ کریں گے، آپ خاموشی کا حکم دیں گے تو ہم خاموش رہیں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ شب ہائے قدر میں داخل ہونے جا رہے ہیں۔ شب قدر سے مراد یہ ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ آئندہ سال ہمارے لئے کیا معین فرماتا ہے اور اسے معین کرکے زمانے کے امام علیہ السلام کے حوالے کردیتا ہے۔ اب یہ ہم پر ہے کہ ہم اپنے لئے کیا مانگتے ہیں۔ کیا طلب کرتے ہیں۔ کیونکہ دینے والے نے کہہ دیا ہے کہ مجھ سے مانگو میں تمہیں دوں گا۔ وہاں پر تاخیر نہیں ہے۔ یہاں مانگنے والے اگر تھوڑی توجہ کرلیں اور یہ جو چند راتیں ہیں ان راتوں میں اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کریں۔ ان راتوں میں اپنے گناہوں کے بارے میں غور کریں اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگیں۔ اگر کسی کا حق ہماری گردن پر ہے تو اسے راضی کریں اور اپنے معاملات کو حل کریں۔ اس لئے کہ اگر کسی کا حق غصب کیا ہے تو پھر دعاؤں کے قبول ہونے کی امید نہ رکھیں۔ چاہے امام کا مال غصب کیا ہے، غریبوں کا مال غصب کیا ہے یا رشتہ داروں کا مال غصب کیا ہے، اسے ادا کئے بغیر صورت حال بہتر نہیں ہو سکتی۔ لیکن اللہ تعالی نے کرم فرمایا کہ ہمارے لئے ماہ رمضان رکھا، شب ہائے قدر رکھیں تا کہ ہم کسی طرح اللہ کی طرف پلٹ جائیں۔ وہ ہمیں صرف اپنی طرف پلٹتا ہوا دیکھنا چاہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ ہم بے لوث ہو کر اس کی عبادت کریں، اس کے سامنے سجدہ ریز ہوں ، اپنے گناہوں کی معافی مانگیں، توبہ کریں، استغفار کریں اور مومنین کی مدد کریں۔

علامہ شبیر میثمی نے زور دیتے ہوئے کہا کہ زمانہ بہت سخت ہے۔ مشکلات بہت زیادہ ہیں۔ میں درخواست کروں گا کہ خدارا ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑئیے۔ ایسا نہ ہو کہ مال بینکوں، گھروں اور جیبوں میں پڑا رہ جائے اور انسان قبر میں جانے کے بعد افسوس کرے۔ قرآن کی آیت ہے کہ جب موت سامنے آجاتی ہے تو کہتے ہیں کہ پالنے والے ہمیں واپس لوٹا دے، ہم جائیں گے، اچھے اعمال کریں گے۔ ا للہ تعالی فرماتا ہے کہ جب موت آگئی تو پھر واپس نہیں جاسکتے۔ کوشش کریں کبھی کبھار ان جنازوں کو دیکھیں۔ میرے مولا کوفہ کے بازار میں آواز دیتے : الرحیل الرحیل۔ لوگو! تیار ہوجاؤ۔ پوچھا گیا: کہاں جانا ہے؟ کہا: موت کے لئے تیار ہوجاؤ۔ اس لئے کہ موت کا فرشتہ کسی وقت بھی کسی کے لئے آسکتا ہے۔ اس روزے کی حالت میں میں آپ سے درخواست کرتا ہوں، کسی اور پر رحم کریں نہ کریں، اپنے آپ پر رحم کریں۔ اپنے آپ کو آمادہ کریں۔ ایسا نہ ہو کہ موت آجائے اور اللہ نہ کرے، اللہ نے کرے موت کے وقت ایمان چھن سکتا ہے۔

انہوں نے ایام شہادت مولائے کائنات کے تعلق سے بیان کرتے ہوئے کہا کہ ان ایام میں ہم ان شاء اللہ بھرپور عزاداری کریں گے۔ جلوس میں بھی شرکت کریں گے۔ ان شاء اللہ رسول اکرم اور زمانے کے امام کو مولائے کائنات کا پرسہ دیں گے۔

علامہ شبیر میثمی نے کورونا کے حوالے سے گفتگو میں کہا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہندوستان میں کیا ہوا؟ ہندوستان میں ہندؤں کے تین چار میلے لگے، مذہبی رسومات ادا کی گئیں، نتیجہ آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ جنازوں کو موٹر سائیکل پر لاکر لانا پڑ رہا ہے۔ غسل اور کفن کے مسائل مسلمانوں کے لئے الگ ہیں۔ ہمارے خوجہ برادری کا انڈیا سے پیغام آیا ہے کہ ہر تیسرے چوتھے گھر میں کورونا لوگوں کو ہوگیا ہے، اموات ہورہی ہیں اور ہم روک نہیں سک رہے ہیں۔ یہ واقعہ کہاں ہوا، میلہ کہاں تھا؟ جبکہ کورونا پہنچا کہاں، گجرات میں۔ اور ایسا پہنچا کہ نہ آکسیجن ہے، نہ وینٹی لیٹر ہے نہ ہاسپٹل میں جگہ ہے۔ بس یہی پتا ہے کہ اگر کورونا لگ گیا تو موت کی طرف جا رہے ہیں۔

وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے سیکرٹری اطلاعات نے مزید کہا کہ یہ جان ہمیں اللہ تعالی نے امانت دی ہے۔ اس امانت کو ہم دین کے لئے، اہل بیت کے لئے، جلوس میں جانے کے لئے، یوم القدس کی ریلی میں شریک ہونے کے لئے تیار ہیں۔بس ایک چھوٹی سے احتیاط کرلیں تو ستر فیصد امید ہے کہ مومنین میں کورونا نہیں پھیلے گا۔ باقی اللہ کا تفضل ہے۔ پوری طرح ماسک لگائے رکھیں،عزاداری اور جلوس میں۔ کوشش کریں کہ آپس میں ہاتھ نہ ملائیں۔ اللہ تعالی آپ کی حفاظت کرے گا۔ پچھلے سال کے سخت ترین لاک ڈاؤن کے باوجود مومنین نے جلوس نکالا اور عزاداری کی۔

انکا مزید کہنا تھا کہ ہمیں بہت اچھا لگا کہ سعودی عرب کے پرنس نے ایران کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے۔ اور یہ امت مسلمہ کے لئے بہت خوش آئند ہے۔ اس کے لئے آیت اللہ خمینی، آیت اللہ خامنہ ای وغیرہ سب ہی کوشش کرتے رہے ہیں کہ آؤ ہاتھ ملاؤ۔ کفار کے مقابلہ میں کھڑے ہوجاتے ہیں اور فلسطین کو آزاد کروا لیتے ہیں۔ لیکن فلسطین کی آزادی کی بات پر سب پیچھے ہٹ جاتے تھے۔ محمد بن سلمان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ”ہم ایران کے ساتھ اچھے تعلقات دیکھنا چاہتے ہیں۔“ بہت اچھی بات ہے کہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد پیدا ہو۔ اگر ہم مسلمان ایک ہوجائیں تو ہمیں چین اور روس کی طرف جانے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔

انہوں نے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ پہلی مئی سے طالبان کی دی گئی مدت پوری ہو رہی ہے۔ امریکہ بھاگنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن مشکلات بہت زیادہ ہیں۔ امریکہ پاکستان پر زبردست دباؤ ڈال رہا ہے کہ ہمیں بلوچستان یا کسی اور جگہ پر ائیربیس دے دو تاکہ ہم یہاں سے افغانستان سے انخلاء کی مہم کی نگرانی کرسکیں۔ پاکستان کے لئے بہت حساس وقت ہے۔ اگر پاکستان نے پھر سے غلط فیصلہ کیا تو اس کے اثرات بہت دور تک جائیں گے۔ پاکستان کو اس وقت غیر جانبدار ہونا چاہئے۔ امریکہ، افغانستان اور طالبان تینوں کے ساتھ مل بیٹھ کر مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

رہنما شیعہ علماء کونسل نے پاکستان کے موجودہ سیاسی صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان صاحب کو سمجھنا چاہئے کہ کراچی کی ایک ہم سیٹ اگر ان کے ہاتھ سے نکلی ہے تو اس کی کیا وجہ ہے؟ بہت سے لوگوں کی امیدیں آپ سے وابستہ ہیں۔ آپ نے کہا تھا کہ ہم احتساب کریں گے، لیکن آج تک احتساب کا باقاعدہ طور پر کوئی ثمرہ نظر نہیں آیا۔ پھر میڈیا ہر دفعہ کچھ نہ کچھ شور کرتا ہے کہ فلاں کو اٹھا لیا، فلاں کو پکڑ لیا۔ شاید اندر بیٹھے ہوئے لوگ پرانی حکومتوں کے ساتھ دوستیاں نبھا رہے ہیں۔ عمران خان صاحب کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ احتساب کورٹ ہو یا دوسری جگہیں ہوں وہاں پر سابقہ حکومتوں کے لگائے ہوئے لوگ آج پختہ ہو کر بڑی بڑی شخصیات بن گئے ہیں۔ اور وہ اپنا کام کرجاتے ہیں جس سے احتساب کا عمل ناکام ہو رہا ہے۔ میں تعجب کرتا ہوں کہ جسٹس فائز کیس کو جس طرح ہینڈل کیا گیا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ سب لوگ قیامت کے دن جواب دیں گے۔ اگر عدلیہ کو احتساب سے بالاتر کردیا گیا جبکہ آپ خود کہتے ہیں کہ خلفاء کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کرکے ان سے حساب کتاب لیا گیا تو کیسے ہوسکتا ہے کہ ان ججز کو احتساب سے بالاتر قرار دے دیا جائے۔ کیسے ہوسکتا ہے کہ آپ کی تنخواہ تو روپے میں آتی ہو اور آپ فلیٹ خریدیں پاؤنڈز میں۔ پہلا فیصلہ سات ججوں نے دیا۔ دوسرا فیصلہ دس ججوں نے دیا۔ لیکن چھ ججوں نے اس کے حق میں فیصلہ دیا۔ وکلاء پریشان ہیں کہ یہ کیسا فیصلہ ہے اور عدلیہ تاریخ کو کیا جواب دے گی۔ مولائے کائنات نے جو فیصلے دئیے، انہیں دیکھتے ہوئے کسی سے ڈرے بغیر اگر اللہ تعالی کی خوشنودی کے لئے فیصلہ دیا جاتاتو ہم بہت کامیاب ہوجاتے اور آج پاکستان کہاں سے کہاں پہنچ جاتا۔ لیکن خائن لوگوں نے اپنے پیٹ بھرے، جو اوپر آئے انہوں نے اپنا کام کیا۔ UK کے پرائم منسٹر بورس جانسن نے اپنے فلیٹ اور اپنے آفس کو Renovate کروایا۔ وہاں کا الیکشن کمیشن کھڑا ہوا کہ تحقیقات کراؤ کہ یہ پیسے کہاں سے آئے۔ کافر ہیں لیکن عمل دیکھیں۔ یہاں تو مسلمانوں کی زمینوں کی سند بدل کر انہیں کسی اور کے نام کردیا جاتا ہے۔ بڑے بڑے ٹاور کھڑے کردئیے جاتے ہیں، لیکن چھوٹی چھوٹی جھگیاں توڑ دی جاتی ہیں۔ یاد رکھیں کہ اللہ کے ہاں دیر ہے، اندھیر نہیں۔ اللہ تعالی کی ذات دیکھتی ہے۔

آخر میں فطرہ کے مسائل پر تفصیلا وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے فطرے کی مقدار کا اعلان کردیا ہے۔ ابھی سے بتا دیتا ہوں کہ فطرے میں سب سے پہلے آپ کے ضرورتمند رشتہ داروں کا حق ہے۔ شب عید سے پہلے اسے قرض کے طور پر دے دیں اور شب عید فطرہ کی نیت کرلیں۔ اگر رشتہ داروں میں ضرورتمند نہ ہوں تو زہرا (س) اکیڈمی بھی امانت قبول کرتی ہے اور یہاں مسجد میں بھی امانت قبول کی جاتی ہے۔ فقہی اصولوں کے مطابق انہیں تقسیم کیا جاتا ہے۔ یاد رکھیں جس شہر کا فطرہ ہے اس شہر میں اولویت کے ساتھ پہلے استعمال ہونا چاہئے، پھر باہر جانا چاہئے۔ اگر آپ کسی اور شہر سے تعلق رکھتے ہیں تو اپنے شہر میں اپنے رشتہ داروں کو فطرہ بھجوا سکتے ہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .