۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
رہبر معظم انقلاب اسلامی

حوزہ/ روزہ ضرویات دین اور ارکان شریعت میں ہے جسکا ترک کرنا جایز نہیں ہے لیکن اگر کوئی شخص یہ مانتا ہے کہ روزہ رکھنے سے وہ بیمار ہوجائے گا، یا اس کی بیماری میں اضافہ ہوگا اور صحت یاب ہونے میں تاخیر ہوگی۔ تو ایسی حالت میں وہ شخص روزہ چھوڑ سکتا ہے، لیکن بعد میں وہ اس کی قضا کرے گا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق میں کورونا وبا کے دوران لوگوں کی طرف سے آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ماہ رمضان میں روزہ رکھنے کے متعلق سوال کو مد نظر رکھتے ہوئے استفتا کا جواب اس طرح پیش بیان کیا ہے۔

بسم الله الرحمن الرحيم 

سوال : آج کل کی حالت کو مد نظر رکھکر جبکہ کرونا پھیلا ہوا ہے، روزہ رکھنے کا کیا حکم ہے؟

جواب: روزہ اللہ کا ایک حکم تکلیفی ہے اور لوگوں پر فرض کیا گیا ہے و ایک خاص نعمت ہے، اس کا مقصد انسان کی روحانی بلندی ہے روزہ رکھنا دوسرے امت پر بھی واجب قرار کیا گیا تھا، روزہ رکھنے سے روح پاک و پاکیزہ ہوتی ہے، ذاتی اور معاشرتی پاکیزگی کو بلند کرتا ہے، مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے قوت ارادی کو تقویت دیتا ہے۔ اس کے علاوہ انسان کی صحت پر بھی اس کا اثر واضح ہوتا ہے اور خدا نے روزہ داروں کے لئے بہت بڑی خوبی رکھی ہے۔

روزہ ضرویات دین اور ارکان شریعت میں ہے جسکا ترک کرنا جایز نہیں ہے مگر یہ کہ انسان کو گمان عقلائی (ظن + کثرت)  ہو کہ روزہ رکھنے سے:
۱ بیماری ایجاد ہو گی۔
۲ بیماری شدید ہو گی۔ 
۳ بیماری میں اضافہ ہوگا یا مزید طولانی ہو جائے گی۔
ان موارد میں روزہ ساقط ہے اور قضا واجب ہے۔
ظاہر ہیکہ ایسے مقامات پر اگر ڈاکٹر جو کہ اسپیشلسٹ ہو اور دیندار ہو وہ صلاح دے کہ نہ رکھو تو بھی کافی ہے۔ 

لہذا اگر کسی کو گذشتہ تین باتوں کے سلسلے سے خوف اور پریشانی ہے اور یہ خوف عقلائی منبع بھی رکھتا ہے تو روزہ ساقط ہو گا اور قضا لازم ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .