۱۲ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۲ شوال ۱۴۴۵ | May 1, 2024
مولانا کلب رشید رضوی

حوزہ/ رام کے نام پر کسی کو مارنے، پیٹنے اور کسی کا گھر جلانے والے رام کے بھکت ہرگز نہیں ہو سکتے ہیں۔ خواہ ایسا کرنے والا شخص رام کو ماننے والا کہے کیونکہ وہ رام کو ماننے والا تو ہو سکتا ہے لیکن رام کی ماننے والا نہیں ہو سکتا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ہندوستان کے مشہور و معروف شیعہ عالم دین و ڈاکٹر مولانا سید کلب رشید رضوی ریاست اتر پردیش کے ضلع جونپور میں ایک مجلس کو خطاب کرنے پہونچے تھے جہاں پر مقامی صحافیوں نے مولانا سے متعدد مسائل پر خصوصی گفتگو کی ہے، مولانا ایس کے آر فاؤنڈیشن کووڈ 19 کے نام سے ایک تنظیم چلاتے ہیں جس کے ذریعہ سے وہ سماج کے غریب طبقے کے لوگوں کی بلا تفریق مذہب و ملت مدد کرتے ہیں۔ ان کی اسی خدمات کے بنا پر لکھنؤ میں اتر پردیش کے نائب وزیر اعلیٰ برجیش پاٹھک کے ہاتھوں دی لیجنڈ آف اتر پردیش کے اعزاز سے بھی نوازا جا چکا ہے، مولانا کی شناخت ایک عالم دین، سماجی کارکن، سماجی مصلح کے طور پر ہے۔

گفتگو کرتے ہوئے مولانا کلب رشید نے اپنی تنظیم کے تعلق سے کہا کہ ہماری تنظیم ایس کے آر فاؤنڈیشن ان مزدوروں کو چپلیں مہیا کراتی ہے، راستے میں جن مزدوروں کے پاؤں میں آبلے پڑ گئے ہوں۔ ان بیماروں کے لیے دوا کا انتظام کرتی ہے جو علاج نہ کرا سکیں اور ان کاموں کے عوض کسی جاہ و مرتبہ فوٹو و شال کی بھی خواہش نہیں ہے۔ کیونکہ جب میں نے تاریخ امام علی پڑھا تو وہ راتوں کو اپنا منہ چھپا کر لوگوں کی مدد کیا کرتے تھے۔ یہ جذبہ و حوصلہ وہیں سے مجھے حاصل ہوا ہے۔

حال ہی میں علیگڑھ کی ایک مسجد پر جے شری رام کے نعرے لکھے جانے کے سوال پر مولانا نے کہا کہ کسی کو بھی کسی غلط کام کا ساتھ نہیں دینا چاہیے، مذہب سے زیادہ انسانیت کی تبلیغ کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسجد میں اس طرح کی حرکتیں کرنے والے اس دسرتھ کے بیٹے رام کے پیروکار نہیں ہو سکتے ہیں جنہیں دنیا مریادا پرشوتم کے نام سے جانتی ہے۔ کیونکہ رام بھگوان کے طور پر پیدا نہیں ہوئے تھے بلکہ ان کے اچھے اعمال کی بنیاد پر ہندو برادری میں انہیں بھگوان کا درجہ دیا گیا تھا، ایسی صورت میں رام کے نام پر کسی کو مارنے، پیٹنے اور کسی کا گھر جلانے والے رام کے بھکت ہرگز نہیں ہو سکتے ہیں۔ خواہ ایسا کرنے والا شخص رام کو ماننے والا کہے کیونکہ وہ رام کو ماننے والا تو ہو سکتا ہے لیکن رام کی ماننے والا نہیں ہو سکتا۔

ہندوستان میں مسلمانوں کی سلامتی سے متعلق سوال پر مولانا نے کہا کہ جب کہیں بھی ظلم بڑھتا ہے تو وہ جگہ غیر محفوظ ہوجاتی ہے، مسجد میں ظلم ہوتا ہے تو نمازی غیر محفوظ ہوتے ہیں، مندر میں ہوتا ہے تو پجاری غیر محفوظ ہوجاتے ہیں حتیٰ کہ گھر میں ظلم بڑھتا ہے تو بیوی غیر محفوظ ہوجاتی ہے، ایسے میں ایک واقعہ کی وجہ سے پورے ملک کو غیر محفوظ کہنا درست نہیں ہندوستان ہمیشہ محفوظ رہا ہے اور محفوظ رہے گا۔

انہوں نے مسلمانوں کی تعلیم کو لے کر کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ حکومت وقت مسلمانوں کو تعلیمی میدان میں آگے نہیں بڑھانا چاہتی ہے۔ البتہ کوتاہیاں ہمارے اندر ہیں کہ ہمارے اندر علم کی طلب و خواہش نہیں ہے۔ مسلمان لغویہ باتوں میں زیادہ رہتا ہے اور کوئی بھی کام جانچ پرکھ کر نہیں کرتا ہے بالمقابل دوسری قوموں کے۔ انہوں نے مسلمانوں کو علم کے حصول پر توجہ کرنے کی نصیحت کی۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .