حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مولانا تقی عباس رضوی کلکتوی، نائب صدر اہل بیت علیہم السلام فاؤنڈیشن نے: اسلاموفوبیا کے اس پر آشوب دور میں مسلمانان عالم خاص کر ہندوپاک کے مسلمان ،اسلام کےآفاقی تعلیمات کے فروغ میں حکمت کی تلوار استعمال کریں۔
انہوں نے کہا کہ ہم اس تلوارکی بات ہرگز نہیں کرتے جو جسم کو لہو لہان کرتی ہے ،جو بے گناہوں کے خون سے اپنی پیاس بجھانے کی عادی ہے اسےنہ کل ہم نے اسلام کےفروغ میں استعمال کیا اور نہ آج ہی اس کی ضرورت در پیش ہے ۔تاریخ گواہ ہے کہ اسکے ذریعے سے جس نے بھی اپنا نظریہ پھیلانے کی کوشش کی ہے اس کی یہ کوشش بے سود و بے ثمر ہی رہی اوررہے گی۔
ایک قانون مکافات عمل ہے ظالم آج جو کرتا ہے تو سامنے کل آئے گا
بی بی سی ہندی کی ایک رپورٹ کے مطابق مشہور امریکی ماہر لسانیات و سماجیات پروفیسر نوم چومسکی نے ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف بگڑتی ہوئی صورتحال‘ پراپنی فکرمندی کا اظہار خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں : ’جنوبی ایشیا کی صورتحال خاصی افسوسناک ہے۔ہندوستان میں اسلامو فوبیا انتہائی مہلک اور خطرناک شکل اختیار کر چکا ہے۔۔ پاکستان میں بھی۔ نہ صرف اس لئے کہ کیا ہو رہاہے بلکہ اس لئے بھی کیا نہیں ہو رہاہے۔ اس خوفناک تباہی سے بچنے کے لیے کچھ ممکنہ اقدامات کیے جا سکتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہو رہا۔
ہندوستان کے معروف عالم دین ،اہل بیت ؑ فاؤنڈیشن کے نائب صدر مولانا تقی عباس رضوی کلکتوی نےنوم چومسکی کے اس اظہار خیال پرکہاکہ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ آج ہر طرف ! اسلام مخالف عالمی طاقتیں اسلام سے لڑنے، اُس کا پیچھا کرنے، اُس کوگھیرنے اور ہرطرف سے اُس پر راہ بند کردینے کی ہرتدبیر سے کام لے رہی ہیں ،اور مسلمانان عالم کوہرذریعے آزما رہیں ، ہرطریقہٴ پیکار کو استعمال کررہی ہیں اور ایک کے بعد دوسرا محاذ کھول کر فرزندانِ اِسلام کو ہرمحاذ پر مشغول کرکے اُن کی طاقت کو منتشر کردینے اور فیصلہ کن اور آخری مزاحمت سے انھیں باز رکھنے کی کوشش کی کررہی ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فرزندانِ اسلام غافل اور محوِ استراحت ہیں اور دشمنانِ اسلام ہمہ وقت محوِ فکر وعمل ہیں۔ایسے مایوس کن دین بیزاری کے اس دور میں اگر ہم ملک و بیرون ملک میں اپنے خلاف نفرت و تشدد جیسی تشویشانک صورت حال میں اسلام کے آفاقی تعلیمات کے پیش نظرخواب غفلت سے بیدا ہوکر اپنی حکمت عملی کی تلوار سے سرگرمِ عمل ہوجائیں تو کل کی طرح آج بھی ہماری حکمت اور ہمارانظریہ ہندوپاک ہی نہیں بلکہ پوری دُنیا میں اپنی قوت سے خود بخود پھیلتا چلا جائے گا۔کیونکہ یہ وعدہ الہی ہے : الإسلام یَعْلُو وَلَا یُعْلیٰ عَلیہ ۔اسلام مغلوب نہیں بلکہ غالب ہو گا، حق و باطل کی معرکہ آرائی میں حق کی ہی جیت ہوگی اورآنے والا کل عالم کفر پرعالم اسلام کے غلبہ اور ابطال باطل کا ہے۔
مولانا تقی عباس رضوی کلکتوی نے کہا کہ فروغِ اسلام کا باعث دراصل حکمت کی تلوار ہے۔ یہ ایسی تلوار ہے جو دل اور دماغ فتح کرلیتی ہےجیساکہ قرآن کہتا ہے ۔ :ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ۔ " لوگوں کو اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور بہترین وعظ کے ساتھ بلائیں اور ان سے بہترین طریقے سے بحث کریں۔" (سورۃ النحل 16 آیت 125)
انہوں نے کہا کہ موجودہ دور میں کفر کی بلاخیز آندھی اور باغیانِ خدا و فرماں بردارانِ شیطان کی کرتب بازیوں و فسوں طرازیوں کا ہمہ گیر جواب خدا کے احکام واوامر کی تعمیل، اس کے منہیات ومحارم سے اجتناب اورمحمد و آل محمدعلیہم السلام کی سنت وسیرت کی اتباع کوزندگی کا وطیرہ اور شعاراپنانے میں ہی نہفتہ ہےاور اپنے تئیں اپنے گھر و خاندان ،شہر و علاقے اور پورے ملک میں بحثیت مسلمان فرزندان توحید کو اس بات کی تاکید کی جائے کہ موجودہ صورت حال میں باطل قوتوں کی شرانگیزی کے مایوسی ،ناامیدی اور سپراندازی نہیں بلکہ عمل ہے اورعمل کی ترغیب ، ہمیں اپنے عمل و برتاؤ سے یہ ثابت کرنا پڑےگا کہ ہم ایک نہایت ذمہ دار قوم و ملت اور باکردار مسلمان ہیں۔
نیز مولانا موصوف نے اپنی آخری گفتگو میں کہا کہ :آج ہمارے تمام مصائب و مشکلات اور رنج و الم کی ایک وجہ دین سے دوری اور بے اعتناعی ہے ، کل ہم جب تک اپنے دین سے وابستہ تھے عروج پرتھے اور آج دین سے جتنا دور ہیں اتنا ہی مشکلات سے دوچار ہیں۔
ضبط کرتا ہوں تو ہر زخم لہو دیتا ہے
شکوہ کرتا ہوں تو اندیشۂ رسوائی ہے
اگر ہم اپنے تابناک ماضی کے پیش نظراپنی حکمت عملی اوردشمنان اسلام کو ہزیمت دینے والی جرأت و بہادری ،شہامت و استقامت کہ جو درحقیقت ہمارا سب سے بڑا، پہلا اور کارگر ہتھیار ہے، کو بروئےکار لائیں تو امید ہے کہ اسکے سامنے باطل کے پاسباں نہ پہلے کبھی ٹھہرے ہیں نہ آج ٹھہرسکیں گے۔