۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
مرضیہ ہاشمی

حوزہ/ ایران کے انگلش چینل پریس ٹی وی کی معروف اینکر پرسن مرضیہ ہاشمی نے کہا کہ ایرانی خواتین کو ایرانی اور شیعہ ہونے پریعنی اپنی قومی و مذہبی شناخت پر فخر کرنا چاہئے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،حضرت امام رضا(ع) عالمی کانگریس کی سلسلہ وار ابتدائی نشست میں جوکہ ’’عدل و انصاف،معاشرتی و سماجی صحت اورخواتین کی معاشرتی حیثیت‘‘کے موضوع پر منعقد ہوئی اسلامی جمہوریہ ایران کے انگریزی زبان کے سرکاری ٹی وی چینل پریس ٹی وی کی اینکرپرسن،نیوزرپورٹر،ڈاکومنٹری پروڈیوسر اورنیوز ریڈر امریکی نژاد ایرانی صحافی محترمہ مرضیہ ہاشمی نے جن س کا اصلی نام’’ملانی ایوٹ فرانکلین‘‘ ہے ؛ کہا کہ 1968 میں امریکہ کی سیاہ فام کمیونٹی کے درمیان ایک بڑی تحریک چلی اور عورت و مرد کے اقتدار کے موضوع پر جنگ ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ اقتدار کی اس جنگ میں جس کا سلوگن سیاہ فام عورتوں کو سیاہ فام مردوں سے الگ کرنا تھا ، دولت و قدرت رکھنے والوں نے اپنی توجہ عورتوں پر مرکوز کی،جس کا بنیادی نتیجہ سیاہ فام خاندان کی تباہی کی صورت میں سامنے آیا اوراس کی وجہ سے اب امریکہ میں فقط 33 فیصد سیاہ فام بچے اپنے والدین کے ساتھ گھروں میں ایک خاندان کی صورت میں رہتے ہیں۔

سستے مزدور فراہم کرنے کے لئے اقتدار پر مسلط افراد کا حربہ

محترمہ ہ مرضیہ اشمی نے کہا کہ اگرچہ اقتدار کی اس جنگ میں سیاہ فاموں کو زیادہ نقصان اٹھانا پڑا لیکن سفید فاموں کا بھی نقصان ہوااوران کے درمیان بھی خاندان کا تصور پہلے سے کم ہوگیا،لیکن ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ کیوں ایک معاشرہ خود کو تباہ کرنا چاہتا ہے، ان تمام اقدامات سےمعاشرے کے فقط ایک فیصد طبقہ کویعنی بڑی بڑی کمپنیوں کے مالکان اور سرمایہ داروں کو فائدہ پہنچا ۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ میں بڑی بڑی کمپنیوں کے مالکان نے سستے مزدور فراہم کرنے کے لئے خواتین سے ماں اور بیوی کے کردار کو کم کردیاتاکہ ان کے پاس ان کمپنیوں میں کام کرنے کا ٹائم ہو، جب خواتین نے کام کرنا شروع کیا تو انہوں نے اپنے چھوٹے بچوں کو چائلڈ کیئر سینٹرز میں چھوڑ دیا اور شوہروں کے حقوق بھی ادا کرنا بند کر دیئے۔

محترمہ ہاشمی نے مزید کہا کہ چونکہ خواتین کو پوری دنیا میں مردوں کے مقابلے کم اجرت دی جاتی ہے اس لئے خواتین سستی اور بہترین مزدور ہیں،انہیں گھر سے باہرنکالنےکا واحد راستہ خاندان کی بنیاد کمزور کر کے اور مردوں اور عورتوں کے درمیان جنگ اور تناؤ پیدا کرنے سے ہی ممکن تھا۔

خاندان کا شیرازہ بکھرنا؛ صاحبان دولت و ثروت کے مفاد میں تھا

انہوں نے مزید کہا کہ مرد اور عورت کی علیحدگی سرمایہ داروں کے مفاد میں تھی کیونکہ مرد اور عورت میں سے کسی ایک کو دوسرے گھر میں جانا پڑتا جس کی وجہ سے پیسہ بھی زیادہ خرچ کرنا پڑتا اور یہ چیز ایسے معاشرے میں اچھی سمجھی جاتی تھی جس کا بنیادی مقصد فقط پیسہ تھا۔

محترمہ ہاشمی نے کہا کہ جب امریکی حکومت کی پالیسی اپنے ہی ملک کے لوگوں کے ساتھ اس قدر ظالمانہ ہے تو وہ دوسرے ممالک کے ساتھ کیسے ہمدرد بن سکتی ہے اور اپنے مفادات کو چھوڑ کر دوسرے ممالک کی کیونکر مدد کرسکتی ہے؟

حالیہ مظاہروں میں دشمن نے کوئی کسر نہیں چھوڑی

انہوں نے امریکی پالیسیوں کے خلاف ایرانی قوم کی 44 سالہ استقامت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان چار دہائیوں میں ہم نے ایرانی معاشرے اور ایرانی خواتین کے خلاف مختلف تحریکیں دیکھیں لیکن حالیہ مظاہروں میں امریکیوں اور ان کے حواریوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی، انہوں نے مختلف حربوں سے خواتین پر توجہ مرکوز کی لیکن اس بار بھی کامیاب نہ ہو سکے۔

محترمہ ہاشمی کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے ایرانی معاشرے میں کچھ خواتین کا یہ خیال ہے کہ دوسرے ممالک کی خواتین ان سے بہت بہتر ہیں حالانکہ ایسا بالکل نہیں ہے بلکہ ایک ایرانی لڑکی کو فخر کرنا چاہئے کہ اس نے اس ملک میں پرورش پائی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ اگرچہ اس طرز فکر کو پیدا کرنے میں دشمن کا پروپیگنڈا کسی حد تک کارگر ثابت ہوا ہے لیکن اہم نکتہ یہ ہے کہ اس طرح کا طرز فکر درحقیقت فعال ثقافتی افراد کی کوتاہی اور غفلت کا نتیجہ ہے ۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ حضرت امام رضا(ع) عالمی کانگریس کی سلسلہ وار ابتدائی نشست ’’عدل و انصاف،سماجی صحت اورخواتین کی سماجی حیثیت‘‘ میں یونیورسٹی اور مدارس کی ممتاز شخصیات نے شرکت کی ،یہ نشست آستان قدس رضوی کے سیمینار ہال میں منعقد کی گئی۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .