۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
سید محمد حیدر اصفہانی

حوزہ/آج امریکہ اخلاقی اعتبار سے زوال پزیر تو ہے ہی، ساتھ ہی ساتھ وہ اندر سے کافی کمزور ہوچکا ہے۔ دنیا کے اکثر ممالک اسے پسند نہیں کرتے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ممبئی مہاراشٹرا میں مشغول تبلیغ دین و امام جماعت سید محمد حیدر اصفہانی نے ظلم و بربریت اور سیاہ فام امریکی شہری کے حوالے سے کہا کہ امریکہ نے نہ کہ صرف اپنے سیاہ فام شہریوں پر ظلم کر رہا ہے بلکہ دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں ہے جس کو امریکہ نے نقصان نہ پہنچایا ہو۔

مولانا محمد حیدر اصفہانی نے کہا کہ ظلم، عدل کے مد مقابل استعمال ہوتا ہے اور لغت میں ظلم کی تعریف اس طرح کی گئ ہے "وضع الشیء فی غیر موضعه" یعنی کسی چیز کو اس کے اصل مقام سے ہٹا دینا ظلم کہلاتا ہے جبکہ عدل کی تعریف "العَدلُ یضَعُ الامُورَ مَواضِعَها" کی گئی ہے۔ یعنی کسی چیز کو اس کے اصل مقام پر قرار دینا ہی عدل ہے۔ ظلم ہمیشہ ناپسندیدہ چیز ہے جبکہ عدل کو سب پسند کرتے ہیں۔ظلم وہ لفظ ہے جسے کوئی ظالم بھی پسند نہیں کرتا اور وہ کسی صورت میں اپنے عمل کو ظلم کہنے پر راضی نہیں ہوتا۔ چونکہ ظلم ایک تسلیم شدہ برائی ہے جس سے ہر ذی شعور بیزار ہے حتیٰ ظالم بھی یہ برداشت نہیں کرے گا کہ کوئی اس پر ظلم کرے۔ یعنی انسان فطرتاً ظلم کو ناپسند کرتا ہے لہذا دنیا کا ہر انسان چاہے وہ کسی بھی قوم و قبیلے اور کسی بھی دین و مذہب سے تعلق رکھتا ہو چاہے وہ دنیا کے کسی بھی گوشے میں زندگی بسر کرتا ہو فطرتاً ظلم کے خلاف ہوگا۔ لیکن اس کے بعد ایک سوال ذہن میں فوراً گردش کرنے لگتا ہے کہ اگر سب فطرتاً ظلم کو ناپسند کرتے ہیں تو پھر ایک دوسرے پر ظلم کیوں روا رکھتے ہیں؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر ظالم اپنے کئے ہوئے عمل کو ظلم مان لے تو پھر وہ کسی پر ظلم نہیں کرے گا کیوں کہ اس کا ضمیر اس بات کی قطعی اجازت نہیں دے گا۔ تو معلوم ہوا کہ ظالم بھی فطرتاً ظلم کے خلاف ہے لیکن اس کا ماحول اور اس کی انانیت اسے ظلم کی تشخیص سے باز رکھتی ہے اور رفتہ رفتہ اس کا ضمیر مردہ ہو جاتا ہے پھر وہ اسے ملامت بھی نہیں کرتا لہذا انسان اسی سبب ظلم کے دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے۔

مولانا نے کہا کہ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ پوری دنیا ظلم سے کراہ رہی ہے، چاروں سمت چیخ و پکار مچی ہوئی ہے، ہرطرف بربریت اور سفاکیت کا ماحول نظر آتا ہے۔ یہ اسی فکر کا نتیجہ ہے کہ جہاں ظلم کو ظلم نہیں تصور کیا جاتا بلکہ اسے دفاع کا نام دیا جاتا ہے۔ تجاوزگر ملک بھی اپنے جنگی شعبے کو وزارت دفاع کہتا ہے چاہے اس نے کتنے ہی عورتوں اور بچوں کو قتل کیا ہو کہ جو ہرگز اس کے لیے خطرہ شمار نہیں ہو سکتے۔ یہ ہے آج کی دنیا کا حال کہ جس میں سب کو صرف اپنے مفاد اور اپنی اپنی جان کی فکر ہے کسی کو کسی سے کوئی مطلب نہیں۔ یہ کیسا انسان ہے جس میں کوئی انسانیت ہی نہیں بلکہ وہ سفاکیت اور درندگی میں جانوروں کو بھی شرمندہ کرتا ہوا نظر آرہا ہے۔

مزید اپنی گفتگو میں کہا کہ کہیں ایک بھائی دوسرے بھائی پر تو کہیں ایک خاندان دوسرے خاندان پر ظلم کر رہا ہے۔ کہیں ایک گروہ دوسرے گروہ کا دشمن ہے تو کہیں ایک ملک دوسرے ملک پر چڑھائی کرتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ غرض کہ دنیا کا کوئی گوشہ و کنار ایسا نہیں ہے جہاں سے ظلم و تعدی کی ایک آدھ خبریں نہ سنائی دیں۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ صرف اس زمانے کی روداد ہے بلکہ ادوار گزشتہ میں بھی یہ ہوتا رہا ہے اور ہوتا رہے گا۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھے محو استراحت رہیں۔ دین اسلام وہ دین ہے جس نے ظلم کے خلاف سب سے پہلے محاذ آرائی کی اور اس راہ میں اسے بڑی قربانیاں بھی دینا پڑیں جبکہ اس دور میں بھی سب زیادہ مسلمان ہی ظلم و دہشتگردی کے شکار ہیں۔

شبہ قارہ کے تعلق سے کہا کہ ایشیا اور وسطی ایشیا سے لیکر یورپ اور بر اعظم افریقہ تک دہشتگردی کا ننگا ناچ ہو رہا ہے اور دنیا کے کچھ ممالک ریاستی دہشتگردی میں ملوث نظر آتے ہیں اور اس میں امریکہ اور اسرائیل پیش پیش ہیں اور آج دنیا کے جس گوشے میں بھی دہشتگردی کے واقعات ہوتے ہیں اس میں مستقیم یا غیر مستقیم طور پر یہی دو ممالک ملوث نظر آتے ہیں۔

اسرائیل کہ جس کی بنیاد میں ہی ظلم و دہشت گردی موجود ہے اس نے پورے ایک ملک پر قبضہ کرکے ایک ناجائز ریاست کی تأسیس کی اور فلسطینیوں کو ان کی زمینوں، گھروں اور آبائی وطن سے بے دخل کر دیا گیا جس کے نتیجے میں فلسطینیوں کو دوسرے ملکوں پناہ گزین بننا پڑا یہاں تک کہ آج جو فلسطینی عوام‌  فلسطین میں ہیں ان کی بھی حیثیت صرف ایک پناہ گزین کی سی ہے۔ اسرائیل کی اس ریاستی دہشتگردی میں کچھ نام نہاد اسلامی ممالک بھی شامل ہیں جو درپردہ اس کی مدد کر رہے ہیں اور فلسطینیوں اور مسلمانوں کی پیٹھ میں خنجر پیوست کر رہے ہیں۔ جبکہ ایران وہ واحد ملک ہے جو اسرائیل کے خلاف مزاحمتی گروہوں کی اعلانیہ طور پر مدد کر رہا ہے اور بیت المقدس کی آزادی کے لئے ہر ممکن کوشش کر رہا ہے دوسری طرف کچھ عرب ممالک دونوں دہشتگرد ریاستوں کے ساتھ ملکر ایران کی گھیرا بندی کرنے میں مصروف ہیں، یہ الگ بات ہے کہ ابھی تک وہ کامیاب نہ ہو سکا بلکہ ایران نے اپنی حکمت عملی سے امریکی مفادات کو ایسی زک پہنچائی ہے کہ وہ محو حیرت بھی ہے اور سردرگمی کا شکار بھی۔ در اصل امریکہ نے ایران کو جتنا بھی گھیرنے کی کوشش کی اس میں ایران کا فائدہ ہی نہیں ہوا بلکہ اس کا قد اور بلند ہوگیا۔
 مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے۔
 وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے۔

ممبئی کے مبلغ نے کہا کہ جہاں تک امریکہ کی ریاستی دہشتگردی کی بات ہے تو وہ سب پر عیاں ہے۔ آج دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں ہے جس کو امریکہ نے نقصان نہ پہنچایا ہو حتی اس کے دوست ممالک بھی اس کے ظلم سے محفوظ نہیں ہیں۔جاپان، ویتنام، افغانستان، لیبیا، عراق جیسے ممالک امریکی دہشتگردی کے گواہ ہیں کہ جہاں امریکہ نے ایسی تباہی مچائی کہ آج تک اس کے اثرات موجود ہیں۔ امریکہ وہ پہلا ملک ہے جس نے جوہری ہتھیار استعمال کئے جس کے نتیجے میں جاپان کے دو شہر ہیروشیما اور ناگاساکی پوری طرح تباہ ہو گئے۔ اور تعجب اس بات پر ہے آج یہی امریکہ دوسرے ممالک کو جوہری ہتھیاروں سے روکنے کی کوشش کرتا ہے اور وہ ایران کو ہمیشہ جوہری ہتھیاروں کے سلسلے میں متہم بھی کرتا رہا ہے جبکہ جوہری توانائی کے عالمی ادارے نے بارہا ایران کے ایٹمی پروگرام کے پر امن ہونے کی تصدیق کی ہے لیکن امریکہ ہے کہ مطمئن نہیں ہوتا اور نہ کبھی مطمئن ہوگا  کیوں کہ وہ چاہتا ہے کہ ایران کے اسلامی انقلاب کو ختم کر دیا جائے اور وہاں پھر شاہ کی طرح کسی وطن فروش کو بٹھا کر ایران کی دولت اور تیل پر قبضہ کر لیا جائے چونکہ اس کو اس پروپیگنڈے کی آڑ میں اپنے مفادات کی تکمیل کا راستہ ہموار کرنا ہے بنابریں امریکہ موجودہ نظام سے کبھی راضی نہیں ہوگا۔ مجھے لگتا ہے کہ امریکی حکام اس خواہش کو اپنی قبر میں لے کر چلے جائیں گے ان شاءاللہ۔

انہوں نے کہا کہ جو امریکہ حقوق انسانی، حقوق نسوانی اور مساوات کی بات کرتا ہے آج وہی امریکہ خود اپنے ملک میں کسی کے بھی حقوق کا پاس و لحاظ نہیں رکھتا امریکی تاریخ کے اوراق نسلی امتیازات کے واقعات سے سیاہ ہیں ہے یہی سبب ہے کہ فروری کا مہینہ امریکہ اور یورپ کے کئی ممالک میں "BLACK HISTORY MOTNH" کے طور پر منایا جاتا ہے ۔ امریکی مسلمانوں کیلئے سیاہ فام امریکیوں کی تاریخ دراصل شمالی امریکہ کی اسلامی تاریخ ہے ۔ امریکہ میں افریقیوں کی آمد کا آغاز 1619ء میں ہوا ، جب افریقہ کے ساحلوں سے لاکھوں کی تعداد میں افریقیوں کو پکڑ کر یہاں لایا گیا ، بعض مورخین کا کہنا ہے کہ سیاہ فام غلاموں کی امریکہ آمد کا سلسلہ 1555ء میں ہوا ، جب "سیرالیون" سے پکڑے ہوئے غلام امریکہ میں فروخت کیے گئے ۔ افریقہ کے ساحلوں سے پکڑے ہوئے غلام "گلوں" کی صورت میں  ہالینڈ کی بندرگاہوں پر پہنچائے جاتے تھے۔ جہاں سے بحر اوقیانوس کے راستے انہیں امریکہ لایا جاتا تھا۔ اسی بناء پر یہ گھناؤنا کاروبار "Slave trade" کہلاتا تھا ۔ افریقہ سے براہ راست امریکہ آنے والے غلاموں سے لدا پہلا جہاز 1619ء میں ورجینیا میں لنگر انداز ہوا۔ اس کے بعد سے ’’افریقیوں کا شکار‘‘ ایک قومی کھیل بن گیا ۔ غلاموں کی تجارت اور ہلاکو و تیمور جیسے غارت گروں کے ہاتھوں مفتوحہ آبادیوں کو غلام بنانے کی مثالیں موجود ہیں مگر یہاں طریقہ واردات بالکل ہی انوکھا تھا کہ جہاز ساحل پر لنگر انداز ہوتے اور بستی کی بستی گھیر گھیر کر عورتوں بچوں سمیت ہانک کر جہاز پر لاد دیئے جاتے ۔ دوران سفر مردوں اور عورتوں کو علیحدہ کرکے یہ قزاق کم سن بچیاں آپس میں تقسیم کرلیتے اور پھر ان کے درمیان "کثرت اولاد" کا مقابلہ ہوتا تاکہ غلاموں کی نئی کھیپ حاصل کی جائے۔ 1898ء تک ایک کروڑ افریقی غلام بنا کر امریکہ لائے گئے ۔ سفر کے دوران تشدد وبیماری اور دم گھنٹے سے 20 لاکھ سے زیادہ غلام ہلاک ہوگئے جبکہ بغاوت کرنے والے بہت سے غلاموں کو ان کے پیروں میں وزن باندھ کر سمندر میں پھینک دیا گیا۔ جب امریکہ میں افریقی غلام کی صورت میں آباد ہوئے تو ان کو قابو رکھنے کیلئے بدترین ہتھکنڈے اور ظلم کے ضابطے وضع کئے گئے۔ سرکشی کی فوری سزا پھانسی تھی اور یہ سزا اس شدت و کثرت سے دی جاتی تھی کہ پھندے کی تیاری کیلئے اسی کی فروخت ایک نفع بخش کاروبار بن گیا۔ جلادی کا کام "مجرم" کے خونی رشتے دار سے لیا جاتا تھا ، یعنی بھائی اپنے بھائی کو یا باپ اپنے بیٹے اور بیٹا اپنے باپ کو پھندا لگاتا۔

مزید کہاکہ پھانسی کے علاوہ بورے میں بند کرکے ڈنڈوں کی ضربات سے مارڈالنا، خنجر گھونپ کر ہلاک کرنا، زندہ جلانا، غلاموں کو تیزاب کے ڈرم میں ڈال دینا اور پیروں میں وزن باندھ کر دریا برد کردینا بھی اس دور کی سزا تھی۔ بس یوں سمجھئے کہ افریقہ سے پکڑ کر امریکہ لائے جانے والے غلاموں پر جو مظالم توڑے گئے اس کا ذکر کرتے ہوئے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔
مارتن لوتھر کنگ سے لیکر باکسر محمد علی تک نے کالے امریکیوں کے حق میں آواز بلند کی لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہ سکا۔ محمد علی جو کہ مشہور باکسر تھے جب ان سے ویتنام جنگ کا ایندھن بننے کا کہا گیا تو انہوں نے یہ کہہ کر جنگ میں جانے سے انکار کر دیا کہ امریکہ سفید فام لوگوں کے لیے تو جنت کا منظر رہا ہے لیکن بیڑیوں میں جکڑے ہوئے غلام بن کر آنے والے سیاہ فاموں کے لیے یہ ایک نہ ختم ہونے والا ڈراؤنا خواب رہا ہے، ''میں اس خون میں لتھڑے نظام کا سپاہی بن کر ویت نام کی جنگ نہیں لڑوں گا۔

مولانا محمد حیدر نے کہا کہ امریکیوں کے دلوں پر راج کرنے والے محمد علی کو اس "جرم" پر پانچ سال قید بامشقت کاٹنا پڑی۔ عالمی باکسنگ چمپئیں کا اعزاز واپس کرنا پڑا۔ مالی مشکلات کا سامنا ہوا لیکن انہوں نے اپنے بے داغ کردار اور بہادری سے اپنی سچائی ثابت کی اور ہمیشہ کے لیے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنا لی۔ اور ابھی کچھ دن پہلے جارج فلوئیڈ نامی ایک سیاہ فام امریکی کو ایک معمولی جرم میں پولس نے موت کے گھاٹ اتار دیا اور ان کا آخری جملہ" میرا دم گھٹ رہا ہے" زبان زد دنیا بن گیا۔ اس وقت بھی پورے امریکہ اور یورپ کے بعض ممالک اور شہریوں میں اسی شعار "میرا دم گھٹ رہا ہے" کے ساتھ مظاہرے ہو رہے ہیں۔ اور امریکہ میں یہ مظاہرے اتنے شدید ہیں کہ دنیا کے سب سے طاقتور صدر یعنی ٹرمپ کو وائٹ ہاؤس کے ایک بنکر میں پناہ لینا پڑی۔
کئی شہروں میں مظاہرین کے سامنے پولس بےبس نظر آرہی ہے یہاں تک کہ امریکہ کی سڑکوں پر پہلی بار قانون نافذ کرنے کے لئے فوج بلانے کی تجویز پیش کر دی گئی البتہ کافی مخالفت کے بعد یہ تجویز بالائے طاق رکھ دی گئی۔

آخر میں کہا کہ آج امریکہ اخلاقی اعتبار سے زوال پزیر تو ہے ہی، ساتھ ہی ساتھ وہ اندر سے کافی کمزور ہوچکا ہے۔ دنیا کے اکثر ممالک اسے پسند نہیں کرتے جبکہ کچھ ممالک کھل کر اس کے سامنے کھڑے ہیں اور امریکہ جیسا سپر پاور ملک صرف دھمکیوں اور زیادہ سے زیادہ پابندیاں نافذ کرکے انہیں ڈرانے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن اب اس کی حقیقت دنیا پر عیاں ہو چکی ہے لہذا عنقریب اس دنیا سے امریکی دبدبہ ختم ہو جائے گا اور اس کے چشم و ابرو کے اشارے پر چلنے والے نیز اس پر تکیہ کرنے والے ممالک کا زوال بھی یقینی ہو جائے گا۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .