۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
News ID: 368162
1 مئی 2021 - 17:39
مولانا محمد لطیف مطہری کچوروی

حوزہ/ حضرت علی علیہ السلام وہ ہستی جس کے شہید ہونے کی وجہ:"قتل فی محرابہ لشدۃ عدلہ" آپ اپنے انتہائی عدل کی وجہ سے محراب میں شہید کر دیئے گئے۔ یہ آواز انیس رمضان المبارک کو مسجد کوفہ سے بلند ہوئی اور آج بھی اسی آب و تاب کے ساتھ گونج رہی ہے۔ وہ آواز یہ تھی "فزت و رب الکعبہ" رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوا۔

تحریر: مولانا محمد لطیف مطہری کچوروی

حوزہ نیوز ایجنسی ایک آواز، ایک پکار، ایک ندا اب بھی فضا میں گونج رہی ہے اور وہ آواز ہے ایک ایسی ہستی کی جس نے انسانیت کو عدل کا تعارف کرایا۔ وہ ہستی جس نے عدل کے موضوع کو جلا بخشی، وہ ہستی جس نے عدل کے حقیقی مفہوم کو مجسم کرکے سب کو  سمجھا دیا، وہ ہستی جس نے ظالم کے ظلم کرنے سے پہلے اسے ظالم نہیں کہا، وہ ہستی جس کے شہید ہونے کی وجہ سے کسی نے اس طرح بیان کی:"قتل فی محرابہ لشدۃ عدلہ" آپ اپنے انتہائی عدل کی وجہ سے محراب میں شہید کر دیئے گئے۔ یہ آواز اب بھی فضاوں میں گونج رہی ہے۔ یہ آواز انیس رمضان المبارک کو مسجد کوفہ سے بلند ہوئی اور آج بھی اسی آب و تاب کے ساتھ گونج رہی ہے۔ وہ آواز یہ تھی "فزت و رب الکعبہ" رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوا۔ یہ اس سورما کے الفاظ ہیں، جس نے بدر و احد میں لشکر اسلام کو فتح سے ہمکنار کیا، جس نے جنگ خندق کے دن کل ایمان کی شکل میں کل کفر عمرو بن عبدود کو واصل جہنم کرکے اسلام کو ایک اور فتح سے سرفراز کیا، جس نے در خیبر کو اکھاڑا اور مرحب و عنتر کو خاک و خون میں ملا کر فتح خیبر کی زرین تاریخ رقم کی، جس کی تلوار نے ہر معرکہ میں دین حق کی وہ لاج رکھی کہ اس کا ثانی کوئی نہیں بن سکا۔ لیکن عجیب بات ہے کہ کہیں اس نے یہ جملہ نہیں کہا اور یہ منفرد نعرہ نہیں لگایا، جو آج اپنے ہی خون میں غلطاں ہونے پر لگا رہا ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ اس کی نظر میں حقیقی کامیابی صراط مستقیم پر حاصل ہونے والی موت ہے، نہ کہ فتوحات اور ملک گیری۔

ہاں یہ اس کی آواز ہے، جس کا زچہ خانہ کعبہ بنا اور یہ ولادت اس مولود اور اس کے والدین کی طہارت و پاکیزگی کی دلیل بنی۔ وہ اب ایک دفعہ پھر خدا کے گھر میں اس کا مہمان ٹھہرا ہے، تاکہ واپسی کا سفر بھی اللہ کے گھر سے ہی شروع کرے۔ آج علی ابن ابی طالب علیہ السلام اپنے اس حسن اختتام پر کامیابی کا نعرہ لگا رہے ہیں اور پوری انسانیت کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ دیکھو حقیقی کامیابی کا معیار راہ حق میں مرنا ہے۔ یہاں ہم انسان کامل علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی فضیلت بیان اور رقم کرنا نہیں چاہتے، کیونکہ اسے ہم جیسے  انسان بیان اور رقم نہیں کر سکتے۔

"کتاب فضل ترا آب بحر کافی نیست
کہ تر کنم سر انگشت و صفحہ بشمارم"

یعنی فضائل علی ابن ابی طالب کی صفحہ شماری کے لئے انگلی تر کرتے کرتے سمندر ختم ہوسکتے ہیں، لیکن علی کی فضیلت ختم نہیں ہوسکتی۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: اگر تمام درخت قلم، تمام دریا سیاہی، تمام جن حساب کرنے اور تمام انسان لکھنے بیٹھ جائیں، تب بھی علی علیہ السلام کے فضائل کا شمار نہیں کر سکتے۔ علی ابن ابی طالب علیہ السلام  انسان کامل ہیں، جن میں تمام انبیاء کی صفات بطور کامل موجود تھیں۔ جیسا کہ حدیث نبوی ہے: جو شخص آدم (ع) کے علم کو، نوح (ع) کے تقویٰ کو، ابراہیم (ع) کے حلم کو اور موسٰی (ع) کی عبادت کو دیکھنا چاہتا ہے تو وہ علی بن ابی طالب پر نگاہ کرے۔ علی جب دنیا میں تشریف لائے تو مدینۃ العلم نے اس نومولود کو اپنی زبان مبارک چوسائی اور اسے باب العلم قرار دیا۔ رسول خدا نے فرمایا: انا مدینۃ العلم و علی بابہا، نیز فرمایا: یاعلی انت منی بمنزلۃ ہارون من موسٰی الا انہ لا نبی بعدی، اے علی آپ کو مجھ سے وہی نسبت حاصل ہے، جو ہارون کو موسی سے تھی البتہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔

علی ابن طالب علیہ السلام نے پیغمبر خدا کے حکم پر دعوت ذوالعشیرہ میں سب سے پہلے لبیک کہا تو رسول خدا نے آپ کو اپنا بھائی، وزیر اور خلیفہ قرار دیا، لیکن آپ نے فزت اور کامیابی کا نعرہ نہیں لگایا۔ اسی طرح ایسے ایسے واقعات پیش آئے، جو اسلام کو سرے سے ختم کرسکتے تھے، لیکن علی نے نہایت بہادری سے نہ صرف رسول خدا کو بلکہ اسلام کو  بچا لیا اور سفینہ اسلام کو ساحل تک پہنچا دیا، لیکن پھر کبھی کامیابی کا دعویٰ نہیں کیا۔ جب واقعہ مواخات میں رسول خدا نے آپ کو اپنا بھائی بنایا، اس وقت بھی آپ نے کامیابی کا دعویٰ نہیں کیا۔ اسی طرح جب وسیع و عریض اسلامی مملکت کا اقتدار آپ کے ہاتھوں آیا اور خلیفۃ المسلمین کہلائے، تب بھی آپ نے کامیابی کا دعویٰ نہیں کیا، لیکن جب انیس رمضان المبارک کو ابن ملجم کے ہاتھوں جان لیوا ضربت کھائی، تب علی ابن ابی طالب  علیہ السلام نے کامیاب ہونے کی قسم کھائی۔ ایک غیر مسلم دانشور کے بقول: علی ابن ابی طالب واقعی مظلوم ہیں، کیونکہ ان کے فضائل ان کے دوستوں اور دشمنوں دونوں نے چھپا رکھے۔ دوستوں  نے دشمنوں کے خوف سے، جبکہ دشمنوں نے حسد اور کینہ کے باعث۔ علی ابن ابی طالب کی پرورش خاتم الرسل نے خود کی تھی۔ رسول خدا آپ کو ہمیشہ اپنے پاس رکھتے، اپنے سینے سے لگاتے اور اپنے منہ سے غذا چبا کر لقمے کھلاتے تھے۔ ہر روز ان کو علم کا ایک نیا باب سکھاتے اور علی ابن ابی طالب ان پر عمل کرتے تھے۔

عرب کے اس ماحول میں جہاں انسانیت اور شرافت نام کی کوئی چیز نہیں تھی اور بھائی بھائی کا گلہ کاٹتا تھا، ایک آواز ابھری۔ یہ ہمارے نبی کی آواز تھی۔ وہ لوگوں کو بت پرستی چھوڑنے اور اسلام قبول کرنے کی دعوت دے رہے تھے۔ جاہل اور احمق عربوں نے اپنے دل کے کان بند کر رکھے تھے، لیکن یہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہی تھے، جنہوں نے سب سے پہلے آپ کی تصدیق کی اور سب سے پہلے آپ کے پیچھے نماز پڑھی۔ کفار قریش نے جب شب ہجرت شمع رسالت کو گل کرنے کی ناکام کوشش کی تو فرزند ابو طالب ہی تھے، جنہوں نے جان خطرے میں ڈال کر شمع رسالت کو بچا لیا۔ یہ جان نثاری خالق الٰہی کو اتنی پسند آئی کہ آپ کی شان میں یہ آیت نازل کی: ومن الناس من یشری نفسہ ابتغاء مرضات اللہ۔۔۔۔۔ یعنی کچھ لوگ ایسے بھی ہیں، جو خدا کی خشنودی کے لئے اپنی جان بھی قربان کرتے ہیں۔ آپکی تلوار کے صرف ایک وار کے متعلق رسول خدا نے فرمایا تھا: خندق کے دن علی کا ایک وار تمام جن و انس کی عبادت سے بہتر ہے۔ علی ابن ابی طالب علیہ السلام اگرچہ اپنے عدل کی وجہ سے شہید کئے گئے، لیکن آج وہ اپنے عدل کی ہی وجہ سے زندہ و پائندہ ہے۔ جب تک دنیا مین عدل و انصاف کا نام رہے گا، علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا ذکر بھی تابندہ رہے گا۔ ایک دفعہ کچھ لوگ آپ کے پاس آئے اور کنے لگے: آپ بڑے لوگوں کو بیت المال سے بڑا حصہ دیا کریں، اگر ایسا نہ ہوا تو وہ آپ کے دشمنوں سے جاملیں گے۔ آپ نے فرمایا: ہمیں چاہئے کہ ہم حق و انصاف کا ساتھ دیں اور لوگوں کو ڈرا دھمکا کر یا لالچ دے کر اپنا طرفدار نہ بنائیں۔ یہ بات تھی کہ رسول خدا نے فرمایا: علی حق کے ساتھ ہے اور حق علی کے ساتھ۔ حق و انصاف کے اسوہ کامل کا یہ جملہ عدل علی کی تصویر کشی کے لئے کافی ہے: اگر تم کہو کہ میں چیونٹی کے منہ سے جو کا چھلکا چھین لوں اور اس کے بدلے سارے دنیا میری قدموں میں ڈال دو، تب بھی میں ایسا کرنے سے انکار کر دوں گا۔

محمد بن عائشہ سے پوچھا گیا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب میں سب سے افضل کون ہے۔؟ انہوں نے جواب دیا: ابوبکر، عمر، عثمان، طلحہ اور زبیر۔ ان سے دوبارہ سوال ہوا پھر علی ابن ابی طالب کس درجہ پر فائز ہیں۔؟ انہوں نے جواب دیا: تم لوگوں نے اصحاب کے بارے میں سوال کیا تھا، نہ اس شخص کے بارے میں جو نفس پیغمبر تھے۔ اس کے بعد آیت مباہلہ کی تلاوت کی، اس کے بعد کہا: پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب کس طرح اس شخص کے مانند ہوسکتے ہیں، جو نفس پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ اسی طرح احمد ابن حنبل کے بیٹے عبداللہ نے اپنے باپ سے پوچھا خلفاء کی افضلیت کے بارے میں آپ کا کیا نظریہ ہے۔؟ انہوں نے جواب دیا: ابوبکر، عمر اور عثمان اسی ترتیب کے ساتھ افضلیت رکھتے ہیں۔ عبداللہ نے دوبارہ پوچھا پھر علی ابن ابی طالب علیہ السلام کس درجے پر فائز ہیں۔؟ انہوں نے جواب دیا کہ اے بیٹے: علی ابن ابی طالب کا تعلق ایسے خاندان سے ہے کہ کسی کو ان کے ساتھ مقایسہ نہیں کیا جاسکتا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت زہراء سلام اللہ علیہا سے فرمایا تھا؟ تمھارا شوہر میری امت میں سب سے بہتر ہے، اس نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور علم و حلم کے اعتبار سے وہ دوسروں پر برتری رکھتا ہے۔ {ان زوجک خیر امتی اقدمه اسلاما و اکثر هم علما و افضلهم حلما} اسی طرح جب ایک پرندے کا بھنا گوشت آپ ؐ کو پیش کیا گیا تو آپ ؐنے خداوند متعال سے درخواست کی کہ اپنی مخلوقات میں سے سب سے زیادہ عزیز فرد کو میرے ساتھ کھانے میں شریک قرار دے، اسی وقت حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے۔

جابر بن عبداللہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کرتے ہیں: {انه اولکم ایمانا معی، واوفاکم بعهد الله تعالی و اقومکم بامر الله و اعدکم فی الرعیة و اقسمکم بالسویة و اعظم کم عند الله فریة} حضرت علی علیہ السلام سب سے پہلے ایمان لانے میں اور خداوند متعال کے عہد کو پورا کرنے میں سب سے زیادہ وفادار اور احکام الٰہی کے اجراء میں سب سے زیادہ پائیدار اور لوگوں کی نسبت سب سے زیادہ عادل ہے اور وہ بیت المال کی تقسیم میں سب سے زیادہ مساوات سےکام لیتا ہے اور خداوند متعال کی نظر میں ان کا مقام سب سے زیا دہ برتر ہے۔ جابر اس کے بعد کہتے ہیں کہ آیت شریفہ {إِنَّ الَّذِينَ ءَامَنُواْ وَ عَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ أُوْلَئكَ هُمْ خَيرْ الْبرَيَّة} حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے اور جب بھی حضرت علی علیہ السلام وارد ہوتے تو سبھی کہتے تھے {قدجاء خیر البریة}  حق  اور عدل و انصاف کے معاملہ میں آپ کی سخت گیری کے سبب سے جاہل، تنگ نظر اور مفاد پرست لوگ آپ کے دشمن بن گئے۔ جہل و عناد اور تنگ نظری کی شیطانی تلوار انیس رمضان المبارک چالیس ہجری کو نیام سے نکلی۔ تنگ نظر دہشت گرد نے لا حکم الا للہ کا نعرہ لگا کر مسجد کوفہ کو نفس رسول خدا کے خون سے رنگین کر دیا۔ یہ دہشت گرد بھی علی ابن ابی طالب کو مسجد میں اور حالت سجدہ میں مار کر خدا کی رضا مندی مول لینا چاہتا تھا۔ عجیب بات ہے کہ آج کے دہشت گرد اور تکفیری گروہ بھی اسی روش پر چل رہے ہیں، جس کی ابتدا ابن ملجم نے چالیس ہجری میں کی تھی۔ وہ علی جس ایک ضربت بقول رسول خدا ثقلین کی عبادت سے بہتر تھی، آج اشقی الاولین و الاخرین کی زہر آلود تلوار کی ضربت سے لہولہاں تھے۔ یہی وہ لمحہ ہے، جب کل ایمان کی زبان سے یہ نعرہ بلند ہوا فزت و رب الکعبہ۔۔۔

پورے کوفہ میں اس حملے کی خبر آگ کی طرح پھیل گئی۔ وہ علی جس کی زندگی کا ہر لمحہ کافروں اور منافقوں کا مقابلہ کرنے اور اسلام کا پرچم سر بلند رکھنے میں گزرا تھا، اب کمزور جسم لیکن روح کی طاقت کے ساتھ بستر شہادت پر آرام کر رہے تھے۔ اصحاب علی بے چین تھے، لیکن علی ابن ابی طالب علیہ السلام پرسکون۔ آپ لوگوں کو نصیحت کر رہے تھے: میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراو، سنت رسول خدا پر عمل کرو اور امر بالمعروف اور نہی از منکر کو ترک نہ کرو، ورنہ ظالم لوگ تم پر مسلط ہو جائیں گے۔ اپنے فرزند امام حسن علیہ السلام کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا: قاتل پر صرف ایک وار کرنا۔ جب آپ کے لئے دودھ لایا گیا تو اسے قاتل کو پلانے کا حکم دیا۔ امام کی شہادت کے بعد عدی بن حاتم نے آپ کی اس طرح سے تعریف کی: علی بڑے دانا، بینا، بہت طاقتور اور نڈر تھے۔ وہ حق بات کہتے اور صحیح فیصلہ دیتے تھے۔ وہ حق و دانائی کا سرچشمہ تھے، وہ دنیا کی رنگینیوں سے دور رہتے تھے، وہ راتوں کو جاگتے اور تنہائی میں اپنا محاسبہ کرتے تھے۔ وہ سادہ زندگی کو پسند کرتے تھے، وہ ہمارے درمیان ہماری طرح رہتے، لیکن ان کے دبدبے کا عالم یہ تھا کہ ہم ان سے انکھ نہیں ملا سکتے تھے۔ جب وہ مسکراتے تھے تو ان کی دانت موتی کی طرح چمکتے تھے۔ وہ دیانت داروں اور پرہیزگاروں کی عزت کرتے، محتاجوں، غریبوں اور یتیموں کے ساتھ مہربانی سے پیش آتے تھے۔ نہ طاقتور کو ان کی طرف سے دھڑکا لگا رہتا اور نہ کمزور ان کے انصاف سے ناامید ہوتے تھے۔

علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی منزلت کا ذکر اس شخص کی زبانی سنیں، جس نے امیر شام کی خصوصی فرمایش پر اپنی جان کی امان لے کر علی کی فضائل بیان کئے۔ یہ ضرار نامی شخص ہے، جو امیر شام اور درباریوں کے سامنے کہتا ہے: علی ایسا شخص تھا، جس کے ارادے بلند، قوی اور مضبوط تھے۔ اس کے پہلووں سے علم کے چشمے پھوٹتے تھے۔ اس کی زبان پر حکمت کا پہرہ تھا۔ وہ دنیا، اس کی بہاروں اور لذتوں سے غیر مانوس تھے۔ خوف خدا سے آنسو بہاتے تھے۔ ضرار کہتا ہے، خدا کی قسم میں نے بعض حالات میں دیکھا ہے کہ رات کی تاریکی میں علی محراب عبادت میں اپنی ریش کو پکڑتے ہوئے سانپ کے ڈسے ہوئے کی مانند تڑپ رہے ہیں اور اس طرح رو رہے ہیں، جس طرح کوئی غم کا مارا۔ ضرار فضائل بیان کرتا گیا، یہاں تک کہ امیر شام سمیت تمام دربار اس حقیقت بیانی سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو کھو کر دنیا ایک فقیہ، ایک حکیم، ایک فلسفی، ایک منطقی، ایک خطیب، ایک عالم، ایک مومن، ایک مفتی، ایک عادل، ایک قاضی، ایک صف شکن، ایک زاہد، ایک عابد، ایک انسان مجسم اور ایک انسانیت کے عدیم المثال قائد سے محروم ہوگئی۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .