۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 20, 2024
آیت اللہ حافظ ریاض نجفی

حوزہ/ وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے صدر نے علی مسجد ماڈل ٹاﺅن میں خطبہ جمعہ میں بیان کرتے ہوئے کہا کہ کورونا کے باعث انسانی صحت و زندگی کی خاطر مجتہدین نے نماز جماعت میں دو افراد اور صفوں کے مابین تین سے چار فٹ فاصلہ کی اجازت دی ہے۔ ریاستِ مدینہ میں کسی صحابی کو نہیں بلکہ حضور کو اسوہ قرار دیا گیا ، حکومت دین میں نئی باتیں شامل کرنے سے اجتناب کرے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے صدر آیت اللہ حافظ سید ریاض حسین نجفی نے علی مسجد ماڈل ٹاﺅن میں خطبہ جمعہ میں واضح کیا ہے کہ قرآنی تعلیمات کی رو سے رزق، روزگار، آمدنی نہ ہونے کے خدشہ سے بچوں کی پیدائش روکنا ٹھیک نہیں۔موجودہ مخلوق اور پیدا ہونے والوں کے رزق کا ضامن اللہ ہے۔ ہر شخص کے دنیا میں آنے اورجانے کا نظام اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔انسانی کوششیں لا حاصل ثابت ہوتی ہیں۔کئی لوگ بچوں کی پیدائش روکنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن جسے پیدا ہونا ہے وہ ہو کر ہی رہتا ہے۔ اس کے بر عکس کتنے لوگ اولاد کی خواہش میں کتنے جتن کرتے ہیں لیکن بچہ نہیں ہوتا۔یہ سب اللہ کے ہاتھ میں ہے۔اگر نظامِ قدرت میں آبادی کم کرنا ہو تو اس کے کئی اسباب بن جاتے ہیں۔ 2005ءمیں ہونے والے زلزلہ سے 75 ہزار شہری موت کے منہ میں چلے گئے تھے۔ اب کرونا سے بھی گزشتہ سال سے کافی اموات واقع ہو رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ماہ ِ مبارک مغفرت کا مہینہ ہے ۔ اس کی قدر کی جانا چاہئے۔ شام کے وقت جب روزہ سے خشتگی بڑھ جاتی ہے تو روزہ دار کی دوسروں کی شفاعت کی دعا بھی قبول ہوتی ہے بشرطیکہ یہ اس کے تمام اعضاءو جوارح کا روزہ ہو۔ بعض افراد کے نیکی نہ کرنے کے باوجود نعمتوں اور ترقی پر تعجب نہیں کرنا چاہئے۔قرآن بتاتا ہے کہ انہیں تدریجی طور پر عذاب کی طرف لے جایا جا رہا ہے پھر اچانک ان کی گرفت ہو گی۔نعمت سے زیادہ اہم اللہ کی رحمت ہے جس کے بغیر ایک لمحہ زندہ نہیں رہ سکتے۔”ہوا “اللہ کی رحمت ہے جس کے بغیر جینا محال ۔

حافظ ریاض نجفی نے کرونا کی احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے کو لازم قراردیتے ہوئے کہا کہ دیگر مقامات کے علاوہ مسجد میں بھی ماسک اور فاصلے کا خیال رکھنا ضروری ہے۔انسانی صحت و زندگی کی خاطر مجتہدین نے فقہی قواعد کے مطابق نماز جماعت میں دو افراد اور صفوں کے مابین تین سے چار فٹ فاصلہ کی اجازت دی ہے۔

انہوں نے کہا کہ قرآن میں کافی انبیاءو رسل کا تذکرہ ہے لیکن سب کو ” اُسوہ“ یعنی نمونہ نہیں کہا گیا۔فقط حضرت ابراہیم ؑ اور آں حضور کو اُسوہ قرار دیا گیا۔ حضرت ابراہیمؑ کے لئے دو مرتبہ اور حضرت محمدمصطفی کے لئے ایک مرتبہ یہ کلمہ استعمال کیا گیا ہے۔اب اِس حکومت میں کچھ اور ہستیوں کو بھی ” اسوہ“ کے طور پر شامل کیا جا رہا ہے۔ دینی بزرگان، صحابہ، صحابیات حد درجہ قابلِ احترام ہیں۔ان کے اچھے کاموں کی پیروی کی جانا چاہئے بہت سے اصحاب کی دین کے لئے بہت قربانیاں ہیں لیکن جب تمام انبیاءکو قرآن اسوہ قرار نہیں دیتا تو پھر کسی صحابی یا صحابیہ کو کیسے کہا جا سکتا ہے؟ریاستِ مدینہ میں کسی صحابی کو نہیں بلکہ حضور کو اسوہ قرار دیا گیا تھا۔ حکومت کو دین میں نئی باتیں شامل کرنے سے اجتناب کرنا چاہئے جن سے تفرقہ اور بگاڑ پیدا ہو۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کا حکم دیا گیا اور جو ان کے ساتھ نازل کیا گیا۔ اس سے بعض مفسرین نے قرآن مراد لیا اور بعض نے حضرت علیؑ۔

انہوں نے کہا کہ قرآن مجید میں بیان کئے گئے انبیاءاور سابقہ امتوں کے واقعات اور قصے عبرت حاصل کرنے کے لئے ہیں۔حضرت ابراہیم کے قصہ میں اللہ پر توکل ، بھروسہ اور اس سے عشق کا سبق ملتا ہے۔ اللہ کی رضا کی خاطربے آب و گیاہ سرزمین میں نوزائیدہ بچے اور شریکِ حیات کو یکہ و تنہا چھوڑ دینامعمولی بات نہیں۔بیٹے کو اللہ کی رضا کے لئے ذبح کرنا، آگ میں ڈالے جانے کے امتحان میں کسی کی مدد قبول نہ کرنا اور اس طرح کی مثالوں میں سامانِ عبرت ہے۔ حضرت ابراہیمؑ کے بعد حضرت نوح ؑ کا ذکر ہے، جنہوں نے اپنے قبیلہ کو اللہ کی طرف دعوت دی تو اس کے امراءنے مطالبہ کیا کہ غریب اور کم درجہ کے لوگوں کو خود سے دور کریں ۔ حضرت نوح ؑنے ان کا یہ مطالبہ مسترد کر دیا ۔رسول اکرم سے بھی یہی مطالبہ کیا گیا تھا کہ امیروں کے لئے ایک خاص وقت مقرر کریں تو اللہ کی طرف سے حکم ہوا کہ اے حبیب! ہرگز ایسا نہ کرنا ورنہ آپ کو نقصان ہو گا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے نزدیک ایمان معیار ہے مال ، دولت یا منصب و مقام نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .