تحریر: سید نجیب الحسن زیدی
حوزہ نیوز ایجنسی | بڑی متانت و شایستگی کے ساتھ کے ساتھ پارلیمنٹ میں تالیوں کی گونج کے درمیان ہمارے سابقہ وزیر اعظم اپنی پارلمانی تقریر کے دوران میٹھے لہجے میں اپنی گفتگو کو جاری رکھے ہوئے تھے سامنے بیٹھی آنجہانی سشما سوراج متبسم چہرے کے ساتھ کانوں میں رس گھولنے والی گفتگو سن رہی تھیں گو کہ پارلمینٹ نہ ہو کوئی مشاعرہ ہو آپ نے بھی یقینا یہ معروف کلپ دیکھی ہوگی جو سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر خوب وائرل ہو رہی ہے دادو تحسین کی آوازوں کے درمیان منموہن سنگھ جی نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ اپنے عزم وشوق کا اعلان کیا۔
مانا کے تیری دید کے قابل نہیں ہوں میں
تو میرا شوق دیکھ مرا انتظار دیکھ ۔
شایستگی و متانت کے ساتھ اپنی بات رکھنے والی یہ آواز اب خاموش ہو گئی لیکن ڈاکٹر منموہن سنگھ کو دنیا ہمیشہ یاد رکھے گی جنہوں نے سادگی و دلسوزی کے ساتھ ملک و انسانیت کی خدمت کی۔
سابقہ وزیر اعظم ایک اجمالی خاکہ
ڈاکٹر منموہن سنگھ، 2004 سے 2014 تک ہندوستان کے وزیر اعظم رہے، ایک نمایاں ماہر معاشیات، سیاستدان، اور سرکاری خدمت گزار تھے۔
1. تعلیمی اور پیشہ ورانہ پس منظر:
ڈاکٹر منموہن سنگھ کا تعلق ایک علمی اور اعلیٰ تربیت یافتہ طبقے سے تھا۔ وہ آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ تھے اور معاشیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھتے تھے۔ ان کا معاشی شعور انہیں ہندوستان کے وزیر خزانہ (1991-1996) کے طور پر بہت مؤثر ثابت ہونے میں مددگار ثابت ہوا، جب انہوں نے بھارت کی معیشت کو آزاد کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر اصلاحات کیں۔
2. ماہر معاشیات:
ڈاکٹر سنگھ کو ہندوستانی معیشت کو نجیکاری، عالمگیریت، اور معاشی آزاد خیالی کے راستے پر ڈالنے کا سہرا دیا جاتا ہے۔ 1991 کے معاشی بحران کے دوران ان کی قیادت میں کی گئ اصلاحات نے بھارت کو ایک مضبوط اور متحرک معیشت کے طور پر ابھرنے کا موقع فراہم کیا۔
3. نرم لہجہ اور معتدل قیادت:
منموہن سنگھ کی قیادت کا سب سے نمایاں پہلو ان کی شائستگی، غیر متنازعہ مزاج، اور نرم لہجہ تھا۔ وہ ایک بظاہر غیر جذباتی، لیکن عملی اور تجزیاتی شخصیت کے حامل تھے۔ ان کی اس خصوصیت نے انہیں بھارت کے پیچیدہ سیاسی ماحول میں مختلف دھڑوں کو ساتھ لے کر چلنے میں مدد دی۔
اگرچہ سنگھ کو ایک ماہر معاشیات اور منتظم کے طور پر سراہا جاتا ہے، لیکن بطور سیاستدان ہجومی سیاست پر یقین رکھنے والوں کی جانب سے ان پر یہ تنقید کی جاتی ہے کہ وہ فیصلہ سازی میں مضبوط قیادت کا مظاہرہ کرنے سے قاصر تھے اور ایک طبقہ انہیں اکثر کانگریس پارٹی کی سابقہ صدر سونیا گاندھی کے زیر سایہ چلنے والی قیادت کے طور پر دیکھتا ہے۔
وہ اکثر خاموش رہتے تھے
چنانچہ ایک "خاموش وزیر اعظم" کے طور پر انہیں تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
4. کامیابیاں:
جوہری معاہدہ: امریکہ کے ساتھ سول نیوکلیئر معاہدہ ان کے دور حکومت کی ایک بڑی کامیابی تھی، جس نے بھارت کو جوہری توانائی کے میدان میں ایک نیا مقام دیا۔
معاشی ترقی: ان کے دور میں بھارت کی معیشت نے زبردست ترقی کی، جس کی وجہ سے عالمی سطح پر بھارت کو ایک ابھرتی ہوئی معیشت کے طور پر تسلیم کیا گیا۔
سماجی اصلاحات: مہاتما گاندھی نیشنل رورل ایمپلائمنٹ گارنٹی ایکٹ (MGNREGA) اور دیگر فلاحی پروگرام ان کی حکومت کے نمایاں اقدامات تھے۔
مشرق وسطی کے اہم ملک ایران سے ممضبوط تعلقات
یوں تو مشرق وسطی کا ہر ملک تنوع اور جغرافیہ و قدرتی ذخائر کے اعتبار سے اہم ہے لیکن وہ ملک جو اپنے جائے وقوع قدرتی ذخائر اور قدیم ثقافت مشترکہ تہذیب کی بنیاد پر بہت اہم مانا جاتا ہے ایران ہے ۔
ڈاکٹر منموہن سنگھ کے دورِ وزارتِ عظمیٰ (2004-2014) میں ہندوستان اور ایران کے تعلقات کو خاص طور پر توانائی، تجارت، اور علاقائی استحکام کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان سفارتی اور اقتصادی تعلقات جن شعبوں میں عدیم المثال رہے انہیں یوں بیان کیا جا سکتا ہے
1. توانائی کے تعلقات:
ایران ہندوستان کے لیے توانائی کا ایک اہم ذریعہ رہا ہے، اور ڈاکٹر منموہن سنگھ کے دور میں ایران سے خام تیل کی درآمد ہندوستان کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اہم رہی۔
دونوں ممالک کے درمیان "آئی پی آئی گیس پائپ لائن" (ایران-پاکستان-ہندوستان پائپ لائن) پر مذاکرات ہوئے، لیکن یہ منصوبہ امریکہ کے دباؤ اور دیگر خدشات کی بنا پر مکمل نہ ہو سکا۔
2. چابہار بندرگاہ منصوبہ:
منموہن سنگھ کی قیادت میں ہندوستان نے چابہار بندرگاہ کی ترقی میں دلچسپی ظاہر کی۔ یہ منصوبہ افغانستان اور وسطی ایشیا تک ہندوستان کی رسائی کے لیے اہم تھا ۔جس پر اب بھی کام جاری ہے۔
یہ منصوبہ ایران اور ہندوستان کے درمیان تعاون کی ایک بڑی علامت تھا، جو دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کو مضبوط کرنے کا سبب ہے۔
3. امریکہ اور ایران کا دوراہہ اور متوازن پالیسی
ڈاکٹر منموہن سنگھ کے دور میں ایران پر بین الاقوامی پابندیاں عائد تھیں، خاص طور پر اس کے جوہری پروگرام کی وجہ سے۔
ہندوستان کو ایک طرف ایران کے ساتھ اپنے تاریخی اور اقتصادی تعلقات برقرار رکھنے کی ضرورت تھی، تو دوسری طرف امریکہ کے ساتھ اپنے بڑھتے ہوئے تعلقات کو بھی سنبھالنا تھا۔
ڈاکٹر منموہن سنگھ کی حکومت نے ایک متوازن پالیسی اپنائی، جس کے تحت ایران سے تعلقات کو برقرار رکھتے ہوئے ایک جمہوری مستقل ملک کی پالیسی کے تحت ملکی تعلقات کی سمتوں کی تعیین کی گئی اور معین خطوط پر تعلقات کی گاڑی رواں رہی۔ ہندوستان نے کبھی کوئی ایسی پالیسی اختیارنہیں کی دوست ملک ایران کو شکوہ ہوتا اسکا سبب رہبر انقلاب اسلامی کی ہندوستان کو لیکر خاص توجہ بھی رہی جس کو ڈاکٹر منموہن سنگھ گہرائی سے سمجھتے تھے ۔رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای ہندوستان کو ایک اہم ملک سمجھتے ہیں، خاص طور پر ثقافتی، اقتصادی، اور تاریخی تعلقات کی روشنی میں۔
آیت اللہ خامنہ ای نے کئی مواقع پر مسلمانوں کے مسائل پر ہندوستان کی طرف اشارہ کیا جو انکی ہندوستان پر توجہ کا عکاس ہے آپ نے ہندوستان کے ساتھ تعلقات کو ہمیشہ مثبت اور تعمیری انداز میں برقرار رکھنے کی حمایت کی۔
ڈاکٹر منموہن سنگھ ان تمام حقائق و رموز سےباخبر تھے کہ خطے میں ایران کا کیا اثر ہے اور ایران کے رہبر اعلئ ہندوستان کو لیکر کس مثبت و تعمیری سوچ کے حامل ہیں لہذا انہوں نے بھی ایسی متوازن حکمت عملی اپنائی کہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں کبھی کھٹاس پیدا نہ ہوئی۔
4. ثقافتی اور تاریخی تعلقات:
ڈاکٹر منموہن سنگھ کے دور میں ہندوستان اور ایران نے ثقافتی تعلقات کو مزید فروغ دیا۔ فارسی زبان، صوفی ازم، اور تاریخی روابط دونوں ممالک کے درمیان مضبوط تعلقات کی بنیاد رہے۔
ڈاکٹر منموہن سنگھ اور اقلیتوں کی ترقی کا عزم
سابقہ وزیر اعظم ملک کی اقلیت کو لیکر ہمیشہ فکرمند رہتے تھے اسی لئے ان کے دورِ حکومت (2004-2014) میں سچر کمیٹی کی تشکیل ایک تاریخی قدم قرار پایا، جو ہندوستان میں مسلمانوں کی سماجی، تعلیمی، اور معاشی حالت کا جائزہ لینے کے لیے قائم کی گئی تھی۔ یہ کمیٹی جسے سابقہ چیف جسٹس راجندر سچر کی سربراہی میں 2005 میں تشکیل دیا گیا، بھارتی حکومت کی جانب سے اقلیتوں کی بہبود اور ان کے مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک اہم پیش رفت سمجھی جاتی ہے۔
سچر کمیٹی کے قیام کا مقصد:
سچر کمیٹی کا مقصد ہندوستان کے مسلمانوں کی حالتِ زار کا معروضی تجزیہ کرنا تھا، خاص طور پر تعلیم، ملازمت، صحت، اور سماجی حیثیت کے میدانوں میں۔
کمیٹی نے اقلیتوں کے لیے سرکاری پالیسیوں کی مؤثریت کا جائزہ لیا اور مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک اور ان کے پسماندہ ہونے کی وجوہات کو اجاگر کیا۔
رپورٹ کی پیشکش: 2006 میں کمیٹی نے اپنی رپورٹ پیش کی، جس میں یہ انکشاف کیا گیا کہ ہندوستانی مسلمان سماجی اور معاشی لحاظ سے دلتوں سے بھی زیادہ پسماندہ ہیں۔
پالیسی اقدامات: منموہن سنگھ کی حکومت نے سچر کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں اقلیتوں کی بہبود کے لیے کئی اسکیمیں متعارف کروائیں، جیسے:
1-مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن کی مضبوطی
2-اقلیتی اسکالرشپ اسکیم
3-وزارتِ اقلیتی امور کا قیام (2006)
یہ اقلیتوں کے مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک علیحدہ وزارت تھی، جو سچر کمیٹی کی سفارشات کے تحت قائم ہوئی۔
اہم سفارشات اور ان پر عمل درآمد:
1-تعلیم: مسلمانوں کے تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے لیے مدرسہ تعلیمی نظام کو جدید بنانے اور اسکول چھوڑ کر تعلیم کاسلسلہ رکنے کی شرح کم کرنے کی سفارشات کی گئیں۔
2-روزگار: مسلمانوں کو سرکاری اور نجی شعبوں میں ملازمتوں تک مساوی رسائی فراہم کرنے کی سفارش کی گئی۔
3-سماجی بہبود: مسلمانوں کے لیے بنیادی سہولیات جیسے صحت، پانی، اور رہائش کے شعبوں میں بہتری لانے کے اقدامات تجویز کیے گئے۔
بی جے پی اور دیگر ہندو قوم پرست جماعتوں نے اس کمیٹی کو "فرقہ وارانہ سیاست" کا حصہ قرار دیا اور مسلمانوں کو خصوصی مراعات دینے کی مخالفت کی۔
منموہن سنگھ کا اقلیتوں کے لیے وژن:
ڈاکٹر منموہن سنگھ نے کمیٹی کی رپورٹ کو سنجیدگی سے لیا اور یہ بیان دیا کہ "ہندوستان کی اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں، کی ترقی کے بغیر ملک کی مجموعی ترقی ممکن نہیں۔" ان کے اس وژن کو ہندوستان کے ترقی پسند حلقوں میں سراہا گیا، لیکن عمل درآمد میں بہت رکاوٹیں رہیں۔
سچر کمیٹی منموہن سنگھ کی حکومت کے ایک اہم اور اصلاحی اقدام کے طور پر یاد رکھی جاتی ہے، جس نے ہندوستانی مسلمانوں کی حالت کو واضح کیا اور ان کے مسائل کو حکومت کی پالیسی سازی کے مرکز میں رکھا۔ اگرچہ اس کمیٹی کی سفارشات پر مکمل عمل درآمد نہ ہو سکا، لیکن یہ ہندوستان میں اقلیتوں کی بہبود کی طرف ایک مثبت قدم تھا اور اس نے مسلمانوں کی حالتِ زار پر ایک قومی مکالمے کا آغاز کیا۔
مسلمانوں کو لیکر سابقہ وزیر اعظم کا نظریہ :
ڈاکٹر منموہن سنگھ کا مسلمانوں کے حوالے سے نظریہ ایک جامع، مساوات پر مبنی، اور ترقی پسند سوچ پر مبنی تھا۔ وہ ہندوستان کے تمام شہریوں کو بلا تفریق مذہب مساوی حقوق اور مواقع دینے کے قائل تھے۔ ان کا مسلمانوں کے حوالے سے نظریہ ہندوستان کی سیکولر اقدار کے تحفظ اور اقلیتوں کی ترقی کے لیے پالیسیوں کے نفاذ پر مبنی تھا جن میں حسب ذیل امور قابل غور ہیں ۔
1. مسلمانوں کی ترقی کو قومی ترقی سے جوڑنا:
ڈاکٹر منموہن سنگھ نے مسلمانوں کی سماجی و اقتصادی ترقی کو ہندوستان کی مجموعی ترقی کے لیے ناگزیر قرار دیا۔
ان کا مشہور بیان ہے "ہندوستان کے وسائل پر سب سے پہلا حق اقلیتوں کا ہے" ان کی اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں کے لیے ہمدردانہ رویے کی عکاسی کرتا ہے۔
2. مسلمانوں کی سماجی اور معاشی حالت پر تشویش:
منموہن سنگھ کی حکومت نے مسلمانوں کی حالتِ زار کو سمجھنے کے لیے سچر کمیٹی تشکیل دی، جس نے انکشاف کیا کہ بھارتی مسلمان تعلیمی، معاشی، اور سماجی لحاظ سے بہت پسماندہ ہیں۔
انہوں نے اس کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے اقدامات کیے، جیسے اقلیتی اسکالرشپ اسکیم، تعلیمی اداروں میں سہولتیں، اور روزگار کے مواقع پیدا کرنا۔
3. مساوات اور مواقع کی فراہمی پر زور:
ان کا نظریہ یہ تھا کہ مسلمانوں کو برابری کے مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ وہ معاشی اور سماجی دھارے میں شامل ہو سکیں۔
وہ چاہتے تھے کہ مسلمان نوجوان تعلیمی میدان میں ترقی کریں اور جدید ٹیکنالوجی اور معیشت میں اپنا حصہ ڈالیں۔
4. سیکولر اقدار کا فروغ:
منموہن سنگھ نے ہمیشہ سیکولر اقدار کی پاسداری کی اور ہندوستان کو ایک ایسی قوم کے طور پر آگے بڑھانے کی کوشش کی جہاں تمام مذاہب کے لوگ امن اور ہم آہنگی کے ساتھ رہ سکیں۔
وہ کسی بھی قسم کی فرقہ وارانہ سیاست یا مسلمانوں کے خلاف امتیازی رویے کے سخت مخالف تھے۔
5. مسلمانوں کے لیے تعلیمی اور اقتصادی اصلاحات:
مسلمانوں کے لیے تعلیمی اداروں کی ترقی، اسکالرشپ، اور مدراسہ تعلیم کی اصلاح کے اقدامات کیے گئے۔
معاشی ترقی کے لیے اقلیتوں کو چھوٹے کاروباروں میں مدد فراہم کرنے کی اسکیمیں متعارف کروائی گئیں۔
اردو زبان سے لگاو اور دلچسپی
آج کے اس دور میں جب زبان کو بھی مذہب و مسلک کی عینک سے دیکھا جا رہا ہے ڈاکٹر منموہن سنگھ کی وراثت کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے ۔
ڈاکٹر منموہن سنگھ ایک نرم گو، متین، اور تعلیم یافتہ سیاست دان کے طور پر جانے جاتے ہیں، جن کی تقاریر اور گفتگو اکثر ان کے وسیع مطالعے اور ثقافتی آگاہی کی عکاسی کرتی تھیں۔ اگرچہ ان کی زیادہ تر تقاریر انگریزی یا ہندی میں ہوتی تھیں، لیکن وہ اردو زبان کے اشعار اور ادبی حوالوں کا استعمال بھی کرتے تھے، خاص طور پر جب وہ مختلف ثقافتی یا سفارتی مواقع پر خطاب کر رہے ہوتے تھے۔ ان کا یہ رویہ ان کی حساسیت اور برصغیر کی مشترکہ تہذیبی روایات سے محبت کو ظاہر کرتا تھا۔
اردو اشعار کا استعمال:
منموہن سنگھ نے اپنی تقاریر میں اردو شاعری کا استعمال نہایت خوبصورتی سے کیا، تاکہ اپنی بات کو زیادہ موثر بنا کر سامعین کے دلوں میں گھر بنایا جا سکے۔
ان کے اردو اشعار اکثر امن، بھائی چارے، اور انسانی اقدار کے فروغ پر مبنی ہوتے تھے۔
غالب، اقبال، اور فیض احمد فیض جیسے مشہور شاعروں کے اشعار ان کے پسندیدہ رہے، اور وہ ان کا حوالہ دے کر سامعین کو متاثر کرتے تھے۔
ہندوستانی تہذیب کی نمائندگی:
اردو اشعار کے ذریعے وہ ہندوستان کی مشترکہ تہذیب اور گنگا-جمنی ثقافت کی نمائندگی کرتے تھے۔
ان کے لیے اردو محض ایک زبان نہیں، بلکہ اتحاد، ہم آہنگی، اور ادب کی علامت تھی۔
اردو اشعار کے ذریعے سفارتی روابط:
بین الاقوامی تقریبات یا دیگر ممالک کے رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتوں میں بھی وہ اردو کے اشعار کا استعمال کر کے تعلقات کو گہرا اور ثقافتی طور پر مربوط بنانے کی کوشش کرتے تھے۔
جب ہندوستان میں اقلیتوں کی شراکت داری اور بھائی چارے کی بات کرتے تھے، تو علامہ اقبال کے اس شعر کا حوالہ دینا ان کا خاص انداز تھا:
"مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم، وطن ہے ہندوستان ہمارا"
قومی یکجہتی یا انسانی اقدار پر بات کرتے ہوئے فیض کا یہ شعر بھی ان کی تقریروں کا حصہ بنتا تھا:
"اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا"
اردو ادب سے محبت:
منموہن سنگھ کی اردو زبان اور ادب سے محبت ان کی ذاتی شخصیت کا حصہ تھی۔ وہ اردو کو ہندوستان کی ثقافتی وراثت کا ایک قیمتی جزو سمجھتے تھے اور چاہتے تھے کہ یہ زبان قومی سطح پر پروان چڑھے۔
منموہن سنگھ کا اردو اشعار کا استعمال ان کے اعلیٰ ذوق اور تہذیبی شعور کا مظہر تھا۔ ان کی یہ عادت انہیں نہ صرف ایک سیاست دان بلکہ ایک حساس اور مہذب انسان کے طور پر بھی ممتاز کرتی ہے۔ ان کا اردو اشعار کے ذریعے اپنی بات کو واضح اور مؤثر بنانا سامعین کے دلوں پر دیرپا اثر چھوڑتا تھا۔
ڈاکٹر منموہن سنگھ کا اردو اشعار کا برمحل استعمال ان کی اعلیٰ تعلیمی قابلیت، تہذیبی فہم، اور موثر ابلاغ کی مہارت کا مظہر تھا۔ وہ اکثر اپنی تقاریر میں اشعار کا استعمال سامعین سے جذباتی تعلق قائم کرنے، اپنی بات کو زیادہ خوبصورتی اور گہرائی سے پیش کرنے، اور بھارت کی گنگا-جمنی تہذیب کو اجاگر کرنے کے لیے کرتے تھے۔ ذیل میں ان کے اشعار کے برمحل استعمال کی کچھ نمایاں مثالیں قابل غور ہیں:
قومی یکجہتی ، سیکولرازم، بقاء باہمی اور رواداری
منموہن سنگھ نے ہندوستان کی کثرت میں وحدت اور قومی یکجہتی پر زور دیتے ہوئے اردو اشعار کا سہارا لیا۔ مثلاً:
امن اور بین الاقوامی تعلقات کے سلسلہ سےپاکستان یا دیگر ممالک کے ساتھ امن اور دوستی پر بات کرتے ہوئے، انہوں نے فیض احمد فیض کے اس شعر کا حوالہ دیا:
"چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی"
یہ شعر اس وقت استعمال کیا گیا جب وہ مذاکرات کے ذریعے مسائل کے حل پر زور دے رہے تھے۔
اقلیتوں کی فلاح و بہبود کے مواقع پر خاص کر سچر کمیٹی رپورٹ کی پیشکش کے وقت، مسلمانوں کی پسماندگی کو دور کرنے کے لیے انہوں نے ترقی اور روشنی کے موضوع پر بات کرتے ہوئے غالب کا یہ شعر استعمال کیا:
"ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارماں لیکن پھر بھی کم نکلے"
یہ شعر مسلمانوں کی حالت کو بہتر بنانے کی ان کی حکومت کی عزم کو اجاگر کرتا تھا اسی طرح چیلنجز اور جدوجہد کے مواقع پر معاشی یا سیاسی چیلنجز پر گفتگو کرتے ہوئے وہ میر تقی میر کے اس شعر کو استعمال کرتے تھے:
"ابتدا ہی میں مر نہ جاتا کوئی
عشق کا حوصلہ اگر ہوتا"
یہ شعر جدوجہد کے عزم اور مشکلات سے نمٹنے کے لیے حوصلہ افزائی کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔
ہندوستان کی ثقافتی وراثت کے اظہار کے لیے بھی انہوں نے اردو اشعار کا بر محل استعمال کیا
ڈاکٹر منموہن سنگھ ہمیشہ ہندوستان کی مشترکہ ثقافتی وراثت کو اجاگر کرنے کے لیے اردو شاعری کا حوالہ دیتے تھے۔ ایک بار، ہندوستان کی تہذیبی وراثت پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا:
"خدا کے بندے تو ہیں ہزاروں، بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا"
یہ اشعار ہندوستان میں انسان دوستی اور ہم آہنگی کی اہمیت کو اجاگر کرتے تھے۔
جب ہندوستان کے معاشی سفر اور جدوجہد کی بات ہوتی، تو وہ جوش ملیح آبادی یا اقبال کے اشعار استعمال کرتے:
"ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں"
یہ اشعار ہندوستان کے ترقی کے عزائم اور بہتر مستقبل کی امید کا اظہار تھے۔
المختصر ڈاکٹر منموہن سنگھ نے اردو اشعار کو نہایت دانشمندی اور فنکاری سے اپنی تقاریر میں شامل کیا، جو ان کے گہرے ادبی ذوق اور پیغام رسانی کی صلاحیت کی عکاسی کرتا ہے۔ ان کا یہ انداز نہ صرف ان کے سامعین کو متوجہ کرتا تھا بلکہ ان کی بات میں گہرائی اور اثر بھی پیدا کرتا ہے
انکا نظریہ مسلمانوں کے لیے ترقی پسند اور اصلاحاتی تھا، جو مساوات، سماجی انصاف، اور اقلیتوں کی شمولیت پر مبنی تھا۔ اگرچہ ان کی نیک نیتی اور وژن کو سراہا گیا، لیکن عملی سطح پر ان کے کئی منصوبے مکمل طور پر کامیاب نہ ہو سکے۔ پھر بھی ان کا دور حکومت مسلمانوں کے لیے امید کی ایک کرن سمجھا جاتا تھا، خاص طور پر ان کی تعلیمی اور معاشی حالات بہتر کرنے کی کوششوں کی وجہ سے۔
منموہن سنگھ کی شخصیت ایک غیر معمولی معیشت دان اور دیانت دار سیاستدان کی تھی، ان کے دور کو ہندوستان کی تاریخ میں معاشی ترقی اور سیاسی تنازعات دونوں کے لیے یاد رکھا جائے گا۔
آپ کا تبصرہ