۱۳ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۳ شوال ۱۴۴۵ | May 2, 2024
آية الله الفياض

حوزہ/ ایک سوال کے جواب میں کہا ہے کہ مکلف کے لئے جائز نہیں ہے کہ کچھ ابتدائی اور عمومی مشورے کی بنا ماہ مبارک رمضان کا روزہ ترک کرے ، یقینی طور پر خوف زدہ ہوئے بغیر ، کرونا سے دوچار ہونے کے خوف کے امکان اپنی جسمانی حالت اور خصوصی کاموں کی وجہ سے خوف وجود میں آئے. اسی طرح اگر کرونا میں مبتلا ہونے کی وجہ سے روز  روز دار کے لئے خطرہ لاحق ہونے کا باعث بنے تو روزہ نہیں رکھے ،لیکن کھلے عام اپنے روزے کو نہ کھائے.

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق آیت اللہ العظمی شیخ محمد اسحاق فیاض جوکہ مراجع تقلید حوزہ علمیہ نجف اشرف میں سے ہیں نے ایک سوال کے جواب میں کہا ہے کہ مکلف کے لئے جائز نہیں ہے کہ کچھ ابتدائی اور عمومی مشورے کی بنا ماہ مبارک رمضان کا روزہ ترک کرے ، یقینی طور پر خوف زدہ ہوئے بغیر ، کرونا سے دوچار ہونے کے خوف کے امکان اپنی جسمانی حالت اور خصوصی کاموں کی وجہ سے خوف وجود میں آئے. اسی طرح اگر کرونا میں مبتلا ہونے کی وجہ سے روز  روز دار کے لئے خطرہ لاحق ہونے کا باعث بنے تو روزہ نہیں رکھے ،لیکن کھلے عام اپنے روزے کو نہ کھائے.

مؤمنین کی طرف سے پوچھے گئے سوالات اور آقا کے جوابات کا متن نیچے ملاحظہ فرمائیں :


سوال : ان دنوں ڈاکٹر کے مطابق خصوصی طور پر کرونا وائرس کو روکنے کیلئے متعدد اقدامات اور مشورے دئیے جارہے ہیں اور ان اقدامات میں سے بعض یہ ہیں کہ منہ اور گلے کو سوکھنے سے بچانے کی خاطر مسلسل پانی پیا جائے اور گلے اور دہان کی تری کو برقرار رکھا جائے کیونکہ یہ بیماری منہ کے ذریعے لگ سکتی ہے. 
یہ مشورہ ڈاکٹر حضرات اس لیے دیتے ہیں کیونکہ  پانی کی وجہ سے یہ بیماری معدہ کی طرف چلی جاتی ہے اور وہاں پر مر جاتی ہے.
بعض کے مطابق اس بیماری سے بچاؤ کی تنہا راہ حل جسمانی دفاعیہ سسٹم کو مضبوط رکھنا ہے ، روزہ رکھنا جسمانی  قوت دفاعیہ کی کمزوری ،اور مذکورہ بیماری کے پھیلنے کا باعث بنتا ہے. 
ماہ مبارک رمضان نزدیک ہے مقلدین کا اس سلسلے میں وظیفہ کیا ہے ؟؟

دفتر آیت اللہ العظمی شیخ محمد اسحاق فیاض کی طرف سے جواب :

1. خدا کی بارگاہ میں التجا ہے کہ بہت جلد یہ بلا اقوام عالم خصوصی طور پر عراقی سرزمین سے ختم ہو اور اپنی رحمت واسعہ کے زیر سایہ تمام بیماروں کو شفائے عاجل عنایت کرے تاکہ رمضان المبارک میں اس وباء کی شر سے محفوظ ہوں.
2. مؤمنین پر واضح ہے کہ ماہ مبارک رمضان شریعت کے ضروری امور میں سے ہے اور فروع دین کے ارکان میں سے دوسرا رکن ہے اور قرآن مجید میں واجب عمل کے عنوان سے ذکر ہوا ہے ، لہذا مقلدین کے لئے جائز نہیں ہے کہ بعض ابتدائی اور عمومی اطلاعات کی بنیاد پر اور واقعی خوف طاری ہوئے بغیر روزے کو ترک کرے ،بلکہ واقعی خوف و ہراس کو درک کرے کہ اگر بدن کی سلامتی اور صحت یا کوئی خاص کام، کہ اگر دن پانی کے بغیر گزارے تو بیماری سے دوچار ہونے کا خدشہ ہو. 
تمام لوگوں کی صحت اور آمادگی جسمانی ،سرگرمیوں اور زمہ داریوں میں فرق ہے کہ ایک ساتھ مختلف بیماریوں میں مبتلا نہیں ہوتے. ہر وہ شخص جسے اس سلسلے میں خوف اور پریشانی کا سامنا ہے وہ اسپیشلسٹ ڈاکٹر سے رجوع کرے. 
ہر شخص کچھ شرائط کی خاطر یا اپنے کام کی وضعیت یا اپنی صحت کی خاطر یہ خوف رکھتا ہو کہ اگر میں روزہ رکھوں تو بیماری میں مبتلا ہو جاؤں گا اور اسے بچاؤ کے لئے ضروری اقدامات بھی نہیں اٹھا سکتا ہوں مثلاً ماسک وغیرہ کا استعمال یا اسی طرح سے دوسروں سے اپنے کو دور بھی نہیں کر سکتا ہوں کہ جن سے عقلی دلائل کی روشنی میں میں بیماری پھیلنے کا اندیشہ ہے ایک طرف سے بیماری کا خطرہ اور دوسری طرف سے بے روزگاری کا خطرہ ، اس صورت میں شرائط خاص کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے روزہ نہیں رکھے اور کھلے عام روزے کو کھانے سے اجتناب کرے. ضروری طور پر ہلکی پھلکی غذا اور پانی کا استعمال پہ ہی اکتفا کرے جس سے بیماری سے محفوظ رہنے کا اطمینان حاصل ہو ، اور یہ پورے ماہ مبارک رمضان کے روزے نہ رکھنے کے جواز کا مطلب نہیں ہے بلکہ ان دنوں سے مخصوص ہے جن میں مندرجہ بالا شرائط وجود میں آئے ان دنوں سے مخصوص ہے. 
لازمی طور پر بعض افراد صرف چند روز میں ہی ان شرائط سے روبرو ہوتے ہیں نہ پورے مہینے میں ،کہ اس صورت میں احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے جن ایام میں گھر پر ہونگے روزہ رکھے 
3. وہ لوگ جنکو مستقل کوئی بیماری لاحق ہو یا وہ لوگ جنکو کوئی خاص قسم کی بیماری ہو ،اگر بااعتماد ڈاکٹر کے مشورے سے یا ذاتی تجربے کی بنا رمضان کے پورے روزے یا کچھ دنوں کے روزوں کو اس یقین کے ساتھ کہ روزہ رکھے تو جسمانی قوت دفاع کمزور ہوجائے گی اور خوف بھی طاری ہو کہ کرونا یا کوئی دوسری بیماری لاحق ہو جائے گی اور جسمانی نقصان کا خدشہ بھی ظاہر ہو ،اس صورت میں روزہ نہ رکھے اور جب رکھ سکے تو دوسرے دنوں میں قضا بجا لائے. 
ضروری طور پر توجہ کریں کہ یہ خوف وہم و گمان کی وجہ سے نہ ہو، بلکہ مورد اعتماد ڈاکٹر کے مشورے کے مطابق ہو کہ معمول کے مطابق مشوروں سے ہی خوف طاری ہوجاتا ہے یا یہ کہ خود مکلف ڈاکٹر سے رجوع کئے بغیر اپنی صحت کا اندازہ لگا لیتا ہے اور اس پر خوف طاری ہوجاتا ہے ،کیونکہ انسان اپنے بارے میں آگاہ تر ہوتا ہے.

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .