تحریر: مولانا امداد علی گھلو
حوزہ نیوز ایجنسی| حزب اللہ لبنان کی تاریخی کامیابی اور اسرائیل کے ساتھ حالیہ جنگ بندی کا اعلان نہ صرف مشرق وُسطیٰ بلکہ عالمی سیاست کے لیے ایک اہم سنگِ میل ثابت ہوا ہے۔ اس صبر آزما معرکے نے غاصب صہیونی ریاست کو شکست کے گہرے اندھیروں میں دھکیل دیا۔ یہ جنگ، جو ہر محاذ پر اسرائیل کی ناکامی کا آئینہ بنی، تاریخ میں ایک ایسا سبق چھوڑ گئی ہے جسے کبھی فراموش نہیں کیا جا سکے گا۔
حزب اللہ نے اپنی سرزمین، اپنے عوام، اور اپنے نصب العین کا دفاع کرتے ہوئے ثابت کیا کہ مقاومت کبھی دبائی نہیں جا سکتی، چاہے حالات کتنے ہی سخت کیوں نہ ہوں۔ جنگ کے دوران اسرائیل کی فوج اور خفیہ ایجنسیوں کو بار بار ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور اس کے نتیجے میں کئی اعلیٰ عہدیداروں کے استعفے بھی سامنے آئے۔ یہ حالات اس حقیقت کا ثبوت ہیں کہ اسرائیل کی جنگی مشینری نہ صرف میدان جنگ میں ناکام رہی بلکہ اپنے داخلی نظام میں بھی انتشار کا شکار ہو گئی۔
حزب اللہ کی استقامت اور صبر کا ثبوت یہ ہے کہ اس نے اپنے بہت سے اہم رہنما اور کارکنان قربان کر دیے، مگر اپنی پوزیشن اور تنظیمی ڈھانچے کو مضبوطی سے قائم رکھا۔ شہداء کی یہ قربانیاں صرف لبنان کے لیے نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کے لیے باعث فخر ہیں۔ شیخ نعیم قاسم اور دیگر رہنماؤں کی قیادت میں حزب اللہ نے نہ صرف اپنی طاقت کو ثابت کیا بلکہ اسرائیل کو جنگ بندی پر مجبور کر دیا۔
یہ جنگ بندی اسرائیل کے لیے ایک واضح شکست ہے۔ اگر اسرائیل کے پاس مزید طاقت یا اسٹریٹیجی ہوتی تو وہ جنگ جاری رکھتا، مگر ایسا نہ کر سکا۔ رہبر انقلاب اسلامی سید علی خامنہ ای نے ابتدا میں ہی اعلان کر دیا تھا کہ یہ شکست اسرائیل کے لیے ناقابل تلافی ہو گی اور آج یہ پیشگوئی سچ ثابت ہوئی۔ یہ ایک ایسی شکست ہے جس کے اثرات اسرائیل کی داخلی اور خارجی سیاست پر ہمیشہ کے لیے نقش ہوں گے۔
مقاومتی اتحاد کے شہداء، چاہے وہ حزب اللہ کے رہنما ہوں، فلسطین کے مجاہدین ہوں یا ایران کے پاسداران، سب کی قربانیاں اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ یہ تحریک ایک نظریے کی جنگ لڑ رہی ہے، جو نہ صرف طاقتور ہے بلکہ حق پر مبنی ہے۔ سید مقاومت حسن نصراللہ، سردار نیلفروشان، سید ہاشم صفی الدین، اسماعیل ہنیہ، یحییٰ السنوار، محمد عفیف اور دیگر شہداء کے خون نے اس تحریک کو ایک نئی زندگی دی ہے۔ ان شہداء کا ذکر صرف ایک روایت نہیں بلکہ ایک تاریخ ہے، جو ہمیں یاد دلاتی ہے کہ مقاومت کی جڑیں کتنی گہری اور مضبوط ہیں۔
حزب اللہ کی کامیابی نے نہ صرف اسرائیل کو پسپائی پر مجبور کیا بلکہ دنیا کو یہ پیغام دیا کہ طاقت کا توازن بدل چکا ہے۔ فلسطین، لبنان، یمن، عراق، شام، اور بحرین کے مقاومتی گروہوں نے ثابت کیا ہے کہ ان کی جدوجہد صرف ایک علاقائی مسئلہ نہیں بلکہ عالمی سامراجیت کے خلاف ایک جہاد ہے۔
اسرائیل کی شکست کا مطلب صرف ایک جنگ کا خاتمہ نہیں بلکہ اس کے حامیوں، خاص طور پر سامراجی و استعماری طاقتوں کے لیے بھی ایک واضح پیغام ہے۔ یہ مقاومتی تنظیمیں نہ صرف زندہ ہیں بلکہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے پہلے سے زیادہ پُرعزم اور متحد ہیں۔
یہ وقت ہے کہ امت مسلمہ اس تاریخی موقع کو غنیمت جانے اور اپنی صفوں کو مزید مضبوط کرے۔ مقاومت نے یہ ثابت کیا ہے کہ اتحاد اور قربانی کے ذریعے سب سے بڑی طاقتوں کو بھی شکست دی جا سکتی ہے۔ شہداء کے خون نے اس تحریک کو زندہ رکھا ہے اور آگے بڑھنے کا راستہ دکھایا ہے۔
آج ہمیں شہداء کے خوابوں کو زندہ رکھنے کے لیے ان کی قربانیوں کو یاد رکھنا ہوگا اور مقاومت کی تحریک کو مزید تقویت دینا ہوگی۔ یہ جنگ ایک یاد دہانی ہے کہ مقاومت کبھی نہیں مرتی اور حق کی آواز کو کبھی دبایا نہیں جا سکتا۔ حزب اللہ کی فتح ان تمام لوگوں کے لیے ایک امید کی کرن ہے جو ظلم و جبر کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں۔
مقاومت کی تاریخ خون کی سرخیوں سے لکھی گئی ہے اور یہ سرخیاں ان عظیم قربانیوں کی نشاندہی کرتی ہیں جو انسانیت کی بقا، انصاف کی جیت، اور ظالموں کی شکست کے لیے دی گئیں۔ حزب اللہ کی حالیہ فتح نہ صرف ایک عسکری کامیابی ہے بلکہ یہ اس نظریاتی جدوجہد کا ثمر ہے جس نے امت مسلمہ کے دلوں میں امید کے چراغ روشن کیے ہیں۔ یہ کامیابی ان قربانیوں کی گواہی دیتی ہے جو شہداء نے دی ہیں تاکہ ظلم کے اندھیروں کو حق کے نور سے بدل دیا جائے۔
حزب اللہ کے سربراہ شیخ نعیم قاسم نے جس حکمت اور تدبّر کے ساتھ اس جنگ کو لڑا، وہ نہ صرف دشمن کے لیے حیران کن تھا بلکہ اپنے ساتھیوں کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوا۔ شہداء کا ذکر ایک روایتی عمل نہیں بلکہ ان کے عزم کی گواہی ہے جو ہمیں یاد دلاتا ہے کہ حق کی جدوجہد کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔یہ فتح صرف ایک جنگ بندی نہیں بلکہ ایک نئے دور کا آغاز ہے، جہاں مقاومت نے یہ ثابت کر دیا کہ ظالموں کے محلات کتنے ہی بلند کیوں نہ ہوں، حق کے سامنے وہ ریت کی دیوار سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔ حزب اللہ کی کامیابی نے دنیا بھر میں ان مظلوم قوموں کے لیے امید پیدا کی ہے جو سامراجیت اور ظلم کا شکار ہیں۔
فلسطین، لبنان، یمن، عراق اور شام کی مقاومتی تنظیموں نے اپنے اتحاد اور استقامت سے ثابت کیا ہے کہ ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا ہی آزادی کا پہلا قدم ہے۔ ان تنظیموں کا عزم یہ واضح کرتا ہے کہ مقاومت صرف ایک خطے یا قوم کی جنگ نہیں بلکہ یہ پوری انسانیت کی جنگ ہے۔
شہداء کی قربانیوں کو یاد رکھنا ہمارے ایمان کا حصہ ہے؛ لیکن ان کے مشن کو آگے بڑھانا امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے۔ آج جب مقاومت کی تحریک اپنے عروج پر ہے، تو امت مسلمہ کو نہ صرف ان کی حمایت جاری رکھنی ہے بلکہ ان کے نظریے کو عالمی سطح پر فروغ دینا ہے۔ یہ جنگ، جو اسرائیل کے لیے شکست کا اعلان ہے، امت کے لیے ایک پیغام ہے کہ حق کے راستے پر چلنے والے کبھی ناکام نہیں ہوتے۔
مقاومت کے اس سفر میں ہم سب مسلمانوں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ہم شہداء کے خون کی لاج رکھیں اور اس جدوجہد کو اس کے منطقی انجام تک پہنچائیں۔ یہ صرف ایک فتح نہیں بلکہ ایک تاریخ ہے جو آنے والی نسلوں کو یاد دلائے گی کہ مقاومت کبھی شکست نہیں کھاتی اور ظالم ہمیشہ اپنے انجام کو پہنچتا ہے۔
یہ صرف ایک کامیابی نہیں بلکہ مظلوموں کے لیے روشنی کا مینار ہے اور ہم سب مسلمانوں کو اس روشنی کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانا ہوگا۔
یہ جنگ اس حقیقت کی علامت ہے کہ ظلم کبھی دائمی نہیں ہوتا اور مقاومت کی طاقت دنیا کو بدل سکتی ہے۔