تحریر: ڈاکٹر فرمان علی سعیدی شگری
دو بلاگ نظام کا خاتمہ
اسلامی انقلاب نے دنیا کے دو بلاگ غربی نظام کو اپنے وجود میں آتے ہی نہ صرف چیلنج کیا بلکہ اس کے بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا نتیجہ کے طور پر دو سپر پاور طاقتیں جو ایک دوسرے کو نیچلے دکھانے کے درپےتھی، اپنے درمیان موجود اختلافات کو چھوڑ کر اس نئے انقلاب کے خلاف نبرد آزما ہوگئی، یہاں تک دو بلاگ نظام کے خاتمہ کے بعد بھی انقلاب نےمغرب کے ایک بلاگ نظام کیلیے عالمگیر اور تہذیبوں کے درمیان تصادم کے نظریات کو چیلنچ کیا اور ایک ایسے نظام کو بروۓ کار لانے کی کوشش، جو مغربی معیاروں اور افکار سے مختلف تھا۔
عالمی اختلافات کا رخ بدلنا
عام طور پر عالمی سطح پر حکومتوں کے درمیان پاۓ جانے والے اختلافات صلح و مقتدر حکومتوں کی ثالثی کے ذریعہ حل کیے جاتے تھے ۔ اسلامی انقلاب نے نا صرف صلح کے ان طریقوں پر اثر چھوڑا بلکہ عالمی مسائل میں اصلی ایکٹرز کے اثر ورسوخ کو کم کرکے ایک نیا بلاک بنایا جس کا مقصد عالمی سامراجی قوتوں کے مفادات تحفظ نھی بلکہ ارباب اقتدار اور مفاد پرست ٹولے کے مقابلےمیں دنیا کے مظلوم عوام کا دفاع کرنا تھا۔ دوسری طرف اب تک قومی ، لسانی اور مذہبی بنیادوں پر ہونے والی جنگوں کو نئی جہت دی، اور دنیا کو دو استکبار اور مستضعفین گروہ میں تقسیم کرکے عالمی سطح پر ایک نئی سیاست کا باب کھولا ۔
بین الاقوامی سطح پر نۓ اسلامی بلاگ کا قیام
اسلامی انقلاب کی ایک نمایاں کامیابی، پہلی مرتبہ جدید ماڈرن دنیا میں اسلامی معیاروں اور اقداروں پر مبتنی، اسلامی سیاسی نظریہ کو کامیابی کے ساتھ پیش کرنا تھا - ماہرین سیاسیات، بین الاقوامی مبصرین اور تجزیہ نگاروں، سب ہی نے اپنے طور پر اس جدید نظریہ کو تجزیہ کیا اور اسکے بارے میں اپنے علمی تبصرے پیش کیے۔ عملی میدان میں بھی اسلامی انقلاب نے تمام مغربی اسٹراٹیجیز کو چلینچ کیا اور یورپ کے لئے سب سے بڑی نگران کن بات یہ تھی کہ انقلاب کا آغاز اس سر زمین سے ہواجو اسکے کاملا زیر اثر تھی۔(فرانستوال،1384: 49)
اسلام کا با عنوان بین الاقوامی نظام کے طور پر تعارف
اسلامی انقلاب کی کامیابی مسلمان قوم کی بیداری کا سبب بنا اور اس نے دنیا کے تمام مسلمانوں کو ایک مشترک جدوجہد کا عالمی پلیٹ فارم مہیا کیا۔
بین الاقوامی طاقت کی معیاروں کو بین الاقوامی سطح پر تبدیل کردینا
مختلف ممالک کو طاقت کے بل بوتے پر مختلف بلاگ میں تقسیم کیا ہوا تھا اور اس کا معیار دفاعی، سیاسی، جغرافیائی، مالی اور اقتصادی لحاظ سے زيادہ طاقتور ہونا تھا یعنی جو ملک ان سیکٹرز میں آگے ہونگے ان کو عالمی سطح پر زیادہ طاقتور سمجھا جاتا تھا۔ لیکن اسلامی انقلاب قائم ہوا تو اس نے عالمی سطح پر ایک قومی موومنٹ اور جنبش تیار کیا جن کے پاس کچھ بھی نہیں تھا اور ان کا اسلحہ خدا پر ایمان اور ظلم کے چکی میں پسی ہوئی دنیا کے مظلوموں کی حمایت تھا۔ اور ان کے دشمن دنیا کے تمام ماڈرن اسلحوں سے لیس،اور سپر پاورز حکومتوں کی پشت پناہی حاصل تھی۔(چوہدری،2004: 172)
ریگن کی حکومت کی نگاہ میں ایران عمومی طور پر بین الاقوامی دہشت گردی اور عالمگیر انقلاب کے مترادف تھا۔ موجودہ ایران اپنے ابتدائی دہائی کو انقلاب کے بنیادوں کو مضبوط کرنا دوسرا انقلاب کو بر آمد کرنے کے، دو ہدف اور مقصد سے آغاز کیا۔ ایک جدید اسلامی جمہوریہ کا آئین تیار ہوا جس کے تحت ایک پارلمانی منتخب حکومت جو شریعت اسلامی کے ما تحت چلے گی۔ آیت اللہ خمینی (رح) ولایت کے مقام پر فائز ہوا اور عام عہدہ داروں، جیسے مہدی بازرگان اور ابو الحسن بنی صدر نے مختصر مدت کے لۓ کچھ مسئولیت اور ذمہ داریوں کو سنبھالا۔ 1981ء کو علماء نے مؤثر اور ہنگامی اقدامات کے ذریعہ حکومت پر کنٹرول کیا۔ اور داخلی مخالفین کو کچلتے سے اہم مراکز کو اپنے قبضہ میں لیا۔
نتیجہ کے طور پر ایران کے معاشرہ میں وسیع پیمانہ پر تبدیلی آئی ۔ ایک گروپ جو علماء اور انقلاب کے فرزندوں پر مشتمل تھا، حکومت اور اجرائی امور کو اپنے کنٹرول میں لیا۔
اسلامی انقلاب کا عالمی سطح پر اثرات
ایرانی انقلاب کا دوسرے مسلم ممالک پر اثرات کا جائزہ لینے کے لۓ ایک طرف خود ایران کی جد و جہد پر وابستہ ہے ، تو دوسری طرف اس ملک کے دوسرے ملک اور علاقہ کے موقعیت کا جائزہ لینا بہت ضروری ہے۔ اسی وجہ سے تجزيہ اور تبصرہ بنیادی طور پر اس ملک اور علاقہ کی موقعیت کے تحت ہونی چاہۓ، علاقائی تعلیم یافتہ (ایلکچولز) طبقہ ہئیت کی ترکیبہ، اسلامی گروہوں اور مخالف گروہوں کی ماہیت اور علاقائی عوامل کو مد نظر رکھنا چاہیے۔