۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
خواتین

حوزہ نیوز ایجنسی |

ایک چلتی ہوئی تلوار میں ڈھل سکتی ہے
اپنے پیروں سے حکومت کو کچل سکتی ہے
وقت پڑ جائے تو کانٹوں پہ بھی چل سکتی ہے
تو ہے عورت تو زمانے کو بدل سکتی ہے

دیکھتا ہے تجھے سورج بڑے ارمانوں سے
تو ہے وہ شمع جو لڑ سکتی ہے طوفانوں سے

اپنی چنری سے گلا گھونٹ ستمگاروں کا
اپنی چوڑی سے جگر چیر دے تلواروں کا
اپنی آنکھوں کو بنا آئینہ انگاروں کا
اپنی ہمت سے بدل فیصلہ سرکاروں کا

ظلم حق میں ترے اب اور نہیں کر سکتا
یہ زمانہ تجھے کمزور نہیں کر سکتا

حد میں ظالم کو رکھے حد سے گزرنا تیرا
موت قاتل کی ہے مقتل میں اترنا تیرا
 جنگ سے کم نہیں پردے میں ابھرنا تیرا
زندگی بن گیا حق کے لئے مرنا تیرا

کام تیرا تو نہ تھا پھر بھی کیا ہے تو نے
اپنی دھرتی کے لئے خون دیا ہے تو نے

انقلاب ایسے اٹھے دل میں ترے نعروں سے
خوف کھاتا ہی نہیں کوئی ستمگاروں سے
تخت دہلے تری پازیب کی جھنکاروں سے
کون ٹکرائے ترے صبر کی دیواروں سے

تو پہاڑوں سے لڑی ظلم سے ٹکرائی ہے 
تو تو مردوں سے کہیں آگے نکل آئی ہے

اس نزاکت کے سراپے میں بھی فولاد ہے تو
نغمہء صبر کہیں وقت کی فریاد ہے تو
کون مجبور کرے گا تجھے ، آزاد ہے تو
فخر کرتی ہے زمیں خود پہ زمیں زاد ہے تو

تیرے ہونے سے ہیں رنگینیاں ہر منظر میں
رونقیں تیری بدولت ہیں زمانے بھر میں

ظلم سہنے کی روایت کو بدل آگے بڑھ
قید زندان حقارت سے نکل آگے بڑھ
بن کے 'اقبال' کی شوریدہ غزل آگے بڑھ
رنگ ہے تیری حقیقت کا اٹل آگے بڑھ

حسن گیتا کا حیا کا کہیں قرآن ہے تو
خود کو پہچان خدائی کی نگہبان ہے تو

سر جھکاتا ہے ترے سامنے خنجر کا غرور
ختم تاریکیاں کرتا ہے ترے صبر کا نور
گھور کر دیکھ لے تو جس کو وہ ڈرتا ہے ضرور
تربیت تیری عطا کرتی ہے تہذیب و شعور

جنگ کا طرز نیا سب کو سکھایا تو نے
رہ کے پردے میں حکومت کو رلایا تو نے

انقلابوں کا سمندر تری آغوش میں ہے
ملک کے امن کا منظر تری آغوش میں ہے
ہر زمانے کا مقدر تری آغوش میں ہے
شاہزادی ترا لشکر تری آغوش میں ہے

وقت کے دھارے کا رخ موڑنے والی تو ہے
جبر کے ظلم کے بت توڑنے والی تو ہے

کلام : ندیم سرسوی

تبصرہ ارسال

You are replying to: .