حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے ماہ مبارک رمضان 1442 ھ کے آغاز پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ قمری سال کا نواں مہینہ جس میں طلوع صبح صادق سے غروب آفتاب تک چند امور سے قربت خداوندی کی نیت پرہیز کیا جاتا ہے اور روزے جیسی اہم ترین عبادت انجام دی جاتی ہے یہ فقط دین اسلام میں ہی واجب نہیں بلکہ تمام ادیان و مذاہب اس کی افادیت کے قائل ہیں اور ان میں کسی نہ کسی شکل میں روزہ رکھا جاتا ہے ‘ قرآن مجید میں روزے کے وجوب اور شرعی احکامات کو صراحت سے بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ ”اے ایمان والو تم پر روزے فرض کئے گئے جیسا کہ تم سے پہلے والوں پر تاکہ تم تقوی اختیار کرو“ اور اسی طرح کہ ”گنتی کے چند دن ہیں لیکن تم میں سے جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ اور دنوں میں گنتی پوری کرلے اور اس کی طاقت رکھنے والے فدیہ میں ایک مسکین کو کھانا کھلائیں پھر جو شخص نیکی میں سبقت حاصل کرے وہ اس کے لئے بہترین ہے ‘ تمہارے حق میں بہترین کام روزے رکھنا ہی ہے اگر تم یہ جان سکو کہ قرآن کریم میں اس ماہ مبارک کی فضلیت اور خصوصیت بیان کرتے ہوئے ارشاد خداوندی ہے کہ ”ماہ مبارک رمضان وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لئے ہدایت ہے “ پیغمبر اکرم کا ارشاد گرامی ہے کہ انما سمی رمضان لان رمضان یرمض الذنوب ”رمضان کو رمضان اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ گناہوں کو جلا دیتا ہے اسی طرح دختر پیغمبر اکرم حضرت فاطمہ زہرا ؑ نے فرمایا ”فرض اللہ الصیام تثبیتا للاخلاص خداوند تعالی نے روزے کو اس لئے واجب کیا ہے تاکہ لوگوں کے اخلاص کو محکم کرے۔
“انہوں نے کہا کہ دور حاضر میں امت مسلمہ کو جس سنگین صورت حال کا سامنا ہے اس کی اصلاح کا ایک ذریعہ تطہیر نفس ہے۔ اگر ماہ مبارک رمضان میں تطہیر نفس کے عمل کو خلوص اور محنت سے انجام دیا جائے تو آفاق کے در کھل سکتے ہیں اور رحمتوں کا نزول ہوسکتا ہے اور خدا کی مدد کا حصول یقینی ہوسکتا ہے۔ تطہیر نفس اور تزکیہ کے ذریعے جہاں ہم بیرونی مسائل کا مقابلہ آسانی سے کرسکتے ہیں وہاں اندرونی اختلافات‘ فروعی مسائل اور فرقہ وارانہ حالات بھی درست ہوسکتے ہیں اور ان مشکلات پر تطہیر نفس کے ذریعے قابو پایا جاسکتا ہے کیونکہ اگر رمضان المبارک کے دوران روحانی برکتوں سے استفادہ کیا جائے اور خدا کے ساتھ خلوص کے ساتھ لو لگائی جائے تو اعتدال پسندی‘ سنجیدگی اور متانت کے زیور ہمیں حاصل ہوسکتے ہیں جس سے اختلافات کی حدت او ر شدت میں کمی آسکتی ہے۔
علامہ ساجد نقوی کے مطابق رمضان المبارک کی آمد پر ایک طرف حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عوام کے لئے بنیادی اشیائے ضروریہ کی فوری اور سستی فراہمی کو یقینی بنائے‘ بدامنی‘ دہشت گردی پر قابو پاکر عوام کو امن و تحفظ فراہم کرے‘ احترام ماہ صیام کو ہر حوالے سے یقینی بنائے‘ سحر و افطار کے اوقات میں لوڈشیڈنگ پر قابو پائے جبکہ دوسری جانب امت مسلمہ کے لئے لازم ہے کہ وہ ماہ مبارک کی برکتوں کو سمیٹنے کی ہر ممکن کوشش کرے اور تزکیہ نفس کی خاطر عبادت و ریاضت کے مراحل پورے خلوص نیت اور تندہی سے انجام دے کیونکہ امت مسلمہ کے اندر بدامنی‘ ظلم و جور اور ناانصافی کا خاتمہ بھی تطہیر نفس سے ہی ممکن ہے۔ پوری امت مسلمہ اس ماہ مبارک میں روزے کا فریضہ انجام دیتی ہے۔ خدا کے سامنے سربسجود ہوتی ہے جس سے امت کے اندر ظلم سے دوری اور انصاف پر عمل کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے حالانکہ امت کی اکثریت روزہ رکھتی ہے اگر یہ اکثریت روزے کے تمام تقاضے پورے کرے‘ روزے کے فیوض و برکات سے استفادہ کرے تو وہ اس اقلیت پر چھا سکتی ہے اور انہیں کنٹرول کرسکتی ہے جو معاشرے اور دین میں خرابیاں پیدا کرنے اور تفرقہ پھیلانے میں مصروف عمل ہے۔قائد ملت جعفریہ پاکستان نے یہ بات زور دے کر کہی کہ امت مسلمہ پر لازم ہے کہ وہ ماہ مبارک کے دوران خدا تعالی کی لاریب کتاب قرآن کریم کے مطالعے کو بالخصوص اپنی عادت بنائیں اور اس کے معانی و مفاہیم پر خصوصی توجہ دے اور اس میں موجود اسرار و رموز کا باریک بینی سے جائزہ لے اور انہیں اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی پر نافذ کرے تاکہ انسانیت فلاح و ہدایت کے راستے پر گامزن ہوکر اخروی کامیابی سے ہمکنار ہوسکے۔