تحریر: مولانا نجیب الحسن زیدی
حوزہ نیوز ایجنسی | بہت خوب کہا ہے کسی نے "ہر انسان ایک چلتی پھرتی کتاب ہوتا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ علم صرف کتابیں پڑھنے سے ملتا ہے جبکہ زندگی گزارنے کے اصل اسباق تو ہمیں انسانوں سے ملتے ہیں"۔وہ لوگ ہمیشہ یاد رکھے جاتے ہیں جنکی کتاب زندگی میں "درد" "قوم کے تئیں ہمدردی" "خلوص" "دوسروں کو اوپر اٹھتا دیکھ کر خوش ہونا" انکی حوصلہ افزائی" خاندان پروری و اقربا پروری کے خلاف محاذ آرائی" بغیر نسلی و خاندانی امتیاز کے ہر ایک صاحب صلاحیت کے ساتھ مل کر کچھ کر گزرنے کی لگن" سعی مسلسل" عزم پیہم" "خونی رشتوں سے زیادہ فکری رشتوں کی تئیں لگاو" جیسے انسان ساز ابواب ہوں۔ خطیب اعظم طاب ثراہ کا کمال یہ تھا کہ ایسی ہی کچھ کتابیں وہ ہمارے لئے چھوڑ گئے تھے کہ انکے جانے کے بعد قوم کو رشد و ہدایت و کمال کی راہ میں کسی خلا کا احساس نہ ہو۔
رئیس الواعظین جناب کرار حسین مرحوم' خطیب عبقری مرتضی جعفری صاحب اور لسان الواعظین مرحوم مظاہر علی صاحب قبلہ انہیں شخصیتوں میں سے تھے جنکی تعمیر خطیب اعظم طاب ثراہ کے مہد تربیت میں ہوئی۔ جہاں قوم ملک و معاشرے و بستی کے کئے یہ ایک بڑا نقصان ہے وہیں ہم سبھی کے لئے لمحہ فکر بھی کہ ہم ایسا کیا کریں کہ اس طرح کی شخصیتوں کی کتابوں کو گھر کی چار دیواری میں قید نہ ہونا پڑے اور سبھی ان سے استفادہ کریں اور یہ شخصیتیں کسی خاص گروہ سے مخصوص نہ ہوں کسی خاص قفس خیال میں قید ہو کر نہ رہ جائیں انکے کاموں کو صحیح نھج مل سکے۔
انکی خدمات خاندان و وراثت سے ماوراء سب کے لئے ہوں انکے بنائے ادارے دنیاوی اداروں اور آفسوں میں تبدیل نہ ہو جائیں انکی اصالت باقی رہے۔دین کے نام پر قوم کے سرمائے سے بننے والے ادارے ذاتی ملکیت کا حصہ نہ بنیں ان کی شخصتیں خاندان میں سکڑ کر نہ رہ جائیں و۔۔۔ سو ان شخصیتوں کی کتاب سے استفادہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ معاشرے کو ہمیشہ ان کتابوں کی ضرورت ہےجو معاشرے کی فکری تعمیر میں ایک کلیدی کردار ادا کر سکیں ۔جب انسان ان کتابوں سے آشنا ہوتا ہے اور ان سے سروکار رکھتا ہے تو کتابوں کو دیمک بھی نہیں لگتی ورنہ کہیں" انانیت" کہیں انارکیت و کہیں انا "رب ربکم الاعلی" کہیں خاندان و ذاتی مفاد کو بے لوث خدمات پہنچانے والے مخلصین و دینی مفاد پر ترجیح جیسی خطرناک دیمکیں بڑی بڑی شخصیتوں کو کھا جاتی ہیں لہذا ضروری جو شخصیتیں اس بیماری سے پاک ہیں انہیں ہر ڈیوڑھی سے اوپر اٹھ کر خراج عقیدت پیش کیا جائے یہ کمترین حق ہے ان لوگوں کا جنہوں نے اپنی پوری زندگی قوم کے مستقبل کے تعمیر میں وقف کر دی جیسے علامہ غلام عسکری طاب ثراہ اعلی اللہ مقامہ اور ان کے مخلص رفقاء کار جنہوں نے اپنی زندگی کی ڈگر کو اخلاص پر قرار دیا اور آخر وقت تک اسی پر گامزن رہے تحریک دینداری کے موجودہ اثرات انہیں کے شجر اخلاص کے برگ و ثمر ہیں ۔
لسان الواعظین جناب مظاہر علی صاحب بھی اسی شجر کی ایک شاخ تھے جس کی آبیاری راتوں کو مصلائے عبادت پر تڑپ تڑپ کر اللہ کی بارگاہ میں خطیب اعظم رح نے اپنے آنسووں سے کی تھی پروردگار مرحوم کی مغفرت فرمائے اور ہم سب کو اپنے اسلاف کی خدمات کا قدر داں قرار دے ۔