حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق حضرت آیت الله سبحانی نے مدرسہ حجتیہ قم المقدسہ میں ماہ مبارک رمضان میں جاری اپنے درس تفسیر میں ایک سوال اور شبھہ کا جواب دیتے ہوئے کہا: بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ وہ مسلمان جو ہمیشہ نماز و روزہ کی حالت میں ہیں اور ہمیشہ اطاعت خدا میں وقت بسر کرتے ہیں کیوں یہ لوگ تو دنیاوی بعض نعمتوں سے محروم ہیں لیکن خداوند متعال یہی نعمتیں منافقوں، مشرکوں اور بے ایمان افراد کو عطا کرتا ہے !؟
انہوں نے کہا: اس سوال کا سورۂ توبہ میں جواب دیا گیا ہےکہ جسے مدنظر رکھتے ہوئے لوگوں اور جوانوں کے ان اکثر سوالوں کا جواب دیا جا سکتا ہے جو ان کے ذہن میں آتا ہے۔
اس مرجع تقلید کا کہنا تھا کہ اوائل اسلام میں مشرکان اور منافقان کے پاس بہت زیادہ اموال و اولاد ہوا کرتی تھی اسی وجہ سے مسلمان یہ سوال کیا کرتے تھے کہا کیوں یہ نعمتیں ان مشرکوں اور منافقوں کو عطا ہوئی ہیں لیکن اکثر مسلمان ان نعمتوں سے محروم ہیں؟
انہوں نے کہا: خداوند اس آیہ «فَلَا تُعْجِبْكَ أَمْوَالُهُمْ وَلَا أَوْلَادُهُمْ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ بِهَا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَتَزْهَقَ أَنْفُسُهُمْ وَهُمْ كَافِرُونَ» (تمہیں ان کے اموال اور اولاد حیرت میں نہ ڈال دیں بس اللہ کاارادہ یہی ہے کہ ان ہی کے ذریعہ ان پر زندگانی دنیا میں عذاب کرے اور حالت کفر ہی میں ان کی جان نکل جائے) میں اس طرف اشارہ کر رہا ہے کہ یہ گمان نہیں کرنا چاہئے کہ یہ جو بھی اموال و اولاد منافقوں کو ملا ہے یہ ان کی اچھائی کے سبب سے ہے اور یہ کہ شاید وہ ان نعمتوں کا قابل سمجھے گئے ہیں !!
اس مرجع تقلید نے کہا: وہ چیز کہ جس کی طرف قرآن کریم اشارہ کر رہا ہے یہ ہے کہ یہی مال و فرزند ان کے لئے عذاب ِ الہی کے طور پر ہیں لیکن اس عذاب کی خصوصیات کے بارے میں مختلف اقوال اور احتمال پائے جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا: اگر بالخصوص اموال کی زیادتی کو دیکھا جائے تو منافقوں کے عذاب میں سے ایک یہ تھا کہ یہی اموال کی زیادتی اور کثرت ان کی پریشانیوں کا باعث تھی اور اسی طرح ان کی کثرت اولاد میں بھی عذاب کا عنصر موجود تھا وہ یہ کہ وہ ہمیشہ اسی پریشانی میں مبتلا رہتے کہ کہیں آنے والے وقت میں ان کے بچے مسلمان ہی نہ ہو جائیں۔
حضرت آیت الله سبحانی نے ایک اور احتمال کو بیان کرتے ہوئے کہا: منافقین کی ایک اور بڑی مالی پریشانی یہ بھی رہتی تھی کہ کہیں ان کے مرنے کے بعد ان کا مال ’’الہی نظام‘‘ میں ہی نہ چلا جائے یعنی کہیں اسلام کے اختیار میں ہی نہ چلا جائے۔
اس مرجع تقلید نے کہا: ایک اور احتمال یہ بھی دیا جا سکتا ہے کہ عذاب صرف آگ کے ساتھ ہی نہیں دیا جاتا بلکہ خسارہ بھی سخت عذاب کی ہی ایک قسم ہے یعنی وہ شخص جو اموال اور اولاد کو جمع کرتا ہے اگر آنے والے وقت میں انہیں ہاتھ سے دے بیٹھے تو یقینا وہ اس شخص کے لئے ایک سخت عذاب ہی ہو گا۔
انہوں نے آیۂ مبارکہ «وَيَحْلِفُونَ بِاللَّهِ إِنَّهُمْ لَمِنْكُمْ وَمَا هُمْ مِنْكُمْ وَلَكِنَّهُمْ قَوْمٌ يَفْرَقُونَ»(اور یہ اللہ کی قسم کھاتے ہیں کہ یہ تم ہی میں سے ہیں حالانکہ یہ تم میں سے نہیں ہیں یہ لوگ بزدل لوگ ہیں) کی تفسیر بیان کرتے ہوئے کہا: اس آیت کا ایک عظیم اور اخلاقی سبق آموز پہلو یہ ہے کہ ان افراد پر جو بہت زیادہ قسمیں کھاتے ہیں شک کرنا چاہئے ۔ ان آیات میں خداوند متعال فرما رہا ہے کہ مشرکان اور منافقان بہت زیادہ قسمیں کھاتے ہیں لیکن یقینی طور پر تم میں سے نہیں ہیں اور ان کے قسم کھانے کا سبب بھی ان کے دلوں وہ خوف ہے جو مسلمانوں سے ہے۔
حضرت آیت اللہ سبحانی نے آیہ مبارکہ «لَوْ يَجِدُونَ مَلْجَأً أَوْ مَغَارَاتٍ أَوْ مُدَّخَلًا لَوَلَّوْا إِلَيْهِ وَهُمْ يَجْمَحُونَ» (ان کو کوئی پناہ گاہ یا غار یا گھس بیٹھنے کی جگہ مل جائے تو اس کی طرف بے تحاشہ بھاگ جائیں گے)کی تفسیر بیان کرتے ہوئے کہا: اس آیۂ مبارکہ میں آیا ہے کہ جب ان لوگوں کو کوئی سی بھی پناہگاہ مل جاتی ہے تو وہ تمہارے ہاتھوں سے فرار کر جاتے ہیں اور آپس میں اکٹھے ہو جاتے ہیں۔