۹ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 28, 2024
یوسف الحاضری سخنگوی سابق وزارت بهداشت یمن

حوزه/ڈاکٹر یوسف الحاضری نے کہا کہ امام خمینی(رح) مزاحمتی و مقاومتی محور کے بانی تھے، اسی لئے اسلامی انقلاب کے بعد دوسرے انقلابات رونما ہوئے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، شہید سردار قاسم سلیمانی کو انقلابِ اسلامی ایران کی مقبول ترین شخصیات میں سے اور عالمی استکباری قوتوں کے خلاف جدوجہد کی ایک علامت کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اسلامی دنیا کے اس عظیم شہید نے کبھی اسلام اور دنیا کے مظلوموں کی عزت کے سوا کچھ نہیں سوچا اور اپنی زندگی ظالموں کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے گزاری اور ہمیشہ رہبرِ معظم کی سیرت پر عمل کرتے رہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی نے شہید قاسم سلیمانی کی تیسری برسی کے سلسلے میں یمنی وزارت صحت کے سابق ترجمان اور ماہر سیاسیات ڈاکٹر یوسف الحاضری سے خصوصی گفتگو کی ہے جس کا متن کچھ یوں ہے:

حوزه:شہید قاسم سلیمانی کی مزاحمتی جدوجہد کا مشرق وسطیٰ میں کیا اثر ہے؟

شہید سلیمانی کی جدوجہد عمل کے ساتھ تھی اور وہ خطے اور مزاحمتی محور کے ممالک میں مسلمانوں کی مظلومیت اور مسائل سے آگاہ تھے۔ اس کے نتائج بھی بہت عظیم تھے اور اس کا اثر خطے اور دیگر ممالک کے آزادی پسند لوگوں کے دلوں پر پڑا۔

حوزه: امام خمینی (رح) اور رہبرِ انقلاب کے فکر و عمل میں مزاحمت و مقاومت کا کیا مقام ہے اور دیگر میدانوں میں مزاحمتی سوچ کا کردار کیا ہے؟

امام خمینی(رح) مزاحمتی و مقاومتی محور کے بانی تھے، اسی لئے اسلامی انقلاب کے بعد دوسرے انقلابات رونما ہوئے اور دوسری طرف امریکہ خطے میں رونما ہوئے انقلابات کو اپنے مفادات کیلئے استعمال کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔

حوزه:قوموں اور حکومتوں کی مزاحمت کو شکست دینے کیلئے دشمن کی کیا چال ہے؟ سیاسی اور بین الاقوامی تعلقات میں شہید قاسم سلیمانی کے مزاحمتی افکار کو بیان کرنے کا طریقہ کیا ہے؟

دشمنوں کی چالوں میں سرفہرست اقتصادی جنگ اور خطے کے ممالک کے اندرونی حالات کو خراب کرنے کیلئے نرم جنگ ہے، کیونکہ مزاحمتی محور نظامی جنگ جیت چکا ہے اور عوام نے مزاحمت و مقاومت کا مظاہرہ کیا ہے۔ نوجوانوں کو نرم جنگ میں دشمنوں کے ناپاک عزائم کی شناخت ممکن نہیں ہے۔ بین الاقوامی سیاست میں باہمی احترام اور مشترکہ مفادات کو مدنظر رکھا جائے اور اس بنیاد پر مختلف ممالک کے ساتھ روابط برقرار کئے جائیں۔ یہ نقل و حرکت صرف فوجی میدان میں نہیں بلکہ مختلف سطحوں اور تمام شعبوں میں ہونی چاہیئے۔

حوزه: دنیا کی افراتفری اور مزاحمتی محاذ اور مشرق وسطیٰ میں طاقت کے توازن کے درمیان کیا تعلق ہے اور اسلامی مزاحمت کی حکمت عملی میں بہادرانہ کارناموں پر آپ کیا تجزیہ کریں گے؟

مزاحمت کا رہبر، اہداف اور دشمن ایک ہی ہے، لیکن دشمنوں کے اہداف اور رہنما مختلف ہوتے ہیں اور اسی وجہ سے دشمن انتشار کا شکار ہے۔ دشمن کا ہدف صہیونی حکومت کی حمایت اور اپنے مقاصد کے حصول کیلئے دوسرے ممالک کی خدمات حاصل کرنا ہے؛ جیسا کہ انہوں نے خلیج فارس کے ممالک کے ساتھ سلوک کیا۔ مزاحمت و مقاومت عزت و وقار کا باعث ہوتی ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .