۷ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۷ شوال ۱۴۴۵ | Apr 26, 2024
قم المقدسہ میں اردو  شعراء کی موجودگی میں جشن صادقین(ع)منعقد+تصاویر

حوزہ/انجمن محبان آل یاسین؛زیر انتظام، طلاب جامعة الامیرالمؤمنین نجفی ہاؤس ایران کی جانب سے حسینیہ امام صادق(ع) قم المقدسہ میں ولادت باسعادت رسول اکرم(ص) اور امام جعفر صادق(ع) بعنوان جشن صادقین(علیہما السلام) اپنے پرشکوہ انداز میں منعقد ہوا جس میں شعرا نے دیئے گئے مصرعہ طرح پر بہترین کلام پیش کیے.

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق انجمن محبان آل یاسین؛زیر انتظام، طلاب جامعة الامیرالمؤمنین نجفی ہاؤس ایران کی جانب سے حسینیہ امام صادق(ع) قم المقدسہ میں ولادت باسعادت رسول اکرم(ص) اور امام جعفر صادق(ع) بعنوان جشن صادقین(علیہما السلام) اپنے پرشکوہ انداز میں منعقد ہوا جس میں شعرا نے دیئے گئے مصرعہ طرح پر بہترین کلام پیش کیے، مھفل کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا اور پھر مختلف شعرائے کرام نے غیر طرحی اشعار پیش کیے، غیر طرحی دور ختم ہونے کے بعد حجت الاسلام منہال حیدر رضوی صاحب نے تقریر فرمائی اسکے بعد طرحی دور کا آغاز ہوا محفل میں دو مصرعہ طرح دیئے گئے تھے ’’نبی کی آل سے سنت کا ’’اہتمام‘‘ ہوا، دین احمد کی حقیقت مکتب ’’جعفر‘‘ میں ہے۔

محفل کے اختتام پر قرعہ کشی کے ذریعہ حاضرین میں سےدو افراد کو مشہد مقدس کی زیارت کے لیے منتخب کیا گیا ساتھ ہی طرحی اشعار پیش کرنے والے شعراء میں سے بھی دو شاعر کا  سفر زیارت کے لیےانتخاب ہوا۔

کچھ اشعار پیش کیے جاتے ہیں:

منکران آل نبی کا رابطہ پتھر سے ہے

خوش نصیبی ہے مری ،نصبت مری حیدر سے ہے

چاند سورج سے ضیاء پاتا ہے کل عالم مگر

چاند سورج کو ضیاء ملتی تری چادر سے ہے

پوچھ لو جو پوچھنا ہے، میں بتاؤنگا تمہیں

معتبر دعوا علیؑ کا دیکھیئے منبر سے ہے

 لعنتیں اس کے تعقب میں لگی ہیں آج تک

دشمنی جس کو ذرا بھی بنت پیغمبر سے ہے

کملی والا کملی والا کہہ رہے ہو تم مگر

یہ بتاؤ کتنی الفت آپ کو دختر سے ہے

[ شاعر:سید منور عباس زیدی ]

فقط اسی کا ہی دونوں جہاں میں نام ہوا

خدا کے واسطے جس کا ہر ایک کام ہوا

بچھایا فرش، سجے آسماں، نبی بھیجے

مرے نبی کےلیے اتنا انتظام ہوا

سلام کے نہ ہو خواہاں نبی کی سنت ہے

نبی کو دیکھیئے چھوٹوں کو بھی سلام ہوا

عوام چاہتی جو چیز ،وہ تو پڑھتے ہیں

حسین چاہتے جو! نشر کیا پیام ہوا

 یہی وجہ ہے مسلماں ! جو گرتی مسجد ہے

قیع بنانے کا تم سے نہ انتظام ہوا۔

[شاعر:شارف رضوی]

ظہورِ نورِ خدائے ذی احتشام ہوا

لو آج ماہ نبوت کا بھی تمام ہوا

اسی جگہ کو تع معراج کہہ رہے ہیں سبھی

جہاں خدا ہے پیمبر سے ہمکلام ہوا

ہرایک شان کا مبدا ہیں بس یہ آل نبی

فضیلتوں کا اسی گھر پہ اختتام ہوا

سقیفہ والوں نے بدعت جہاں میں رائج کی

نبی کی آل سے سنت کا اہتمام ہوا۔

[شاعر:سجاد]

تیغ میں پائی گئی ہے اور نہ تو خنجر میں ہے

وہ غضب کی دھار جو کردارِ پیغمبر میں ہے

مجھ سے بڑھ کر سیرت سکار کو سمجھے گا کون

ہے خدا کا شکر کہ قرآن میرے گھر میں ہے

 حق نے اپنے نور کے سانچے میں ڈھالا ہے اسے

 یہ الگ ہے بات وہ انسان کے پیکر میں ہے

 اے نبی بشمن کو تیرے حق نے ابتر کردیا

تذکرہ اس بات کا بھی سورۂ کوثر میں ہے

ملتا جلتا ہے نبی سے مرتضیٰ کا ہر عمل

 جو صفت ہے آئینے میں بس وہی جوہر میں ہے

[شاعر: مصطفیٰ حسین]

جومحوسیرِچمن میں وہ خوش خرام ہوا

نثار  ہونے  کو  پھولوں  کا  اژدھام  ہوا

اسی کودیکھ کوپھولوں نےصف لگائی تھی

نماز عشق کا  گلشن میں  یوں  قیام ہوا

نزول رحمت  و  برکت وہاں پہ  ہونے لگا

نبی کاذکرجہاں پر بھی صبح و شام  ہوا

رقم ہے اس کے  مقدر میں آب کوثر بھی

جسے  نصیب ولائے نبی(ص) کا جام ہوا

جناب شیخ کوجس نام سے عداوت تھی

وہی نبی(ص) کا وصی اور وہی امام ہوا

خلیفہ   سب   نے   بنائے  بہت مگر واعظ

نبی کی آل  (ع) سے  سنت  کا اہتمام ہوا

[جشاعر:محمد حسن سرسوی]

درِ رسولؐ کا دنیا میں جو غلام ہوا

فقیر ہوکے امیروں میں اس کا نام ہوا

کرے گا فخر مقدّر پہ اپنے وہ جسکو

شرابِ عشقِ نبیؐ کا نصیب جام ہوا

خدا کی ذات کو الّا قلیلا کہنا پڑا

مرے رسولؐ کا اِس شان سے قیام ہوا

نبی کے صدق کا کلمہ پڑھا گیا پہل

قبول بعد میں اسلام کا نظام ہوا

ہے معجزہ تری آغوش کا ابوطالبؑ

کوئی رسولؐ ہوا اور کوئی امامؑ ہوا

ٹھکانا اُس کا یقیناً ہے آتشِ دوزخ

رسولؐ زادی کا جس سے نہ احترام ہوا

حسنؑ کی صلح سے مھدیؑ کے عصرِ غیبت تک

نبیؐ کی آل سے سنت کا اہتمام ہوا

[شاعر: ناز حیدر]

کیا فصاحت کیا بلاغت سورۂ کوثر میں ہے

کتنی گہرائی و وسعت معنیٔ ابتر میں ہے

کالنجوم اصحاب کی جھوٹی خبر پر خوش نہ ہو

نسبتِ شمس و قمر دیکھو کہاں اختر میں ہے

کم نہیں حق حکومت سے تعلم دین کا

تخت شاہی میں کہاں وہ لطف جو منبر میں ہے۔

[شاعر: دانش بلتستانی]

ایسی خوشبو مشک میں ہے اور کہاں عنبر میں ہے

آمد سرکار (ص) سے جو آمنہ کے گھر میں ہے

دیکھنا جبریلؑ میرا ہمسفر ہو جاٰئے گا

نعت پیغمبر (ص) کا سودا آج میرے سر میں ہے

مصطفی (ص) کی آل سے بغض و حسد کا ہے اثر

یہ مسلماں آج تک جو بال کے چکر میں ہے

دوسرے اصحاب اور حیدر (ع) میں اِتنا فرق ہے

فرق جتنا ایک امت اور اک رہبر میں ہے

زندگی بھر فاطمہ (ع) جس شخص سے ناراض تھیں

کیسے تم کہتے ہو وہ اصحاب پیغمبر(ص) میں ہے

چہرہ پرنور احمد (ص) کی ہے ہلکی سی جھلک

یہ جو اتنا نور خورشید و مہ و اختر میں ہے

شام ہجرت سو گئے حیدر یہ ی کہتے ہوئے

لطف مسجد سا مرے سرکار کے بستر میں ہے

ہر مسلماں چاہتا ہے جس کی کملی میں پناہ

وہ نبی! اے فاطمہ زہرا (ع) تری چادر میں ہے

دوست کی کیا بات ہو یہ دشمنوں نے بھی کہا

ہر ہنر پیغمبر اسلام (ص) کا جعفر (ع) میں ہے

قم میں جو آتا ہے ماں کی مہر و الفت چھوڑ کر

ایسا لگتا ہے کہ جیسے دامنِ مادر میں ہے۔

[شاعر: حافظ حسن رضا بنارسی ]

نبی کی مدح و ثناء کا جو اہتمام ہوا

شریک محفل پر نور یہ غلام ہوا

کچھ اس طرح سے محمد کا فیض عام ہوا

 یہ جو گلاب کھلا آمنہ کے آنگن میں

اسی کے دم سے معطر ہر اک مشام ہوا

تمھاری گود میں جو بھی پلا ابو طالب

کوئی رسول بنا اور کوئی امام ہوا

وہ جس نے چوم لیا سنگ در محمد کا

زہے نصیب وہ انساں فلک مقام ہوا

ملائکہ نے میرے لب کے لے لئے بوسے

کہ زیب لب جو محمد کا پاک نام ہو

کوئی تو بات ہے یا رب علی کے لہجے میں

نبی سے تو اسی لہجے میں ہم کلام ہوا

درود آل محمد پہ میں نے بھیجا تھا

تو خود ہی ٹھیک ہر اک میرا بگڑا کام ہوا

خدارا مت کہو خود کو کہ اھل سنت ہو

 کہ  تم سے بنت نبی کا  نہ احترام ہوا

[شاعر: محمد ابراہیم نوری ]

لکھی جو نعت، شفاعت کا انتظام ہوا ؛ہمارے حق میں ہمارا سخن تمام ہوا؛زہے وہ چشم جو رکھتی ہے خوئے دید نجف؛ زہے وہ دل جو مدینے کا بس غلام ہوا؛خدا پرست چراغوں کی روشنی کے طفیل؛صنم پرست اندھیروں کا قتل عام ہوا؛کہاں کا درد کہاں کا گداز کیسی گھٹن؛نبی ص کا نام لیا سب کا سب تمام ہوا؛جھکا ہی رہتا صدا عادتا جھکا ہوا سر؛خدا کے سامنے جب دل جھکا تو کام ہوا؛نبی کے بال پہ مر مٹنے والی امت سے ؛کہاں رسول ع کی بیٹی کا احترام ہوا؛مٹا رہے تھے نبی ع رنگ و نسل کی تفریق؛تبھی تو پہلا مؤذن سیاہ فام ہوا؛نظر میں رکھنا صدا فقہ جعفر صادق؛جو ان کے نہج سے بھٹکا وہ بےلگام ہوا؛وہاں وہاں ہمیں ایمان کا ثبوت ملا ؛جہاں جہاں ابو طالب ع کا احترام ہوا[جناب ندیم سرسوی صاحب]

تیر میں تلوار میں نیزے میں کیا خنجر میں ہے؛دین کا ابلاغ بس اخلاق پیغمبر(ص)میں ہے؛جتنی دولت اور ثروت کفر کے لشکر میں ہے؛اتنی دولت تو محمد(ص)آپ کی ٹھوکر میں ہے؛      اس کی آمد سے زمانے میں اجالا ہوگیا؛جس کی تھوڑی روشنی ظاہر مہہ و اختر میں ہے؛  جو مبلغ ہے ولایت کا رسالت کی قسم؛ہر قدم اس کا دفاع دین پیغمبر(ص)میں ہے؛    ایک ہلکے سے تبسم سے قیامت کر گیا؛ ایسا بچہ اے ابوطالب(ع)تمہارے گھر میں ہے؛وقت کا معصوم بھی ہم شکل پیغمبر(ص)کہے؛اللہ جانے کیا ادا حسن علی اکبر(س)میں ہے؛اتنے سارے معجزے وقت ولادت ہیں گواہ؛جانے کتنی خیر و برکت ذات پیغمبر(ص)میں ہے؛کس قدر ہے احمد مختار(ص)کا حسن و جمال ؛مادر یوسف(ع)کی آمد آمنہ(س)کے گھر میں ہے؛   خود ملا کے دیکھ لو تصویر کو تصویر سے؛دین احمد(ص)کی حقیت مکتب جعفر(س)میں ہے۔[جناب فیروز عباس صاحب]

روانہ دل سے جو دل کی طرف سلام ہوا؛محبتوں کا مدینہ میں اژدہام ہوا؛خموشیاں جو عقیدت میں ڈوب کر نکلیں؛تو نعت لکھی گئی اور نیا کلام ہوا؛نبی سے بڑھ کے نہ اول نہ کوئی آخر ہے؛جو ابتدا تھا وہی حسن اختتام ہوا؛وہ کوڑا پھیک رہی تھی یہ مسکراتے رہے؛کریم لوگوں کا یہ طرز انتقام ہوا؛وہ دیکھ آج سے معیار برتری بدلا ؛مؤذن ایک غلام سیاہ فام ہوا۔[جناب عابد رضا نوشاد صاحب]

فاطمہ زھرا کا بابا سورۂ کوثر میں ہے؛ دشمنان دین کب سے خانۂ ابتر میں ہے؛جعفر صادق کے جد سے دین کامل ہوگیا؛دین احمد کی حقیقت مکتب جعفر میں ہے؛حیدر کرّار احمد کے مکمل جانشیں احمد مرسل کی ساری خوبیاں حیدر میں ہے؛ ملک ایراں نے زمانے کو دیا پیغام یہ؛جرات شیر خدا ایران کے رہبر میں ہے۔[جناب شمع محمد رضوی صاحب]

تبصرہ ارسال

You are replying to: .

تبصرے

  • سید عباس باقری IN 19:48 - 2020/02/21
    0 0
    بہت عمدہ کارکردگی ہے