۱۳ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۳ شوال ۱۴۴۵ | May 2, 2024
ندیم سرسوی

حوزہ|کوئی تو آشنائے لذت بکاء ہو شہر میں !کسی کی آنکھ تو مقابلہ کرے فرات سے انہیں سحر نوردیوں نے اتنا کر دیا بلند وہ خاکسار چھو رہے ہیں آسماں کو ہاتھ سے

حوزہ نیوز ایجنسی|

ھو الباقی

بڑا ہے اپنے آپ میں وہی تو کائنات سے/وہ رند جو نہا لیا شرابِ نفیِ ذات سے

بڑا ہے اپنے آپ میں وہی تو کائنات سے

وہ رند جو نہا لیا شرابِ نفیِ ذات سے

کوئی تو آشنائے لذت بکاء ہو شہر میں !

کسی کی آنکھ تو مقابلہ کرے فرات سے

انہیں سحر نوردیوں نے اتنا کر دیا بلند

وہ خاکسار چھو رہے ہیں آسماں کو ہاتھ سے

یقین کر ! لبوں پہ آ کے ورد 'یا کریم' کا

ہر اک شکن مٹا گیا جبین حادثات سے

سماعتوں میں گھل گئی 'احد احد' کی چاشنی

نگاہ جب لڑی جہان کی جمالیات سے

عروج عبدیت کمال خود سپردگی میں ہے !!

کمال خود سپردگی کو مانگ شش جہات سے

نکل کے ظلمتوں سے سمت نور آئے تب کھلا

ہے کتنا مختلف چمکتا دن سیاہ رات سے

عزیز من ! اسے نہیں ذرا بھی خوف موت کا

پھرا ہوا ہے جس کا دل بھی لذت حیات سے

بجھائے کون آتش دیار چشم و دل ندیم

سپاہ اشک مر چکی ہے ترک واجبات سے

بڑا ہے اپنے آپ میں وہی تو کائنات سے/وہ رند جو نہا لیا شرابِ نفیِ ذات سے

تبصرہ ارسال

You are replying to: .