تحریر: مولانا ارشد حسین آرمو
حوزہ نیوز ایجنسی ایام فاطمیہ میں وادی کشمیر کے متعدد مقامات پرخطاب کرتے ہوئے مولانا ارشد صاحب نے اس بات پر زور دیا ہے کہ دور حاضر میں فاطمی کردار پر عمل کرنا ہی ملت اسلامیہ کی نجات کا باعث ہے،دین اسلام نےخواتین کو بہت بلند مقام پر فائز کیا ہے، اور کچھ ایسے نایاب قوانین ان کے لئے قرار دیے ہیں جو اس نازک پھول(إِنَّ المَرأَةَ رَيحانَةٌ) کی حفاظت کے لئے ضروری ہیں،ہر ایک دانا و عاقل شخص اپنی نازک و قیمتی اشیاء کو ایسی جگہ پر رکھتا ہے تاکہ کوئی اسے چرا نہ سکے لیکن افسوس اس بات کا ہے دین اسلام کے وضع کرده قوانین کو بالائے طاق رکھ دیا گیا اور اس گوھر کو دنیا کےوضع شده قوانین کی بنیاد پر آزادانہ طریقہ پر چھوٹ دی گی ہے. کہ جو جس طرح چاہے استفادہ کرے، دور حاضر میں جب کچھ عورتیں خاص آرایش (میک اپ) کے ساتھ بازار میں جلوہ گر ہوتی ہیں تو یہ عورتیں باحجاب خواتین کا حق غصب کرلیتی ہیں، کیونکہ جب آرایش شده عورت اپنے آپ کو بازار کی زینت بنادیتی ہے تو نہ چاہتے ہوئے بھی مرد اپنی بیوی سے اس کا مقایسہ کرنے لگتا ہے، اور یہی بات آہستہ آہستہ معاشرے میں فساد کا باعث بن جاتی ہے۔جبکہ شرعیت نے حجاب کو خواتین كی زينت اور ان کے لئے واجب قرار دیا ہے، اس لئے اسلام ميں ہر مسلمان عورت پر نامحرم سے پرده كرنا واجب ہے، لیکن پرده واجب ہونے كے باوجود اکثر مسلمان خواتين بے پرده نظر آتی ہیں جس کی بنیادی وجہ بے شعوری اور لاعلمی ہےافسوس اس بات کا ہے کہ آج کے جدید معاشرے کی خواتین، پردے کو ترقی اور حسن کی راہ میں روکاوٹ سمجھتی ہیں، جبکہ بےحجابی سے حسن پر زوال آتا ہے نہ نکھار، بےحجابی سے عورت کی زينت اور وقار ختم ہو جاتا ہے۔
دشمن اسلام دور حاضر میں اس بات کو سمجھ چکا ہے کہ اسلام میں ماں ایک بنیادی اور مؤثر درسگاه ہے اسی لئے مسلمان نوجوان ،جوان خواہران کو آلہء کار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں، اور افسوس اس بات کا ہے کہ آج كل كی عورتيں بھیmodernismکے شوق میں اپنے آپ کو دشمن کے سپرد کردیتی ہیں، اور اسلام سے وابستہ ہونے کا پرچار کرتے ہوئےمغربی ممالک کی پیروی کرتی ہوئی نظر آتی ہيں اور ان کی زبان پر یہ جملہ رہتا ہے کہ ہم پيرو حضرت زہرا علیہا السلام ہیں، ان کا اس بات کا دعوا کرنا کہ حضرت فاطمہ علیہا السلام كی پيروکار ہیں تو اس بات کے لئے ضروری ہے کہ ان كی سيرت پر عمل کیا جائے۔ حضرت زہرا علیہا السلام نے پردے میں رہ کر تدریس بھی کی، تبلیغ بھی کی، اور اپنے حق کے لئے خلیفہ وقت کے دربار میں آواز بھی بلند کی.ایک با شعور خاتون وه ہوتی ہے جو اسلامی قوانين كی حمایت و رعايت كرتے ہوئے فاطمی کردار ميں رہ كر معاشرے میں اپنا رول ادا كرے۔
تاریخ اسلام کی کتابوں کا مطالعہ سے خواتین کے حیرت انگیز واقعات ملتے ہیں اور تاریخ گواہی دیتی ہے کہ عورت ہمیشہ مظلوم تر رہی ہے ۔ اول سے لیکر صدر اسلام تک کسی بھی مذہب نے ان پر رحم نہیں کیا، ان کے حقوق نہیں دئے لیکن رسول الله صلی الله علیہ وآلہ دنیا میں تشریف لائے اور اللہ تعالی کا پسندیدہ دین "دین اسلام " پیش کیا تو اس مذہب حق نے سب سے پہلے قید و بند میں تڑپتی ہوئی عورت کی رہائی اور اس کی آزادی اور حقوق کی خوش خبری سنائی اس کے ساتھ ساتھ دین الہی میں عورت کو مرد کے برابر درجہ دیا یہاں تک کہ بیٹے کے لیے ماں کے قدموں کو تلے جنت کا ذریعہ و سبب بنایا ہے۔
طلوع اسلام کے بعد لوگ خواتین کے بارے میں جو افکار اور عقائد و نظریہ رکھتے تھے اور عملی طور پر بھی خواتین کے ساتھ پیش آتے تھے اسلام نے ان تمام چیزوں کو بے بنیاد بیکار و باطل قراردیا اور عورت کے حق میں ایک انقلاب برپا کیا اس بنا پر دین اسلام مرد سے مرد کا تقابل عورت سے عورت کا تقابل اور مرد سے عورت کا تقابل و تفاضل کو ختم کیا سب کو لاکے ایک ہی صف میں کھڑا کیا اور ایک روشن باب کو بازکر کے اعلان کیا اگر کسی کو کسی پر برتری و فضیلت ہے تو ایک ہی معیار کے بنا پر ہے اور وہ معیار وملاک تقوی الہی ہے جس کے متعلق پروردگار عالم نے ارشاد فرمایا۔( إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِنْدَ لله أَتْقَاکُمْ۔) ترجمہ : اللہ کے نزدیک تم سب میں با عزت وہ ہے جو سب سے زیادہ صاحب تقوی ہے۔
دور حاضر میں اگر خواتین کے حقوق کی پامالی ہو رہی ہے تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ خواتین کردار فاطمی اور علم فاطمی سے ناواقف ہیں۔ خواتین چاہے وہ ماں ہو یا بہن، بیٹی ہو یا بیوی، تمام خواتین کے حقوق شہزادی کائنات حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی سیرت میں پوشیدہ ہیں۔ آج معاشرے میں بی بی کے علم اور کردار کو روشناس کرانا دور حاضر کی اشد ضرورت ہے تاکہ حق و باطل ظالم و مظلوم کہ پہچان ہو سکے۔