حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، انقلاب اسلامی کی نشیب و فراز سے بھرپور تاریخ، دفاعِ مقدس کے دور اور دیگر میدانوں میں خواتین کے قیمتی کردار کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ جنہوں نے ہمیشہ مردوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر اس عظیم انقلاب کی کامیابی اور بقا کے لیے کوشش کی۔
بلا شبہ انقلاب اسلامی نے خواتین کو سائیڈ پر نہیں رکھا بلکہ انہیں سماجی اور سیاسی تحولات کے مرکزی منظرنامے میں لا کھڑا کیا اور اہم ترین ذمہ داریاں انقلابی خواتین کے سپرد کیں۔
معاشرے کا نصف حصہ یعنی خواتین سماجی رجحانات کی تشکیل میں براہِ راست کردار ادا کرتی ہیں اور جس طرح معاشرے کے باقی پچاس فیصد مرد ہیں، خواتین اپنے بالواسطہ اور اثرانداز کردار کے ذریعے ان پر بھی اثر ڈالتی ہیں۔ لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ سماجی اور سیاسی تحریکوں کی سو فیصد حرکتیں، جن میں انقلاب اسلامی بھی شامل ہے، براہِ راست یا بالواسطہ طور پر خواتین کے کردار سے متاثر رہی ہیں اور ہیں۔
اسی مناسبت سے ہم نے دینی اور ثقافتی امور میں فعال خاتون محترمہ سمیہ سلیمی سے گفتگو کی تاکہ انقلاب اسلامی کی پاسداری اور نظامِ اسلامی کے تحفظ میں خواتین کے کردار کا جائزہ لیا جا سکے۔

انہوں نے اپنی گفتگو کے دوران کہا: مختلف میدانوں میں خواتین کے کردار بالخصوص سماجی اور ثقافتی شعبوں میں اور اسی طرح کھیلوں کے میدان میں ان کی فعالیت، نہ صرف انقلاب اسلامی اور ہماری اسلامی اقدار سے متصادم نہیں بلکہ بعض سطحی تصورات کے برعکس ہماری دینی روایات اور مذہبی مبانی بھی کبھی خواتین کی سماجی موجودگی اور فعالیت کے مخالف نہیں رہے۔
محترمہ سمیہ سلیمی نے مزید کہا: خواتین لباس، گفتار اور کردار میں درست نمونوں کے انتخاب کے ذریعے اپنے معاشرے کی سب سے فعال اور مؤثر شخصیات بن سکتی ہیں۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ حالیہ برسوں میں ہم اس کامیاب موجودگی کے واضح مناظر دیکھ رہے ہیں؛ چاہے وہ منتظمین میں ہوں یا جامعات کی اساتذہ میں یا علمی، ثقافتی اور ورزشی میدانوں کی ممتاز خواتین میں، جنہوں نے وقار اور صلاحیت کے ساتھ شاندار کارکردگی دکھائی ہے۔

انہوں نے کہا: کوئی بھی معاشرہ اسی وقت مثبت اور پائیدار اثرات مرتب کر سکتا ہے جب ایک صحت مند خاندان اور اس کی نشوونما کے لیے مناسب ماحول فراہم ہو؛ خاندان کی صحت درحقیقت سماجی صحت کی بنیاد ہے۔ اس نظم و نسق کے منتظم، مفکر اور محور اکثر خود خواتین ہوتی ہیں؛ خاندان کے تحفظ اور گھر کے روزمرہ امور کی انجام دہی میں ان کا کردار ناقابلِ انکار ہے۔ خواتین کی مصروفیات، ضروریات اور ذمہ داریاں قابلِ غور اور قابلِ احترام ہیں۔
دینی اور ثقافتی امور میں فعال اس خاتون نے کہا: جب عورت کی انفرادی، زوجی اور سماجی شناخت کو درست طور پر پہچانا اور مضبوط کیا جائے تو اس کی سماجی موجودگی کا حتمی نتیجہ «انسان سازی» ہوتا ہے؛ یہ وہ عظیم ترین ذمہ داری ہے جو تخلیق میں عورت کے سپرد کی گئی ہے کیونکہ عورت اپنی کثیر جہتی صلاحیت کے ذریعے روح، ذہن اور جسم کی بہترین انداز میں رہنمائی کر سکتی ہے۔









آپ کا تبصرہ