۹ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 28, 2024
بارگاہ فاطمان کنفرانس

حوزہ/ شہید جنرل قاسم سلیمانی اور شہید ابومہدی المہندس سمیت دیگر شہداء کی یاد میں پرانے لکھنؤ کے تاریخی روضہ فاطمان کے قریب واقع حضرت قاسم ہال میں ایک عظیم اجتماع منعقد ہوا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ان دنوں تاریخ انسانیت کے عظیم شہیدوں کی یاد میں دنیا بھر میں اجتماعات ہو رہے ہیں اسی سلسلہ کی ایک کڑی شہر لکھنؤ میں دیکھنے کو ملی۔جہاں یاد شہداء کے عنوان سے ہونے والے پروگرام میں روح پرور اجتماع زبانزد خاص و عام قرار پایا۔
قابل ذکر ہے کہ میجر شہید جنرل قاسم سلیمانی اور شہید ابومہدی المہندس سمیت دیگر شہداء کی یاد میں پرانے لکھنؤ کے تاریخی روضہ فاطمان کے قریب واقع حضرت قاسم ہال میں اس عظیم اجتماع کا آغاز تلاوت کلام پاک سے قارئ قرآن پاک جناب صفدر بہشتی صاحب نے کیا۔جس کے بعد ناظم جلسہ جناب عزادار نانوتوی نے جناب علی محمد صاحب کو آواز دی جنہوں نے نہایت پر درد اور موثر آواز میں فصل گل ہے اب جہاں میں اے شہیدوں تم کہاں ہو؛ پیش کیا۔جسے سن کر مرد و زن سبھی آبدیدہ ہو گئے۔
شہر لکھنؤ کے اس تاریخی و منفرد پروگرام میں پہلی تقریر فاضل قم مولانا سید حیدر عباس رضوی نے کی۔مولانا موصوف نے سورہ احزاب کی آیت نمبر ۲۳ کے ضمن میں شہادت طلبی اور فضیلت شہید و شہادت پر مدلل گفتگو کے ضمن میں بیان کیا کہ ہمیں ماننا پڑے گا کہ قاسم سلیمانی مکتب کربلا کے پیرو ہیں۔اگر امام حسین علیہ السلام یزید سے مقابلہ کے لئے مدینہ کو خیرباد نہ کہتے تو دنیا اس فاسق و فاجر کو اسلام کا نمائندہ سمجھ بیٹھتی ایسے پر فتن دور میں کہ جب لمبی لمبی ڈاڑھی والے اسلام کے نام پر اسلام دشمن عناصر کے اشاروں پر ناپاک عزائم کے ہمراہ آگے بڑھے قاسم سلیمانی کے ولایت فقیہ کے پرچم تلے ان سے مقابلہ کیا تا کہ حقیقی اسلام سے دنیا روشناس ہو سکے۔مولانا سید حیدر عباس نے یاد شہداء کے عنوان سے ہونے والے پروگرام کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے ان جوان برادران و خواہران کا شکریہ ادا کیا جن کی انتھک کوششوں سے یہ عہد ساز پروگرام منعقد ہو سکا۔مولانا سید حیدر عباس نے بیان کیا کہ شہید بہشتی کی شہادت کے بعد منافقین کو پہچاننا آسان ہوا تھا اور شہید قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد ہم جیسوں کو دشمن شناسی کا ہنر ملا۔
دوسری تقریر حوزہ علمیہ حضرت دلدار علی غفرانمآب کے مدرس مولانا سید اصطفی رضا نے کی۔مولانا موصوف نے شہید نمر کے بارے میں گفتگو کے دوران بیان کیا کہ شہید نمر نے لوگوں کو تشدد کی دعوت ہرگز نہ دی بلکہ وہی روش اختیار کی جو سابقہ علماء کی روش تھی۔
شہید نمر نے حکومت کے خلاف اقدام کی دعوت ہرگز نہ دی بلکہ شیعیان امیر المومنین کو ان کا حق دلانے کا مطالبہ کیا۔آج بھی شیعہ حضرات سعودی عرب کے ان علاقوں میں آباد ہیں جہاں قدرتی ذخائر موجود ہیں جیسے پٹرول وغیرہ۔
شہید نمر جنہیں مختلف مواقع پر قید و بند کی صعوبتوں میں مبتلا کیا گیا بقیع کی آبادی کا مطالبہ کرنے والے شہید نمر نے لاکھ بندشوں کے باوجود اپنے پائے ثبات میں لغزش پیدا نہیں ہونے دی بلکہ استقامت کا مظاہرہ کیا۔اور یہی مجاہد فی سبیل اللہ کی صفت بھی ہے۔
ناظم جلسہ نے اس کے بعد حوزہ علمیہ قم کے ممتاز عالم دین مولانا عقیل عباس معروفی کو دعوت سخن دی۔مولانا معروفی نے اپنے منفرد لب و لہجہ میں حیات کے چار اقسام بیان کئے اور مفصل طور پر حیات طیبہ پر روشنی ڈالی۔ساتھ ہی شاعر انقلاب جناب جوش ملیح آبادی کے اشعار پیش کئے جس سے حضرت قاسم ہال کی فضا نعروں سے گونج اٹھی۔
اس کے بعد کی تقریر مدرسہ جامعۃ الثقلین کے پرنسپل مولانا اختر عباس جون کی تھی۔مولانا موصوف نے سورہ نساء کی آیہ کریمہ فَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ عَلَى الْقَاعِدِينَ دَرَجَةً پر نہایت خوش اسلوبی سے گفتگو کی۔مولانا نے قائدین اور قاعدین کا فرق واضح کیا ساتھ ہی اضافہ کیا کہ سوچنا ہوگا یہ شہداء شہادت کو کیسے حاصل کر سکے۔یقینا یہ مجاہد کبیر امام خمینی کی دور اندیشی کا نتیجہ تھا۔جب ہمارے سماج میں شہادت کا شوق پیدا ہو جائے گا تو ہمیں وہ نظام بھی مل جائے گا جس میں ہر سو عدل و عدالت کا راج ہوگا۔
مولانا جون نے بیان کیا کہ خدا وند عالم نے جب دیکھا کہ اس کے بندے امامت کے قدردان نہیں تو اپنی آخری حجت کو پس پردہ غیبت بھیج دیا جب تک ہمارے اندر شوق شہادت نہیں پیدا ہوگا امام کا ظہور ممکن نہ ہو سکے گا۔ظہور کے لئے ہمیں محنت کرنی ہوگی کوشش درکار ہے۔
البلاغ یوٹیوب چینل پر موجود فلائٹ 120 اور آخری بہتر گھنٹے جیسی ڈاکومنٹری دیکھنے کا ترغیب دلاتے ہوئے مولانا موصوف نے تاکید کی اسے خود بھی دیکھیں اور دوسروں تک بھی منتقل کریں۔
اس کے بعد کی تقریر ہدی مشن کے صدر مولانا سید منظر صادق زیدی کی تھی۔مولانا موصوف نے رسول اکرم کے فرمان کو سرنامہ سخن قرار دیا جس میں آنحضرت نے بیان فرمایا کہ ہر نیکی سے بالاتر کوئی نہ کوئی نیکی یہاں تک کہ انسان راہ خدا میں شہید کر دیا جائے کہ اب سے بالاتر کوئی نیکی متصور نہیں۔آج دنیا بھر میں بہت سے الفاظ نے اپنی آبرو کھو دی ہے جیسے صداقت،امانتداری،رفاقت،آزادی وغیرہ۔لیکن ہر ملک میں شہادت آج بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا جانے والا لفظ ہے۔شہید اور شہادت کو ہر جگہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ شہید جان نہیں دیتا بلکہ شہادت کے سبب وہ ابدی حیات حاصل کر لیتا ہے۔
زیارت کے فقرات سے استناد کرتے ہوئے مولانا نے بیان کیا کہ شہید اپنی شہادت سے دوسروں کو بھی حیات عطا کر جاتا ہے۔
آخری تقریر ملک ہندوستان کے مشہور عالم دین اہلبیت ٹرسٹ دہلی کے صدر جناب مولانا سید قاضی عسکری صاحب کی تھی۔جنہوں نے قرآنی آیہ کریمہ راہ خدا میں شہید ہو جانے والوں کو مردہ گمان نہ کرنا بلکہ وہ زندہ ہیں کے تناظر میں نہایت مفید گفتگو پیش کی۔
مولانا عسکری نے بیان کیا کہ اسلام نے شہادت کو اہمیت دی ہے البتہ یاد رہے کہ شہادت کے لئے قتل ہونا ضروری نہیں ہے۔مثال کے طور پر نبی اکرم کا فرمان ہے جو شخص طلب علم کی راہ میں نکلے اور دار فانی کو وداع کہے وہ شہید راہ خدا ہے۔یا پھر مشہور حدیث کہ اہلبیت کی محبت میں مر جانے والا شہید راہ خدا کا درجہ رکھتا ہے۔
اسی طرح خدا کے محبوب دو قطروں کا تذکرہ کرتے ہوئے مہمان عالم دین نے بیان کیا کہ اللہ کو شہید کا قطرہ خون محبوب ہے اور اسی طرح بندہ پروردگار کا شب کی تاریکی میں یاد خدا میں ٹپکنے والا آنسو عزیز ہے۔شہداء کربلا کیوں شہداء بدر و احد و جمل وصفین سے افضل ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ کربلا میں امام حسین نے چراغ گل کر دیا تھا اس کے باوجود کوئی پیچھے نہ ہٹا۔علم و آگہی،اختیار و آزادی اور فی سبیل اللہ جیسے شرائط کے ساتھ جام شہادت نوش کرنے والے شہداء یقینا قابل قدر ہیں۔مولانا موصوف نے اضافہ کیا کہ مقررین کی تقاریر سے آپ کے جذبات بیدار ہوں۔آج لوگ دنیاوی مفادات کے سبب حقیقت سے دور ہوتے جا رہے ہیں جو قابل افسوس ہے۔
آخر میں ممتاز محقق اور صاحب زبان و قلم جناب مولانا سید مشاہد عالم رضوی ہلوری کے دعائیہ فقرات پر جلسہ اپنے اختتام کو پہنچا۔
قابل ذکر ہے کہ اس روحانی اجتماع میں بڑی تعداد میں مرد وزن پیر و جواں شریک ہوئے۔اور خیمہ شہادت کے عنوان سے ایک نمائش بھی لگائی گئی جس کا خوب استقبال ہوا۔سحر عالمی نیٹ ورک،گوہر ایجنسی اور گراف ایجنسی کے علاوہ دیگر ذرائع ابلاغ نے اسے براہ راست نشر کیا۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .