۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
مولانا علی حیدر فرشتہ

حوزہ،/ آج ہمارے قومی و مذہبی حالات جن مشکلات سے دوچار ہیں ان کے اسباب و علل اور عوامل و محرکات کا تنقید و تجزیہ کے ذریعہ سنجیدگی و متانت کے ساتھ جائزہ لینے کی شدید ضرورت ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،سرپرست اعلیٰ مجمع علماء و خطباء حیدرآباد دکن حجۃ الاسلام و المسلمین نے اپنے ایک بیان میں کہا:

’’ رکھیو غالب ؔ مجھے اس تلخ نوائی سے معاف آج کچھ درد میرے دل میں سوا ہوتا ہے‘‘ (مرزا غالبؔ)

واضح رہے کہ جب قومیں زوال پذیر ہوتی ہیں تو سب سے پہلے ہوشیار اور طاقتور ترین معاشرے بڑی دانشمندی سے ان کا رشتہ ماضی سے منقطع کر دیتے ہیں۔ آ ج مسلمانوں کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ کچھ تو ہم نے خود اپنی تاریخ و تہذیب کی بے قدری کی اور ماضی کو سامنے رکھ کر جن خطوط کو اختیار کرنا چاہئے تھا وہ ہم نے پس پشت ڈال دیئے۔ ادھر مغربی اور زعفرانی طاقتوں نے مسلم کمیونٹی کو جان بوجھ کر ان کو ماضی سے برگشتہ کیا۔ اور غیر اسلامی امور کی جانب مائل کرنے اور سیدھے راستہ سے ہٹانے کے لئے نت نئے سبز باغ دکھائے۔اور طرح طرح کے ہتھکنڈے بروئے کار لائے۔

جس قوم نے دنیا کی امامت وسیاست کا فریضہ انجام دیا تھا آج وہ دنیا کے ہر ملک میں تقریباً ہر میدان و محاذ پر نہ صرف پسپا ہوئی ہے۔ بلکہ نابود و معدوم سی ہوچکی ہے۔ فکری شعور ، مدبرانہ و قائدانہ استعداد میں بھی ہم بہت گرے ہوئے ہیں۔ جہاں آ ج ہمیں اپنے وجود و حیثیت کو بحال کرنا ہے وہیں ہمیں اپنے کردار ورویہ میں شائستگی پیدا کرنی ہے ۔ اسی کے ساتھ ہمیں اپنے اندر تحقیقی مزاج اور صالح تنقید کا رواج بھی پروان چڑھانا ہوگا وہیں سیاسی فہم وفراست بھی پیدا کرنی ہوگی۔ دنیا میں یوں تو بہت سے مسائل ہیں جن پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ جو اصل کام ہے وہ یہ کہ ہم متحد و یکجا ہوکر سماجی سطح پر ملت میں خوشحالی اور ترقی و بحالی پیدا کرنے کے لئے ہمیں افراد سازی پر خاصی توجہ دینی ہوگی۔ افراد سازی کی تحریک ہمیں مکی عہد سے بھی بخوبی ملتی ہے۔ نبی کریم (ص) نے مکہ کی تیرہ سالہ زندگی میں افراد سازی، اخلاق سازی اور کردار سازی پر خصوصی توجہ دی ہے۔

آج ہندوستان میں جو حالات ہیں اور مسلم کمیونٹی کو سیاسی طور پر حاشیہ پر لاکھڑا کیا ہے۔ اس سے ملک میں ارتداد کا خطرہ بہت منصوبہ بند طریقے سے پھیل رہا ہے۔ لہٰذا ملک کی سیکولر روایات کو مستحکم کرنا اور اس کے لئے جد وجہد کرنا ہماری تہذیب کا حصہ ہے۔ علماء اور عوام و خواص کا ہر اس عمل سے دوری اورکنارہ کشی اختیار کرنا اشد ضروری ہے جس سے شرک خفی و جلی اورکفر و ارتداد کی بو آتی ہو ۔یا جو باطل پرستی کی تائید و حمایت یا اسلام مخالف غیر شرعی امور کی ترغیب و تشویق کا باعث بنتا ہو۔ یا مذہب حقہ کی تضحیک و تذلیل کا سبب بنتا ہو ۔نیز دوسری قوموں کی تشبیہ اختیار کرنے سے بچنا بہت ضروری ہے۔ قرآن مجید میں واضح حکم موجود ہے: ’’ اے ایمان والو!تم نہ ہو (جاوٴ)ان کی طرح جو کافر ہوئے (آل عمران: ۱۵۶)۔اور حدیث میں سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔من شبہ بقوم فھو منہ۔ ”جو شخص ملت اسلامیہ کے علاوہ کسی اور امت کے ساتھ مشابہت اختیار کرے تو وہ ہم میں سے نہیں ‘‘۔

آج ہمارے قومی و مذہبی حالات جن مشکلات سے دوچار ہیں ان کے اسباب و علل اور عوامل و محرکات کا تنقید و تجزیہ کے ذریعہ سنجیدگی و متانت کے ساتھ جائزہ لینے کی شدید ضرورت ہے۔پوری قوم کے سامنے بڑا سوالیہ نشان ہے اور سخت لمحہ فکریہ ہے۔کیا موجودہ حالات کے پیش نظر قومی پیمانہ پر کانفرنس،سیمینار اور اجتماع میں مسئلہ ارتداد اور دیگر درپیش خطرات پر بحث و مباحثہ اور غور و فکر کی ضرورت نہیں ہے ؟اور عوام و مومنین کو صحیح صورت حال سے آگاہ کرنا لازمی نہیںہے؟اب وقت ہے تنقیدو تجزیہ اور امت مسلمہ کے لئے لمحہ فکریہ و احتساب اعمال کا ؎
’’ انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں مری بات‘‘ (علامہ اقبالؒ)

تبصرہ ارسال

You are replying to: .