تحریر: مولانا گلزار جعفری
حوزہ نیوز ایجنسی | انسانی زندگی کی کشتی جب دنیا کے اس سمندر میں اپنی راہ متعین کرتی ہے تو کیا اس تہذیب نو کی چلتی ہوئی ہواؤں کے حوالے کر دیا جائے جو نئی رت اور نئی ریت ہے اسی کے ساتھ میں ڈھل جائے اور اس دنیائے ضلالت کے طلا تم خیز موجوں کے درمیان اپنے وجود کو خود سپردگی کے حوالے کر دیں اور جو کچھ ہو رہا ہے اسے برداشت کرے اسے دیکھتا رہے اور اسی دھارے پر بہتارہے اور ایک لاش کی طرح اپنے آپ کو اس دنیا کی گنگا میں وسرجت کر دے یا ایک ملاح کی حیثیت سے نئی تہذیبی ہواؤں سے لڑتے ہوئے طلا تم خیز موجوں سے نبرد آزما ہوتے ہوئے لاش کے بجائے شعور کی آنکھ کھولے اور اپنی کشتئ حیات کو ساحل نجات تک لے جائے مگر اس کے لیے اسلحہ نہیں حوصلہ کی ضرورت ہے خود سپردگی کی نہیں خود سپر ہونے کی ضرورت ہے اس کے لیے شعور و بصیرت کی ضرورت ہے تو آئیں دیکھیں جینے کے لیے دنیا کیا ہے اور لڑ کر جینے میں آخرت کا مزہ کیا ہے کیا ہو رہا ہے کیسے ہو رہا ہے اور اس پروسیس processمیں حل کس کے پاس ہے پہلے مسائل سمجھیں پھر حلول حیات کی راہ تلاش کی جائے عقل و خرد کے تقاضے پورے کیے جائیں شعور و بصیرت کی آواز پر لبیک کہا جائے تو زندگی کے چراغوں کے اجالے دوسروں کو بھی نفع پہنچائیں گے پوری دنیا کا نظام اقتصاد و سیاست جس قوم کے ہاتھ میں ہے وہ یہودیت ہے اس کی آئیڈیالوجی ideology اور نظریہ سمجھنے کی ضرورت ہے ان کی پیش رفت بڑھتے ہوئے قدم اور دیکھتی ہوئی ترقی کا مایا جال سمجھنے کی ضرورت ہے کیوں ہوا کیسے ہوا کیا ہوا علم سے دولت کمائی گئی جب علم ائے گا تو دولت لامحالہ آئے گی دنیا شاہد ہے کہ دولت و ثروت جہالت کے بازوؤں سے کسب نہیں کی جا سکتی مگر جب دولت آتی ہے تو خرچ کرنے کے راستے ابلیس تیار کرتا ہے خواہشوں کے دامن پر اخراجات کا برنامہ لکھا جاتا ہے آرزوؤں کے صفحات پر اخراجات کی فہرست مرتب ہوتی ہے اور اشیاء کو دیدۂ زیب بنانے کے لیے میڈیا media اپنا کام کرتا ہے اور شیطان کے بکھرے ہوئے جال میں اہل ایمان مثل ماہی کے تڑپنے لگتے ہیں۔
علم نے ایجادات کیے یہ اس کا کمال تھا قوم یہود نے سائنس داں scientistجنم دئے انھوں نے محنت ومشقت تعلیم و تعلم کے ذریعے سے بام ترقی پر ڈیرا ڈالا جو قابل تعریف ہے مگر اسی ایجاد کو لوگوں کی ضرورت بنا کر انسانیت کے گلے میں مثل طوق گراں ڈال دیا اور ایجاد پر کاروبار کا جال پھیلا دیا اس کے لیے ایڈورٹائزمنٹ Advertisementکی ضرورت تھی لہذا میڈیا خریدا گیا اور اس کی ملمکاری کے ذریعے عوام کاBrainwash کیا گیا ہر جگہ اپنے پروڈکٹProduct کی تصویر نیم عریاں یا ہیروئن Heroineکی شکل میں ہوس کے پجاری سماج میں بے حجابی کے چھلکتے ہوئے عام گناہ کی طرف رغبت دلاتے ہوئے سارے ہتھکنڈے اپنائے گئے چونکہ فطرت natureاک سرکش گھوڑا ہے اسکے دانتوں میں اگر تقوی و تقدس کی لگام نہ لگائی گئی تو دولت و شہرت کے بڑھتے ہوئے قدموں کے تلے عزتیں پائمال کردی جائینگی استعمال و استحصال کا دروازہ کس طرح کھولا گیا اک مثال سے ملاحظہ فرمائیں مثلا؛
کولگیٹ Colgateکی ایجاد قابل تعریف تھی لیکن اس کو سماج میں اس طرح سے پرچار کرنا نشر و اشاعت کی ساری قوتیں استعمال کرنا لوگوں کو ہر طرح سے دکھانا جس کا قہری اور لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ انسان نے اپنی ضروری ضروریات سے دامن بچا لیا مگر ان کی فریب کاری پر ٹوٹ پڑا کیونکہ اگر ٹوتھ پیسٹToothpaste نہ خریدا تو وہ سماج میں بیکورڈBackward سمجھا جائے گا گھر غربت زدہ سمجھا جائیے گا سارے سماج میں اگر آج کسی گھر میں منجن ہو مسواک ہو یا اور کوئی جڑی بوٹی ہو تو عصر رواں کا ترقی یافتہ ذہن اسے قبول نہیں کرے گا کیونکہ میڈیا mediaکے ذریعے سے اتنا لبھایا گیا ہے کہ اقدار انسانی ذہن بشری سب کچھ بدل چکا ہے یہ ماڈرن modern زمانہ ہے نیا کلچر Culture ہےاس کی تبدیلیوں کی سترنگیاں ہیں یہاں چمتکار کو نمسکار ہے logic کس کو سنایا جائے فلسفہ کس کو پڑھایا جائے جہاں shortcut سے دولت مند بننے کی ہوڑ لگی ہے اور یہ ایک محبوب مشغلہ ہے اب جب سامان مہنگا آمدنی کم طلب زیادہ عرض کم تو گھبرایا ہوا ملک کا باشندہ دولت کہاں سے لائے تو جس نے خوابوں کا بستر سجایا تھا صبح کو تعمیر نو کے حسین وادیاں بھی اسی نے آباد کی بینکوں نے خزانوں کے دہانے کھول دیے کہ ضمیروں کی ارزو خریدنے کے لیے غلامی کی زنجیر قدموں میں ڈالنے کے لیے یہ وہ شوگر کوٹڈ دوائی تھی جس زہر کو بڑی خوبصورتی سے سجا کر پلایا گیا ایک ایسا نشہ تھا جسے ضرورت کے پیالے میں رکھ کر سیراب کیا گیا اور سود کی کالا بازاری شروع کی گئی اور اچھے بھلے انسان کی ملکیت کو اپنے قبضے میں لے لیا گیا اب آدمی صرف کرایہ دار بن کر اپنے ہی مکان میں غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے بینک نے ہر چیز پر لون دیا سہولت کے بازار میں انسان کو لا کر کھڑا کر دیا اور اس سہولتی زمانے میں غریب کو مزید غریب اور دولت مند کو انتہائی دولت مند بنا دیا گیا۔
میں ابھرتے ہوئے سماج کی دیکھتی ہوئی ترقی پر انگشت نمائی نہیں کر رہا ہوں مگر ہاں طائر حیات جس دام فریب میں الجھا ہے اس کی رہنمائی ضروری ہے آج کے اس digital اور smart زمانے نے انسان کے بہت سے احساسات پر قابو پا لیا ہے card payment سے آسانی کا وہ کھلونا دیا ہے جسے دولت کے ہاتھ سے خرچ کرنے کے درد نے احساس پر مرہم لگا دیا ہے بلکہ وہ نشاور افیوم Opium کہلاتی ہے کہ ہم گلا تو کاٹتے ہیں پر درد نہیں ہونے دیتے جب 2 ہزار روپے جیب سے نکال کر دیتے ہیں ہاتھوں سے دکاندار کو تو کہیں نہ کہیں ضمیر کی آواز آتی ہے جسے چاروں ناچار سن لیا جاتا ہے اور اخراجات کے صفحات پر کبھی کبھی احساسات کی دستک سنائی دیتی ہے لیکن پلاسٹک کے کارڈ سے پیسہ کٹنے کا درد نہیں ہوتا اس لیے گلا گڑیا کا کٹے تو خون نہیں نکلتا جب گلا غربت و افلاس کا کٹتا ہے تو احساس سے خون رواں ہوں کر ضمیر کو اس دستک کے سننے پر مجبور کرتا ہے زمانے کی تیز رفتاری سے قدم ضرور ملاؤ مگر مذہب کی اجارہ داری کو بھی سمجھو اسلام سود کے نظام کا دشمن تھا اسراف بیجا اسلام کو پسند نہیں تھا غیر اخلاقی اور غیر شرعی دولت کے حصول پر پہرا بٹھانے والا اسلام ہی تھا خواہشیں فطرت بڑھاتی ہے مگر اس کی لجام شریعت کے ہاتھوں میں دی جاتی ہے پیاس پانی مانگتی ہے فطرت عطش سے سیرا بی چاہتی ہے خواہ کسی سیال مادے سے ہو کسی طرح کا ہو کسی رنگ کا ہو مگر فطرت کی طلب پر شریعت نے کمان لگائی خبردار پیو مگر نجس نہیں پاک ہو گندا نہیں صاف ہو رنگین نہیں بے رنگ کا ہو بدبودار نہیں خوشبودار ہو صاف شفاف ہو جو پی کر سنبھلنے نہ دے اسے ہاتھ نہ لگاؤ اگر خدا نے نفس کی طلب کو صرف فطرت کے حوالے کیا ہوتا اور شریعت و مذہب کا گھاٹ نہ بنایا ہوتا تو ہماری کشتی حیات جہنم رسید ہو جاتی ہے اسے کھیپنے کا ہنر صرف دست شریعت میں جسکا پالن کرنا ہر مسلمان کا فرض منصبی ہے رب لوح و قلم نے فانوس سر میں شمع عقل کو روشن کیا ہے شعور و ادراک کا سلیقہ ودیعت کیا ہے ضمیر میں بیداری کے سارنگ بجائے ہیں کاش اہل خرد اس حیات کے فلسفہ کو سمجھیں اور عصر رواں میں زندگی کے اصول و اسلوب پر شریعت کی پاسبانی رکھیں تو کمرانی ہمیشہ قدم بوسی کرتی نظر آئیگی۔
رب کریم رزق توفیق ہدایت نصیب فرما بحق طہ و آل یاسین آمین یا رب العالمین
نوٹ؛
اپنے دور کے میثم عصر کہے جانے والے جانے مانے خطیب مولانا فیروز حیدر ص قبلہ نوگاواں سادات کی ایک مجلس سے فکری ،علمی، لفظی، اقتباس اس مضمون میں لیا گیا ہے رب کریم مرحوم کی مغفرت فرمایے درجات اعلی فرمائے التماس سورہ فاتحہ
آپ کا تبصرہ