۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 20, 2024
کفاره روزه

حوزہ / 60 فقراء کو کھانے دینے کے متعلق چند نکات ہیں۔ اول یہ کہ ساٹھ فقیر کو جدا جدا کھانا دیا جائے نہ یہ کہ سا ٹھ کھانوں کا سامان ایک فقیر کو دے دیا جائے البتہ چھ افراد کی دس فیملیز کو کھانا دیا جاسکتا ہے کہ اس طرح ان کی کل تعداد 60 ہو جاتی ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہوچکا ہے کہ کفارہ دو طرح کا ہے۔ ایک کم قیمت کا کفارہ ہے جسے "فدیہ" کہتے ہیں۔ مشہور فقہاء کے فتویٰ کے مطابق اس کا وزن 750 گرام اور بعض دیگر فقہاء کے نزدیک اس کا وزن تقریبا ایک کلو گرام بنتا ہے۔ جبکہ دوسرا کفارہ، کفارہ عمد اور زیادہ قیمت والا کفارہ ہے۔ یہ کفارہ تب ہوتا ہے جب انسان جان بوجھ کر روزہ نہ رکھے یا رکھے اور جان بوجھ کر بغیر کسی عذر کے توڑ دے۔ تو یہاں پر انسان اس روزے کی قضا بھی کرے گا اور بعنوان جرمانہ ساٹھ روزے بھی رکھے گا اور اگر روزے نہ رکھ سکے تو ساٹھ فقیروں کو کھانا کھلائے گا۔

اب ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے میں بھی چند نکات ہیں۔

پہلا نکتہ یہ ہے کہ ساٹھ فقیروں کو جدا جدا کھانا کھلائے۔ نہ یہ کہ سا ٹھ کھانوں کا سامان ایک فقیر کو دے دیا جائے البتہ چھ افراد کی دس فیملیز کو کھانا دیا جاسکتا ہے کہ اس طرح ان کی کل تعداد 60 ہو جاتی ہے۔

ساٹھ فقیروں کو دو طرح سے کھانا دیا جا سکتا ہے۔ انہیں پکا ہوا کھانا بھی دیا جاسکتا ہے اور کھانے کا سامان بھی دیا جاسکتا ہے لیکن کم قیمت کفارے یعنی فدیہ میں 750 گرام یا 900 گرام کھانے کا خام مواد ہی دینا ہے۔ چونکہ یہاں پر معیار وزن ہے۔

پکے ہوئے کھانے میں عام طور پر 100 گرام پکے ہوئے چاول کے ساتھ سالن دیتے ہیں اور یہ ایک شخص کا کھانا شمار ہوتا ہے۔ ضروری ہے کہ اس کھانے سے ایک شخص سیر ہو جائے اور اگر 750 گرام نہ بھی ہو تو کوئی بات نہیں۔

اگر کوئی شخص کفارہ دینا چاہتا ہے تو وہ یا تو ساٹھ فقیروں کو پکا ہوا کھانا دے گا یا پھر وہ کھانے کا مواد بھی دے سکتا ہے۔ مثلا آٹا گندم وغیرہ۔۔۔۔ اس صورت میں وزن معیار ہے اور 750 گرام یا بعض مراجع کے فتوی کے متعلق 900 گرام ہونا ہے۔

بعض افراد سوال کرتے ہیں کہ ایک روزہ عمداً نہ رکھنے یا توڑنے کے کفارے کی قیمت کتنی ہے؟  تو اس کی قیمت ایک لاکھ اسی ہزار تومان بنتی ہے۔ حالانکہ اسے فقراء میں تقسیم کرنا ایک مشکل کام ہے لیکن مراجع عظام کے دفاتر عام طور پر یہ ذمہ داری قبول کر لیتے ہیں اور اسے انجام دیتے ہیں۔ پس اس کی ادائیگی کے لیے مراجع تقلید کے دفاتر کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے۔

والسلام علیکم و رحمۃ الله و برکاته

تبصرہ ارسال

You are replying to: .