۷ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۷ شوال ۱۴۴۵ | Apr 26, 2024
سلمان عابدی

حوزہ/کورونا خدائی عذاب نہیں الہی تنبیہ ہے خواہ اسے انسان نے کسی سازش کے تحت بنایا ہو یا کشف کرکے پھیلانے کا مرتکب ہوا ہو۔

حوزہ نیوز ایجنسیl انسان کی تخلیق کا اصل مقصد جانچ ہے یعنی مختلف حالات میں ڈال کر اسے آزمانا قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے الذی خلق الموت و الحیات لیبلوکم ایکم احسن عملا ( سورہ ملک آیت ٢ )
جس نے موت اور حیات کو خلق کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کس کے کام اچھے ہیں
 دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا و لنبلونکم بشئ من الخوف و الجوع و نقص من الاموال والانفس و الثمرات ( سورہ بقرہ آیت 155 )
اور ضرور ہم تمہیں کچھ ڈر بھوک اموال انفس اور ثمرات کی کمی سے آزمائیں گے 
اس سے معلوم ہوا کہ انسان کی تخلیق کا اصل ہدف آزمائش ہے اور آزمائش کے لئے ضروری تھا کہ انسان کو مکمل آزادی اور اختیار دیا جائے

 سو اللہ نے اسے آزادی بھی دی اور اختیار بھی دیا 
بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑانے کی صلاحیت دی 
آسمانوں پر کمندیں ڈالنےاور زمین کی طنابیں کھینچ لینے کی استعداد بخشی
 اسے بر و بحر پر سوار کیا اور سب سے بڑھ کر دماغ کی شکل میں اسے طاقت کا خزانہ دیا
 ہمارے دماغ کی جسامت ایک موسمبی سے بھی کم ہے مگر اسکی طاقت کا اندازہ آج تک کسی سائنس دان نے نہیں لگایا ایک سائنس دان نے انسانی دماغ کو فکری انجن Engine of Thought سے تعبیر کیا ہے مسلم اسکالر مولانا وحیدالدین خاں صاحب امریکی میگزین اسپان Span کے شمارہ ستمبر 1989 کا حوالہ دے کر لکھتے ہیں کہ انسانی دماغ کے لئے فکری انجن کی تعبیر بھی ناقص ہے کیونکہ دماغ میں ایک لاکھ نیوران 100000Neuronsمتحدہ طور پر کام کررہے ہیں آگے بڑھ کر وہ لکھتے ہیں کہ دماغ کے ہوتے ہوئے کوئی بھی شخص مفلس نہیں ہوسکتا ( الرسالہ اردو فبروری 1990)
جی ہاں ایک لاکھ ملین نیوران تو دور محض ایک لاکھ پرزوں والی مشین بھی ابتک ایجاد نہیں ہوئی ہے
دوسری طرف کہا جاتا ہے اس پر اسرار کائنات میں تین لاکھ بیس ہزار وائرس پائے جاتے ہیں اور سائنس نے اب تک " کورونا " سمیت محض دو سو انیس وائرس کو دریافت کیا ہے دریافت ہوں یا نہ ہوں پائے تو جاتے ہیں سوچئیے آج پوری دنیا ایک وائرس سے پریشان ہے امیر المومنین ع انسان کو اس کی تخلیقی کمزوری کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں 
مسکین ابن آدم مکتوم الاجل مکنون العلل محفوظ العمل تولمہ البقہ و تقتلہ الشرقہ ( کلام 419)
 
ابن آدم کس قدر بیچارہ ہے
موت اس کی آنکھوں سے پوشیدہ ہے

راز میں ہیں اس کی سب بیماریاں
ہر عمل محفوظ ہے اس کا یہاں

کاٹ دے مچھر تو چیخ اٹھتا ہے یہ
اچھو لگ جائے تو مرجاتا ہے یہ
 
(منظوم نہج البلاغہ ج ٣)

ایک اور مقام پر فرماتے ہیں کہ ایک کانٹا چبھ جائے تو انسان چیخ پڑتا ہے یعنی یہ نکتہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ انسان حقیقت کے اعتبار سے کتنا کمزور اور وہم کے اعتبار سے کتنا طاقتور ہے  حالت یہ ہے کہ ایک کانٹا برداشت نہیں ہوتا اور حوصلہ یہ ہیکہ آتش جہنم کا مزاق اڑاتا ہے _
کورونا جسے کوئیڈ 19 کا نام دیا گیا ہے یہ خدائی عذاب نہیں  ابھی عذاب کہاں ؟ عذاب و ثواب تو آخرت کی چیزیں ہیں اگر روئے زمین پر ایک بندہ بھی استغفار کرنے والا ہے تو اللہ بندوں پر اپنا عذاب نازل نہیں کرتا جیسا کہ امیر المومنین نے نہج البلاغہ میں فرمایا ہے کان فی الارض امانان من عذاب اللہ و قد رفع احدھما فدونکم الاخر فتمسکوابہ اما الامان الذی رفع فھو رسول اللہ ص و اما الامان الباقی فالاستغفار ( کلام 88)

عذاب حق سے بچانے کے تھے ذریعے دو
اک اٹھ گیا ہے جو باقی ہے اس کو تھامے رہو

جسے اٹھالیا وہ تھے رسول عالی وقار
جو باقی ہے وہ انابت ہے اور استغفار 

(منظوم نہج البلاغہ ج ٣ ص ٩٩)

اس رو سے کورونا خدائی عذاب نہیں الہی تنبیہ ہے خواہ اسے انسان نے کسی سازش کے تحت بنایا ہو یا کشف کرکے پھیلانے کا مرتکب ہوا ہو تنبیہ اس لئے آتی ہے کہ انسان دوبارہ اپنے خالق سے رجوع کرے وہ دوبارہ اپنے اعمال و کردار کا جائزہ لیکر انہیں درست کرے اللہ کی سنت یہ ہے کہ وہ اقوام و ملل کو جگانے کے لئے ان پر تنبیہات نازل کرتا ہے تاکہ وہ چونکیں یہ گویا شاک ٹریٹمنٹ ہوتا ہے ایک ٹہوکہ ایک جھٹکا تاکہ انسان بیدار ہو وہ سوچے کہ اسکے ساتھ کیا ہورہا ہے ذرا سوچئیے کہ کورونا نے کس کس طرح کا قہر ڈھایا ہے ؟ لوگ اموات کو لیکر پریشان ہیں موت کو چھوڑئیے ایک دن آئے ہیں اور ایک دن جانا ہے اس کے دوسرے پہلو پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ بارش کے موسم میں بارش نہ ہو تو کسان پریشان ہوجاتا ہے کہ بارش ہی سے سال بھر کی روزی حاصل ہوتی ہے غلہ اگتا ہے فصلیں لہلہاتی ہیں وغیرہ ایک یہ مادی بارش ہے کہ پہلے سورج سمندر کو ابالتا ہے پھر اس سے بخارات اٹھتے ہیں یہی بخارات بادل بنتے ہیں ان بادلوں کو ہوائیں اپنے دوش پہ لئے پھرتی ہیں پھر ایک وقت  آتا ہے کہ ہوائیں تھک کر اپنے کندھے ہٹالیتی ہیں اور یوں پانی زمین پر برسنے لگتا ہے اور ایک عمل کی توفیق کی بارش ہوتی ہے اس کا بھی ایک موسم ہوتا ہے اور وہ موسم یہی تین مہینے ہوتے ہیں جسے رجب شعبان اور رمضان کہتے ہیں جب ایمان کی زمین پر اخلاق و کردار کی کھیتیاں اگتی ہیں انسان جب سال بھر کی مادی تگ و دو سے تھک جاتا ہے تو روح کے تقاضے اسے کھینچ کر عبادت گاہوں کی طرف لاتے ہیں اور یوں وہ رحمت پروردگار کی آغوش میں خود کو گرادیتا ہے اعتکاف کا نور محفلوں کا  سرور شبہائے قدر کے زمزمے تلاوت قرآن کے حلقے عریضوں کی ترسیل اور اعمال کی تکمیل سوچئیے ہم سے کیا کیا چھن گیا ہے آج لوگ آن لائن پروگرام کرنے پر مجبور ہیں جیسے بارش نہ ہو تو کسان پانی حاصل کرنے کے دوسرے ممکنہ طریقے استعمال کرتا ہے وہ بورویل سے پانی کھینچ کر اپنے کھیتوں کی سنچائی کرتا ہے ویسے  آن لائن مجلسیں گویا بورویل سے پانی کھینچنا ہے یہ سلسلہ کب تک چلے گا ؟ آخر اس کا حل کیا ہے ؟ کوئی قرآن مجید سے بال نکالنے کی ترکیب بتارہا ہے تو کوئی ایسا نسخہ بتارہا ہے جس سے سادہ لوح مومنین  کی کھال نکلتی ہے کہ فلاں دعا اتنی دفعہ پڑھوگے تو یہ وائرس بھاگ جائے گا آخر یہ نام نہاد مولوی اور بے لگام ذاکرین کرام عین تنبیہ کے موقع پر بھی قہر خدا سے کیوں نہیں ڈرتے وہ لفظی دعا پر زور کیوں دے رہے ہیں اور سچی توبہ کرنے کی تاکید کیوں نہیں کرتے ؟ڈاکٹروں کی مانیں تو اس وائرس کا اصلی مقام انسان کا حلق محرق ہے جہاں یہ جاکر معلق ہوجاتا ہے اور پوسٹ مارٹم کی مختلف جانچوں سے پتہ چلا ہے کہ یہ سانس کی نالی کو بند کردیتا ہے چونکہ تا دم تحریر اس کا ویکسین ایجاد نہیں ہوا ہے لہذا اسکا ایک ہی علاج ہے جو اللہ نے دل کے اندر رکھا ہے کہ بندہ لفظی دعا کے بجائے سچی توبہ کرے سچی توبہ سے بلائںی ٹلتی اور وبائیں پھیلنے سے رکتی ہیں اجتماعی توبہ کریں دینی مدارس اور حوزات سے موروثیت کا خاتمہ ہو چوکھٹیں بند ہوں اور اہلبیت کی چوکھٹ پر ہمارا سر خم ہو اداروں میں بیت المال پر جن لوگوں نےچھوٹے بڑے ڈاکے ڈال رکھے ہیں وہ بلا کسی شرمندگی کے لوٹا ہوا مال لوٹا دیں اور اس نکتہ پر غور کریں کہ ٹاٹا TATA برلا BIRLA اور ویپرو  Wipro جیسی کمپنیوں کے مالکوں نے اپنا کمایا ہوا پیسہ ڈیڑھ ڈیڑھ ہزار کروڑ کی موٹی موٹی رقم انسانی جانوں کے تحفظ کے لئے دے دیا ہے وہ جان چکے ہیں کہ یہ وائرس سانس کی نالی کو بند کرتا ہے تو پیسہ لیکر کیا کرنا ہے ؟  خود غرضیوں کو ہم لوگ ختم کریں امراء غریبوں کا خیال کریں اور اپنے مال میں سے انہیں عطا کریں ورنہ وہ تالاب سڑ جاتا ہے جس میں ان ہو اور آؤٹ نہ ہو اور اب تو سڑنے تک کی بھی نوبت نہیں آتی یہ نالیاں بند کررہا ا ہے لہذا آئیں اور ہم سب مل کر اللہ کی بارگاہ میں سچی توبہ کریں ایسی توبہ نہیں کہ توبہ کو بھی توبہ کی ضرورت پڑے.

تحریر:سلمان عابدی

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .