۵ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۵ شوال ۱۴۴۵ | Apr 24, 2024
حجاب

حوزہ/سری لنکا میں مسلمانوں کو اقلیت میں ہونے کی وجہ سے ایک اور پابندی کا سامنا کرنا پڑے گا اور وہاں کے حکومتی وزیر نے کہا ہے کہ برقع پہننے پر پابندی ہوگی اور ہزار سے زائد اسلامی اسکولز کو بند کردیا جائے گا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،نیوزی لینڈ اور فرانس کے بعد سری لنکا بھی 'برقع' پر پابندی عائد کرنے کی دوڑ میں شامل ہونے جارہا ہے۔ سری لنکا برقع پہننے اور ایک ہزار سے زائد اسلامی اسکولوں پر پابندی عائد کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ حکومت کے ایک وزیر نے ہفتے کے روز اس بارے میں معلومات دی۔ سری لنکا کی حکومت کے ان اقدامات سے ملک کی اقلیتی مسلم آبادی متاثر ہوگی۔

ہفتہ کو وزیر برائے عوامی تحفظ سارتھ ویراسکیرا نے ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ انہوں نے ’قومی سلامتی‘ کی بنیاد پر کچھ مسلمان خواتین کی جانب سے مکمل چہرہ ڈھانپنے پر پابندی کی کابینہ سے منظوری کے لیے جمعہ کو ایک کاغذ پر دستخط کیے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے آغاز کے دنوں میں مسلم خواتین اور لڑکیاں کبھی برقع نہیں پہنتی تھیں، تاہم حال ہی میں یہ دیکھنے میں آیا ہے جو ’مذہبی انتہا پسندی‘ کی نشانی ہے اور ہم اس پر یقینی طور پر پابندی عائد کرنے جارہے ہیں۔

واضح رہے کہ سال 2019 میں گرجا گھروں اور ہوٹلز پر عسکریت پسندوں کی جانب سے دھماکوں کے بعد بدھ مت کے اکثریتی ملک میں برقع پہننے پر عارضی پابندی عائد کردی گئی تھی۔

بعد ازاں اسی سال کے آخر میں بطور سیکریٹری دفاع ملک کے شمالی حصے میں دہائیوں سے جاری شورش کا خاتمہ کرنے پر جانے جانے والے گوٹابایا راجاپاکسا عسکریت پسندی کے خلاف کارروائیوں کے وعدے کے بعد صدر منتخب ہوگئے تھے۔

گوٹابایا راجاپاکسا پر جنگ کے دوران انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزی کا الزام تھا تاہم وہ ان الزامات کو مسترد کرتے آئے ہیں۔

سارتھ ویراسکیرا کا کہنا تھا کہ حکومت کا ہزار سے زائد مدرسہ اسلامک اسکولوں پر پابندی کا بھی ارادہ ہے جو ان کے بقول قومی تعلیمی پالیسی کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کوئی اسکول نہیں کھول سکتا اور بچوں کو جو مرضی چاہے پڑھا نہیں سکتا۔

یہاں یہ واضح رہے کہ حکومت کی جانب سے برقع اور اسلامک اسکولوں پر پابندی کا منصوبہ گزشتہ سال جاری کیے گئے اس حکم کے بعد سامنے آیا جس میں کووڈ 19 سے مرنے والے مسلمانوں کی میت کو جلانا لازمی قرار دیا گیا تھا۔

تاہم امریکا اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے گروہوں کی جانب سے شدید تنقید کے بعد رواں سال اس پابندی کو ہٹا دیا گیا تھا۔

خیال رہے کہ اس سے قبل چند یورپی ممالک میں مسلمانوں خاص طور پر خواتین کے نقاب پر پابندی کے لیے کوششیں کی گئی تھیں۔

حال ہی میں یورپی ملک سوئٹزرلینڈ میں عوامی مقامات پر چہرے کو مکمل ڈھانپنے پر پابندی سے متعلق تجویز کی حمایت کی گئی تھی۔

اس سلسلے میں ہونے والے ریفرنڈم میں سرکاری نتائج کے مطابق 51.21 فیصد رائے دہندگان اس تجویز کی حمایت کی تھی۔

واضح رہے کہ 2019 میں ایسٹر کے موقع پر گرجا گھروں اور ہوٹلوں پر خود کش حملے میں سیکڑوں افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ ایک حملہ آور خاتون نے نقاب لگایا ہوا تھا جس کے بعد ملک بھر میں نقاب پہننے پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔

سری لنکا کے پبلک سکیورٹی کے وزیر سارتھ ویراسکیرا نے سنیچر کو کہا کہ ’برقع سری لنکا کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔‘

رپورٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’برقع براہِ راست ہماری سلامتی پر اثرانداز ہو رہا ہے۔‘

’ یہ (لباس) حال ہی میں سری لنکا آیا اور یہ اُن کی مذہبی انتہا پسندی کی علامت ہے۔‘

پبلک سکیورٹی کے وزیر کا کہنا ہے کہ ’انہوں نے برقعے پر پابندی کی دستاویزات پر دستخط کر دیے ہیں تاہم ابھی کابینہ اور پارلیمنٹ سے اس کی منظوری ہونا باقی ہے جہاں حکومت کو دو تہائی اکثریت حاصل ہے۔‘

یاد رہے کہ سری لنکا میں اپریل 2019 میں مقامی جہادیوں نے تین گرجا گھروں میں بم دھماکے کیے تھے جس کے نتیجے میں 279 افراد ہلاک جبکہ 500 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔

دہشت گردی کے ان واقعات کے بعد حکومت نے عارضی طور پر ملک میں برقع پہننے پر پابندی عائد کر دی تھی۔

بدھ مت کے اکثریتی ملک سری لنکا کی دو کروڑ 10 لاکھ آبادی میں مسلم اقلیت کا تناسب 10 فیصد ہے اور یہاں عام طور پر برقع زیادہ نہیں پہنا جاتا۔  

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .