۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
ایرانی عدلیہ کے انسانی حقوق کمیشن کے سیکریٹری ڈاکٹر جواد لاریجانی:

حوزہ/ حالیہ چند مہینوں میں رہبر انقلاب اسلامی نے جن اہم موضوعات کا مکرر ذکر کیا ان میں ایک موجودہ عالمی نظام میں بنیادی تبدیلی اور ایک نئے عالمی نظام کی تشکیل کی طرف دنیا کی پیش قدمی ہے۔ ان کے بقول اس تبدیلی کی اہم خصوصیت، مغرب اور امریکہ کی طاقت کا زوال ہے۔ اس موضوع پر روشنی ڈالنے اور اس کا جائزہ لینے کے لئے عدلیہ کے انسانی حقوق کمیشن کے سیکریٹری ڈاکٹر جواد لاریجانی نے اہم گفتگو کی ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،حالیہ چند مہینوں میں رہبر انقلاب اسلامی نے جن اہم موضوعات کا مکرر ذکر کیا ان میں ایک موجودہ عالمی نظام میں بنیادی تبدیلی اور ایک نئے عالمی نظام کی تشکیل کی طرف دنیا کی پیش قدمی ہے۔ ان کے بقول اس تبدیلی کی اہم خصوصیت، مغرب اور امریکہ کی طاقت کا زوال ہے۔ اس موضوع پر روشنی ڈالنے اور اس کا جائزہ لینے کے لئے عدلیہ کے انسانی حقوق کمیشن کے سیکریٹری ڈاکٹر جواد لاریجانی نے اہم گفتگو کی ہے۔

آج کی بین الاقوامی تبدیلیوں میں اور عالمی سطح پر ایران کو خاص مقام حاصل ہے یا نہيں؟ کیا ایسی علامتیں اور تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں جن سے اس نظریے کی تقویت ہو؟

جواب : نوے کے عشرے میں سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد صیہونی مغرب نے جو پہلی تھیوری پیش کی اور جس کا پروپیگنڈہ کیا اور جس سے فائدہ اٹھایا وہ یہ تھی کہ اب امریکی قیادت کے سامنے کوئي چیلنج اور اس کے سامنے کوئي حریف نہيں ہے۔ اس سلسلے میں عجیب و غریب نظریات بھی پیش کئے گئے ۔

مثال کے طور پر فوکویاما نے اپنی معروف کتاب The End of History and the Last Man میں لکھا ہے کہ اب سب کچھ مکمل ہو گیا اور انسان، اپنے اصلی تکامل تک پہنچ گیا۔ لبرل سیکولرزم پوری دنیا پر چھا جائے گا اور اسلامی انقلاب اور اس طرح کی دیگر مزاحمتوں کا مکمل طور پر خاتمہ ہو جائے گا۔

اسی طرح ہینٹنگٹن نے اپنی کتاب Clash of Civilizations میں لکھا ہے کہ موجودہ جنگوں اور تنازعات کی تھیوری، ثقافتی میدان تک پہنچ گئي ہے اور ان سب کو لبرل سیکولرزم کے مقابلے میں شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس بناء پر ہم آخری فاتح نظریے کے حامل ہيں اور عالمی سطح پر امریکہ اور صیہونی مغرب کی قیادت نے اپنا مشن مکمل کر لیا ہے۔ اس کے بعد اس نظریہ کے ساتھ کہ دنیا کا دوسرا بلاک ختم ہو چکا ہے اور اب سپر پاور ہونے کے لئے امریکہ کے سامنے کوئي چیلنج ہی نہیں ہے، انہوں نے اقدامات کا آغاز کیا اور عراق و افغانستان پر حملہ کر دیا ۔

لیکن حقائق کے سلسلے میں اس طرح کا تصور صحیح نہیں تھا۔

سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد عالمی نظام کے سلسلے میں یہ تھیوری کس حد تک حقائق سے مطابقت رکھتی تھی؟

جواب: دھیرے دھیرے یہ واضح ہو گیا کہ امریکہ کی بے رقیب عالمی قیادت اور پوری دنیا کو فتح کرنے کا دعوی اتنی آسانی سے پورا نہيں ہونے والا اور اسے کئی محاذوں پر شکست کا بھی سامنا کرنا پڑا۔

سب سے پہلی شکست فوجی شکست تھی جیسے عراق میں جو ان کو شکست ہوئي۔ امریکیوں نے حماقت آمیز انداز میں یہ سوچ لیا تھا کہ عراق پر ایک فوجی حاکم کو مسلط کرنے سے سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا لیکن انہيں بہت جلد اس حاکم کو ہٹانے پر مجبور ہونا پڑا اور آج بھی انہيں عوامی دباؤ کے سامنے مجبور ہوکر عراق چھوڑنا پڑے گا۔

ایک اور مثال افغانستان میں نیٹو کی دراندازی ہے۔ آغاز میں نیٹو، سوویت یونین کے سامنے اپنے اراکین کے دفاع کے لئے بنائی جانے والی ایک تنظیم تھی اور اس کی ذمہ داری دفاع تھی جو رکن ملکوں کے اندر تک محدود تھی۔ لیکن سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد مغرب نے نیٹو کے آئین کو بدل دیا اور نیٹو کے دائرے کو رکن ملکوں کی سرحدوں سے باہر فوجی اقدامات تک وسیع کر دیا اور اس کا پہلا مشن افغانستان قرار پایا لیکن اس کا انجام کیا ہوا؟ افغانستان میں نیٹو کو جو شکست ہوئي ہے وہ امریکہ کے سامنے سوویت یونین کی شکست سے کم نہيں ہے بلکہ اس سے زیادہ بڑی ہے۔

نئے روس نے بھی، پوری دنیا پر تسلط کے مغرب کے نظریہ پر اہم اور کاری ضرب لگائی ہے۔ پوتین بڑی تیزی کے ساتھ سابق سوویت یونین کے کچھ حصوں کو قومیت، خودمختاری اور طاقت کے لحاظ سے، دوبارہ منظم کرنے اور روس کو ایک اہم و موثر ملک بنانے میں کامیاب رہے۔ امریکی قیادت کے لئے یہ بہت بڑا چیلنج تھا۔

اب دنیا کی قیادت کا دعوی کرنے والے مغرب کے سامنے دو بڑے چیلنج تھے۔ ایک روس کی جانب سے تھا اور دوسرا چیلنج مغربی ایشیا اور عالم اسلام میں اسلامی جمہوریہ ایران کی موجودگي اور اس استقامتی نظریہ کی وجہ سے تھا جس کی داغ بیل امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے ڈالی تھی۔ اسی کے بعد سے یہ واضح ہو گيا کہ دنیا کی قیادت اتنی آسان بھی نہيں ہے۔

ان کے علاوہ بھی امریکہ کے سامنے دوسرے چیلنجز ہیں۔ دنیا اور جنوبی امریکہ میں مزاحمتی محاذ کی تشکیل عمل میں آئی اور مثال کے طور پر وینیزوئيلا اور کیوبا میں عوام نے جس طرح سے امریکی حرکتوں کے سامنے مزاحمت کی یا پھر جو کچھ برازیل میں ہوا وہ سب ایک طرح سے امریکہ کی جانب سے عالمی قیادت کے نظرئے کی شکست ہی ہے۔

اسلامی انقلاب جو اسلامی جمہوری نظام کا باعث بنا، صرف ہماری سرحدوں تک ہی محدود نہيں رہا۔ استقامتی محاذ آج مغربی ایشیا میں ایک اہم و موثر محاذ ہے۔ ہم نے شام میں دیکھا کہ کس طرح صیہونیت، امریکی تسلط پسندی، مغربی حمایت اور عالم اسلام کے منافق، ایک ساتھ جمع ہو گئے تھے جو در اصل بلیک واٹر کی پشتپناہی میں ایک خاص قسم کے طرز تفکر کی نمائندگی کرتے ہیں۔ وہی بلیک واٹر جو ایک سیکوریٹی کمپنی کی آڑ میں بے انتہا تشدد کی ٹریننگ دیتی ہے اور پیسے لے کر انسانوں کا قتل کرتی ہے۔ لیکن استقامتی محاذ نے عالمی سامراج کی اس پالیسی کو پوری طرح ناکام بنا دیا جس پر در اصل شام، لبنان، ایران، عراق اور مختلف ملکوں میں عمل در آمد کئے جانے کا منصوبہ تھا۔ اس لئے یہ واضح ہے کہ استقامتی محاذ ایک اہم موضوع ہے۔

آپ سے آخری سوال یہ ہے کہ آپ کی رائے میں نیا عالمی نظام کب پائیدار ہو پائے گا اور یہ عبوری دور کتنا طویل ہوگا؟

جواب: نیو ورلڈ آرڈر کی ابھی تشکیل ہی نہيں ہوئي ہے۔ ابھی جو کچھ نظر آ رہا ہے وہ در اصل اس نظام کا زوال ہے جس کا دعوی امریکہ اور مغربی حکومتیں کرتی آئی ہيں۔ نئے عالمی نظام کو صحیح بنیادوں پر قائم ہونا چاہیے۔ تشکیل کے اسی عمل میں ایران کی موجودگی کی اہمیت ہے۔ اقوام متحدہ کو ان لوگوں کا اکھاڑا نہيں بننا چاہیے جو خود کو دنیا کا مالک اور حاکم سمجھتے ہيں۔ اقوام متحدہ کو تمام قوموں کی پناہ گاہ ہونا چاہیے۔

ہم نئے عالمی نظام کی تشکیل کے عمل سے گزر رہے ہيں کہ جس نے مغربی ملکوں کے تسلط کو ختم کر دیا ہے لیکن نیا نظام بننا باقی ہے۔ عالمی سطح پر ایران کی موجودگی کی اہمیت اسی لئے ہے۔ ان شاء اللہ مستقبل کے نئے عالمی نظام میں عالم اسلام، اسلامی مزاحمت اور تسلط پسندی کے مخالف ملکوں کا سرگرم کردار رہے گا۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .