۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
News ID: 360286
14 اپریل 2020 - 15:45
خطیب اعظم

حوزہ/تاریخ گواہ ہے جب بھی کوئی بت شکن عزم و ہمت کے ساتھ سامنے آیا ہے بتوں کی پناہ میں خود کو منوانے والوں نے اسے آگ میں پھینکنے کی کوشش کی ہے یہ اور بات ہے کہ خدا کی سنت یہ ہے کہ اگر تم اسکی راہ میں بتوں کو توڑوگےتو ہزاروں ٹن جلتی ہوئی لکڑیوں کی آگ کو بھی وہ گلزار بنا دیگا۔

حوزہ نیوز ایجنسی|امریالیزم اور رجعت پسند ی کی قینچی سے ہمیشہ ہی شاہین حقیقت  کے پروں کو کترا جاتا رہا ہے ، یہ اور بات ہے کہ شاہین کی اڑان  پروں کے کترےجانے کے باجود اتنی بلند ہوتی ہے کہ  سامراجی کرگسوں کی رسائی  اس تک ممکن نہیں ہو پاتی  ۔
آپ تاریخ اٹھا کر دیکھیں  امریالیزم و رجعت پسند عناصر ہمیشہ "حریت فکر"کے خلاف محاذ آرا نظر آئیں گے  انکے ساتھ کچھ ایسے مفاد پرست لوگ بھی ہونگے جنکی دال روٹی کبھی پس پردہ کبھی بے پردہ اسی پر موقوف ہے کہ وہ ہرقدر کا سودا کریں ،ہر تحریک گا گلا گھونٹنے کے در پے رہیں  ہر طرح کی بیداری کو اپنے لئے موت کا پیغام سمجھیں  ۔
 یہ مفاد پرست افراد ہمیشہ رجعت پسندانہ نظریات رکھنے والے افراد کے ساتھ امپریالیزم کے دیو  کی آنکھوں کا تارا رہے ہیں  انکے ساتھ ایک اور طبقہ کھڑا نظر آتا ہے جو  مصلحت پسندوں کا ہے مصلحت پسندوں نے  امپریالیزم ورجعت پسندی کے ساتھ  ابن الوقتوں کو ہمیشہ  تحفظ فراہم کیا ہے 
اور انہیں کے تحفظ کی بنا پر دین میں بدعتوں کا رواج عام ہوا اور دین ہی کے نام پردین کا چہرہ بگاڑا جاتا رہا جبکہ دین میں غیر دینی باتوں کی شمولیت کافائدہ کہیں نہ کہیں انہیں رجعت پسندوں اور امپریالزم کے نمائندوں مفاد،پرستوں اور ابن الوقتوں  کو ملتا رہا جو دین کے نام پر لوگوں کو بے وقوف بناکر اپنا الو سیدھا کرتے رہے جبکہ مصلحت پسند افراد انہیں تحفظ فراہم کرتے گئے ۔رجعت پسندی ہو یا امریالیزم کےچرنو ں میں عقیدت کے پھول نچھاور کرنے  کےوالے صنادید و اصنام اور دینی غلاف میں لپٹے ہوئی الحادی رسومات کے بت
 ان پر سب سے کاری ضرب بر صغیرمیں تحریک دینداری کی صورت میں لگی جو ایک انقلابی لہرکی صورت ذہن ودل و دماغ کوجھنجھوڑتےہوئےآگےبڑھتی گئی اور اس منزل پر پہونچی کہ بڑے بڑے بتوں کی ٹوٹنے کی آوازیں قوم نے اپنے کانوں سےسنیں 
 یہ انقلاب کوئی کم نہ تھا " بچے عمل میں باپ سے آگے نکل گئے ''
بچے عمل میں باپ سے آگے نکل گئے اب ایک نعرہ نہیں ایسی حقیقت ہے جسے ہرصاحب وجدان اپنے علاقے ، محلے اور گاوں دیہتات سےلیکرشہروں تک میں محسوس کر سکتا ہے ۔حال ہی میں تنظیم المکاتب کی جانب سے ہونے والی دینی تعلیمی کانفرنس میں جس طرح ایک بچی نے  حفظ قرآن کا مظاہرہ کیا اسے دیکھ کر ہر صاحب احساس کی
آنکھیں چھلک اٹھیں اور سر فخر سے بلند ہو گیا کہ خطیب  اعظم رح جاتے جاتےہمیں اس دینداری کی  ڈگر پر موڑ گئے جہاں صرف کنیزان زہراہونے کے دعوےنہیں کئے جاتے بلکہ عملی طور پر بھی خطیب اعظم طاب ثراہ کی بتائی ڈگر پرچلتے ہوئے  ہمارے بچے اسی اسلوب کو اختیار کر رہے ہیں جو کسی زمانے میں جناب فضہ کا ہوا کرتا تھا ، انکی زندگی میں قرآن ہے انکی گفتگو میں قرآن ہے ۔جو لوگ کہتے ہیں کہ تحریک دیندای میں اب کیا ہے جو کچھ تھا وہ پہلے تھانہ اب پہلے جیسے لوگ رہے نہ پہلے جیسا جذبہ وہ بھول جاتے ہیں عصر پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کیا عصر پیغمبر ص جیسے لوگ اب ہیں  یا ویسا جذبہ کیا  کسی کے اندر پایا جاتا ہے  جو حیدر کرار کا تھا جو بوذر وسلماں کا تھا ۔ جذبوں کی  پرکھ کا ہمارے پاس یوں تو کوئی پیمانہ نہیں لیکن اتنا  یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ  آج بھی نقش سلمان و بوذر کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بنانے والی شخصیتیں موجود ہیں کہیں رہبر انقلاب حفظہ اللہ کی صورت کہیں آیت اللہ سیستانی حفظہ اللہ  و سید حسن نصر اللہ دامت برکاتہ کی صورت  اور کچھ ان گمنام سپاہیوں کی صورت جو عصر حضور سے عصر غیبت تک  باطل کے سامنے ویسے ہی ڈٹےہیں جیسے  انکا نبی انکے اعمال کو دیکھ رہا ہو ۔ 
حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کی ۲۳ سالہ تبلیغی زندگی میں اگر وہ رنگ پیدا ہوسکتا ہے کہ چودہ سو سال میں اٹھنے والے ہزاروں  طوفان اسے پھینکا نہ کر
سکیں تو شک نہیں انہیں کی تبلیغی کاوشوں کو لوگوں تک پہنچانے والے  خطیباعظم  رح کے خلوص کا رنگ بھی اتناہلکا نہیں جو  چند آندھیوں کے آنے یاچند ستونوں کے منہدم ہونے سے پھیکا پڑ جائے  یہی وجہ ہے کہ تحریک دینداری:نے جس طرح کل رجعت پسندی اور امپریالیزم ، خاندانی انا یا بقول علامہ غلام عسکری طاب ثراہ '' شاہی '' کو رسوا کیا اسی طرح آج بھی اس تحریک میں وہ دم خم
ہے کہ موجودہ دور کے فکری اور نام نہاد قومی بتوں کوتیشہ توحیدی سے مسمار کر سکتی ہے لیکن اسکے لئے براہیمی نظر کی ضرورت ہے جسکا پیدا کرنا مشکل ضرور لیکن ہوائےنفس  پر لگام ہو توکسی حد تک  ناممکن بھی  نہیں ۔
براہیمی نظر پیدا بڑی مشکل سے ہوتی ہے--ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں ۔
اللہ!... کیسی براہیمی نظر تھی اس صدی کی عظیم ترین شخصیت کی جو نہ صرف سماج میں بنتے ہوئے خود ساختہ بتوں کو توڑ رہا تھا بلکہ ایسے بت شکنوں کی تربیت کی فکر بھی اسے تھی جو ہمیشہ ابراہیمی عزم و حوصلہ کے ساتھ ''توحید ''  کو بچانےکے لئے ہر نمرود کےسامنےکھڑے ہو کر فتح حق کے ضامن بن جائیں گے ۔
 یہی وجہ ہے کہ آج بھی استعمار کو مدارس سے خطرہ محسوس ہو رہا ہے اور مدارس کو لیکر انکی ریشہ دوانیاں اب بھی جاری ہیں مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے افاضل و طلاب چاہے جس خطہ ، رنگ یا نسل کے کیوں نہ ہوں 
آج اسی لئے استعمار اور استکبار کے نشانے پر ہیں کہ انہیں صرف تعلیم نہیں دی جاتی ہے بلکہ تعلیم کےساتھ ساتھ انہیں بتوں کوتوڑنےکا ہنر بھی سکھایا جا تا ہے جو کہ خود اسی تعلیم کا ایک جز ہے ۔
تاریخ گواہ ہے جب بھی کوئی بت شکن عزم و ہمت کے ساتھ سامنے آیا ہے بتوں کی پناہ میں خود کو منوانے والوں نے اسے آگ میں پھینکنے کی کوشش کی ہے یہ اور بات ہے کہ خدا کی سنت یہ ہے کہ اگر تم اسکی راہ میں بتوں کو توڑوگےتو ہزاروں ٹن جلتی ہوئی لکڑیوں کی آگ کو بھی وہ گلزار بنا دیگا ۔
شعلہ نمرود ہے روشن زمانہ میں تو کیا-شمع خود را می گزارد درمیان انجمن شاید یہی وجہ تھی کہ فرسودہ رسموں کے بتوں کو توڑنے کے لئے جب یہ فرزندِابراہیم  آگے بڑھا تو ہر طرف سے ایسے طعن و تشنع کا بازار گرم ہو گیا جودہکتی آگ سے کم نہیں تھا لیکن ایمانِ پروردگار نے اسے گلزار بنا دیا اورالزام تراشیوں ، تہمتوں ، اور بھبتیوں کے بازار سے خطیب اعظم مسکراتےہوئے گزر گئے نہ صرف انکے عزم و ہمت میں کوئی کمی نہ آئی بلکہ عزم مصمم تر ہوتا گیا اور ہرآگے بڑھنے والا قدم پہلے سے مظبوطی کے ساتھ آگے بڑھا
شکست کھا نہ سکا وقت کے خدائوں سے-وہ آدمی بڑے عزم و یقین والا تھا۔
اپنے آہنی عزم و ارادہ  کے بل پر ہی خطیب اعظم نے اشاعت علوم آل محمد کابیڑہ اپنے سر اٹھایا  خدا پر بھروسہ کیااور کام شروع کر دیاجس کا کام تھااس نے مدد کی نتیجہ یہ ہے کہ آج پہلے سے زیادہ دینی بیداری پائی جاتی ہےدوست تو دوست انکے دشمن بھی اس کام کی افادیت کے منکر نہ ہو سکے- 
خطیب اعظم کی اس سے بڑی کامیابی کیا ہوگی کہ جو تحریک انہوں نے چھیڑی تھی آج ہر بیدار ضمیر اس کا حصہ بنا ہوا ہے دینی تعلیم کی بنیاد پر مردہ ضمیر بیدار ہو رہے ہیں اور آج نہ صرف مدارس میں رونق ہے  بلکہ انکی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے ہے مذہبی لٹریجر کا استقبال بھی پہلے سے زیادہ ہو رہا ہے وہ خدمات جو کل خطیب اعظم یا انکے رفقاء کار کر رہے تھے آج ہرذی شعور انہیں انجام دیتا نظر آ رہا ہے 
قوم و ملت کی خدمت آج ہر دینی شعوررکھنے والے انسان کا مشغلہ ہے تحریک دیندادی سے پہلے اور بعد کے مدارس کی صورت حال اس بات کی دلیل ہے کہ تحریک لوگوں کے دلوں میں گھر کئے ہوئے ہےجن مدارس کی تعداد تحریک دینداری سے قبل انگلیوں پر گنی جا سکتی تھی آج
ماشاء اللہ انکی تعداد سیکڑوں پر تجاوز کر چکی ہے اسکا مطلب یہ ہے کہ نہ صرف یہ کہ تحریک زندہ ہے بلکہ تحریک پوری قوم کو زندہ رکھے ہوئے ہے آپ کوئی مشن ،کوئی نیک کام ، کوئی سماجی اور قومی تحریک یا ادارہ نہیں دکھاسکتے جہاں خطیب اعظم طاب ثراہ کی تحریک سے جڑے افراد با واسطہ یا بلاواسطہ طور پر موجود نہ ہوں  یہ تحریک کے زندہ ہونے کی دلیل نہیں تو کیاہے؟۔۔ ،اگرحالات و شرائط کے پیش نظر الگ الگ جگہوں پر شمعیں روشن ہو جائیں اور ہر شمع اپنا کام کر رہی ہو تب بھی اس اصلی چراغ کو فراموش نہیں کیاجا سکتا ہے جسکی لو سے شمع جل کر اپنے اطراف میں اجالا کر رہی ہے ۔
  خطیب اعظم کی یاد کو تازہ کرنا   انکے افکار پر نظر ڈالنا محض ایک خراج تحسین نہیں ہے بلکہ ہمارے لئے ایک لمحہ فکریہ بھی ہے کہ ہم اس مرد مجاہدکے افکار کی روشنی میں  یہ جانیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ؟ اور ہمیں کہاں ہونا چاہیے ؟
آج بھی  ہم اپنے اس محسن و معلم  کی طرف دیکھیں گے تو تمام تر مشکلات کےبعد اسکی یہی آواز آئے گی چھوڑومشکلات کو مشکلات تو ہوتی ہی اس لئے ہیں کہ تمہارے جوہر وجودی کو نکھارا جا سکے
آج بھی  انا و خود محوری کےنقارخانوں کی آوازوں کو دباتی ہوئی للہیت میں ڈوبی ایک درد بھری  آوازضرورسنائی دے گی جو ہمیں آگے بڑھنے کا حوصلہ دے رہی ہے ۔ اٹھ کہ خورشید کا سامان سفر تازہ کریں-نفس سوختہ شام و سحر تازہ کریں-


تحریر:  سید نجیب الحسن زیدی

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .