۹ آذر ۱۴۰۳ |۲۷ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 29, 2024
نتانیاهو

حوزہ/ حزب اللہ لبنان اور غاصب صیہونی حکومت کے درمیان جنگ بندی کے قیام کے بعد، سوشل میڈیا پر یہ اہم سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ غاصب اسرائیل حزب اللہ پر دوبارہ حملہ آور کیوں نہیں ہو سکتا؟

حوزہ نیوز ایجنسی؛ حزب اللہ لبنان اور غاصب صیہونی حکومت کے درمیان تقریباً 14 مہینوں تک بڑے پیمانے پر جنگ کے بعد، 27 نومبر 2024 کی صبح، جنگ بندی کے آغاز کی صبح قرار پائی۔

ایسے وقت میں جب عرب حکومتیں غاصب اسرائیل کے جرائم کی محتاط مذمت کے علاوہ کچھ نہیں کرسکیں، حزب اللہ کے مجاہدین شہید سید حسن نصر اللہ اور پھر ان کے جانشین شیخ نعیم قاسم کی قیادت میں غزہ کی حمایت اور لبنان کی خودمختاری کی حفاظت کے لئے براہ راست جنگ کے میدان میں اترے۔

عام شہریوں کے خلاف صیہونیوں کے جرائم کے باوجود، لبنان کی باشعور قوم کی ثابت قدمی نے مزاحمتی فورسز کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ الجلیل، حیفہ اور تل ابیب کے خلاف بڑے پیمانے پر جوابی حملے کرنے کے لئے اپنی فورسز کی تجدید کرسکیں۔

بیروت اور تل ابیب کا جنگی توازن اور جنوبی لبنان میں غاصب اسرائیل کی زمینی افواج کے اخراجات میں اضافے نے نیتن یاہو حکومت کو شمالی محاذ میں جنگ بندی کے قیام کی تجویز کو قبول کرنے پر مجبور کردیا، ایسے میں اہم سوال یہ ہے کہ غاصب صیہونی حکومت حزب اللہ کو شکست دینے میں کیوں ناکام رہی؟

جنگ بندی کی شرائط کیا ہیں؟

شمالی محاذ کے پیچیدہ میدانی مساوات نے ثالثی کردار ادا کرنے والوں اور مبصرین کو میدان جنگ کی موجودہ حقیقت کی صحیح تصویر فراہم کرنے سے عاجز بنادیا ہے۔

جنگ بندی کے سلسلے میں، لبنان کی جنگ سے فائدہ اٹھانے والوں میں سے ہر ایک نے اپنے مفادات کے مطابق منصوبہ پیش کرنے کی کوشش کی۔ مثال کے طور پر، امریکیوں نے لبنان کے مستقبل کے صدر کے انتخاب اور مقبوضہ فلسطین اور لبنان کے درمیان بین الاقوامی سرحدوں کے تعین کے عمل کو متاثر کرنے کی کوشش کی۔ انتہا پسند صیہونیوں نے لبنان کی اسلامی مزاحمت کے خلاف ڈھال بنانے کے مقصد سے شمالی محاذ پر ایک بفرزون بنانے کی بات کی اور آخر کار نیتن یاہو نے ایک ایسا طریقہ کار بنانے کی کوشش کی جس کے ذریعے وہ لبنان کے خلاف اسرائیل کی جارحیت کو "جائز دفاع" کے بہانے قانونی شکل دے سکے، جبکہ اسی دوران لبنانی پارلیمنٹ اسپیکر جناب نبیہ بری نے حزب اللہ کے سیاسی نمائندے کی حیثیت سے دوسرے فریق کے بعض غیر معقول مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے ایک معاہدے پر دستخط کیے جس میں لبنانی قومی ریاست کے مفادات کو مدنظر رکھا گیا ہے۔

غاصب صیہونی اخبار "یدیعوت احرونوت" کے مطابق، حزب اللہ اور صیہونی حکومت کی طرف سے قبول کی گئی سلامتی کونسل کی قرارداد 1701 کی بنیاد پر جنگ بندی مذاکرات میں درج ذیل شقیں شامل ہیں:

حزب اللہ اور لبنان کے تمام عسکری گروہ اسرائیل کے خلاف فوجی کارروائی سے باز رہیں گے جبکہ جواب میں صیہونی حکومت کو زمینی، فضائی اور سمندری راستے سے کسی بھی قسم کی جارحانہ کارروائی سے گریز کرنا ہوگا۔ اسرائیل اور لبنان، سلامتی کونسل کی قرارداد کی شق 1701 کو تسلیم کرتے ہیں۔

یہ ذمہ داریاں اسرائیل یا لبنان کے اپنے دفاع کے حق کو استعمال کرنے کی نفی نہیں کرتی ہیں۔

لبنان کی سیکیورٹی اور فوجی دستے واحد مسلح گروہ ہیں جو جنوبی لبنان میں ہتھیار لے جانے یا کام کرنے کے مجاز ہوں گے۔

لبنان کو ہتھیاروں یا ہتھیاروں سے متعلق مواد کی فروخت، سپلائی اور پیداوار لبنانی حکومت کی نگرانی اور کنٹرول میں ہو گی۔

فریقین کی طرف سے متّفقہ ایک کمیٹی قائم کی جائے گی؛ جو ان وعدوں پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے نگرانی اور مدد کرنے میں اپنا کردار ادا کرے گی، فریقین کمیٹی اور UNIFIL کو وعدوں کی کسی بھی ممکنہ خلاف ورزی کی اطلاع دیں گے۔

لبنان اپنی سرکاری فوج اور سیکیورٹی فورسز کو جنوبی علاقوں سمیت تمام سرحدوں پر تعینات کرے گا، صیہونی حکومت بتدریج زیادہ سے زیادہ 60 دن کی مدت میں نیلی لائن کے جنوب سے اپنی افواج کو ہٹا لے گی اور امریکہ اس دوران، غاصب اسرائیل اور لبنان کے درمیان تسلیم شدہ زمینی سرحد کے تعین کے لیے بالواسطہ مذاکرات کی حمایت کرے گا۔

مزاحمت اب بھی زندہ ہے!

حزب اللہ لبنان کی تشکیل ہی ملک میں دوران خانۂ جنگی ہوئی تھی کہ جب لبنان کا دارالخلافہ اسرائیلی، فرانسیسی اور امریکی افواج کے قبضے میں تھا اور انہوں نے سیاسی جماعتوں کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کیا، لیکن حزب اللہ کے ابتدائی کمانڈروں نے شہادت پسندانہ کارروائیوں کے ذریعے ہزاروں قابضین کو ہلاک کیا اور لبنانی سیاسی منظرنامے پر ایک اہم کردار کے طور پر اپنے آپ کو منوایا۔

1980 کی دہائی کے ابتدائی مہینوں سے لے کر نئی صدی کے پہلے سالوں تک، لبنان کی اسلامی مزاحمتی فورسز قابضین کو جنوبی لبنان سے نکال باہر کرنے میں کامیاب ہوئیں اور لبنانی معاشرے کی طرف سے انہیں ایک قومی قوت کے طور پر تسلیم کیا گیا۔

اس مقبولیت کا دائرہ صرف شیعوں تک محدود نہیں تھا، بلکہ مختلف قبیلہ سے تعلق رکھنے والے لبنانی شہری حزب اللہ کو جنوبی حملہ آوروں کے خلاف مزاحمت کا استعارہ سمجھتے تھے۔ حالیہ برس میں، شامات کے علاقے میں مذہبی فتنے کے باوجود، رائے عامہ اب بھی حزب اللہ کو فلسطینی محاذ کے حامیوں میں سے ایک قرار دیتی ہے۔

لبنان میں نیتن یاہو کے ناقابلِ حصول خواب اور عملی میدان میں جو کچھ ہوا وہ 2006 میں 33 روزہ جنگ کے بعد ایک تبدیلی تھی۔

جنگ کے ساتوں محاذوں پر تمام اخراجات کو قبول کرتے ہوئے، اسرائیل نے حزب اللہ کی فوجی طاقت کو ہمیشہ کے لیے کمزور کرنے اور اس گروہ کو لبنان کے اندر ایک غیر مسلح سیاسی تحریک میں تبدیل کرنے کا ارادہ کیا۔

حزب اللہ کی قیادت کو ختم کرنا، اسلحے کی منتقلی کی شریانوں کو نشانہ بنانا، مزاحمت سے وابستہ مالیاتی مراکز پر منظم حملے اور آخر کار جنوبی لبنان کو غیر آباد بنانے کی کوشش، حزب اللہ کو آخری دھچکا پہنچانے کے لیے تل ابیب کے حکمران گروہ کے منظم جرائم کا ایک حصہ تھا۔

دوسری طرف، مزاحمت میدان جنگ میں ایک نئی مساوات قائم کرنے میں کامیاب رہی۔

مزاحمت نے مقبوضہ فلسطین میں بڑے پیمانے پر میزائلوں اور ڈرون حملوں کے ذریعے غاصب صیہونیوں کو یہ پیغام دیا کہ حزب اللہ روز بروز مضبوط ہو رہی ہے اور اب وہ افراد یا تجربہ کار کمانڈروں پر مبنی گروپ نہیں ہے؛ دوسرے لفظوں میں، مزاحمت کا مضبوط ڈھانچہ کم سے کم وقت میں حملہ آوروں کے خلاف دفاع کی جنگی قوت کو دوبارہ بنانے کے قابل بناتا ہے۔

نتیجہ

حزب اللہ لبنان نے نہ صرف غاصب اسرائیل کی مسلح افواج کی پیش قدمی کو روکا، بلکہ مغربی ایشیاء کے علاقوں میں بھی نیٹو کے حملے کو بھی روک دیا۔

اگرچہ غاصب صیہونی حکومت کو "CENTCOM" سیکیورٹی میکانزم کے ایک حصّے کے طور پر جانا جاتا ہے، لیکن اس کے ساتھ نیٹو کے رکن کی طرح برتاؤ کیا جاتا ہے جو کہ ہتھیاروں کی فراہمی اور فعالیت کی صلاحیت رکھتا ہے اور اسے ہر قسم کی اسٹریٹجک مدد ملتی ہے۔

صرف سن 2023-2024 میں، غاصب اسرائیل کو امریکہ سے 22 بلین ڈالرز سے زیادہ کی فوجی امداد ملیں اور مالیاتی ہتھیاروں کی امداد حاصل کرنے کے میدان میں ایک نیا ریکارڈ قائم کرنے میں کامیاب ہوا۔

حزب اللہ لبنان کے مجاہدین کا معجزہ اس وقت زیادہ عیاں ہوا جب اس تنظیم کے سینیئر کمانڈروں کی شہادت ہوئی؛ غاصب اسرائیلی حملوں کے باوجود، حزب اللہ اپنے آپریشنل یونٹس کو بحال کرنے اور مقبوضہ علاقوں کی گہرائیوں کو روزانہ کی بنیاد پر نشانہ بنانے میں کامیاب رہی۔

الماء انسٹی ٹیوٹ کے مطابق، سید حسن نصر اللہ کی شہادت کے بعد اسرائیل پر مزاحمتی حملوں میں تقریباً 60 فیصد اضافہ ہوا۔ صیہونی حکومت کی جارحیت کا دائرہ وسیع کرنے سے پہلے اس حکومت کے حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ حزب اللہ کے خطرے کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، لیکن حزب اللہ کی طاقت نے اس خواب کو ہمیشہ کے لیے شرمندہ تعبیر کردیا۔ اب اسلامی مزاحمت لبنان کے پاس موقع ہے کہ وہ حالیہ جنگ میں حاصل ہونے والے تجربات سے استفادہ کر کے فوجی اور سویلین یونٹس کی تعمیر نو اور مختلف شعبوں میں فورسز کی تجدید کی طرف قدم اٹھائے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .