۱۳ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۳ شوال ۱۴۴۵ | May 2, 2024
سلام فرمانده

حوزہ/ہمیں اپنے سماج میں ایسے ثقافتی امور کو انجام دینے کی ضرورت ہے جس کے ذریعہ معاشرہ کے تمام افراد خصوصاً نئی نسل کے دلوں میں امام زمانہ(عج) کی یاد زیادہ سے زیادہ زندہ رہ سکے۔

از قلم: مولانا سید عباس مہدی حسنی (قم-ایران)

حوزہ نیوز ایجنسیحالیہ دنوں میں ہم سب نے ایک ایسا ترانہ سنا جس کے سننے سے ہمارے دلوں میں اپنے زمانے کے امام(عج) کی ایسی یاد تازہ ہوئی کہ دل بے اختیار آپ کی طرف و الہانہ انداز میں مجذوب ہوتے چلے گئے۔ اس ترانے کو سن کر نہ جانے کتنی معصوم اور ننھی ننھی آنکھوں سے بھی اشک شوق جاری ہوئے اور دشمنوں کے دل جل کر رہ گئے۔

آخر اس ترانہ میں ہم سب کے لئے کیا پیغام ہو سکتا ہے اس مختصر تحریر میں یہی بتانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ذیل میں بعض اہم پیغام کی جانب اشارہ کیا جا رہا ہے:

  • ہمیں اپنے سماج میں ایسے ثقافتی امور کو انجام دینے کی ضرورت ہے جس کے ذریعہ معاشرہ کے تمام افراد خصوصاً نئی نسل کے دلوں میں امام زمانہ(عج) کی یاد زیادہ سے زیادہ زندہ رہ سکے۔
  • اپنے فرائض کی ادائگی کے لئے امام زمانہ (عج)سے عہد کرنا۔
  • امام (عج)کے ظہور کے لئے خود کو تیار کرنا اور ہر وقت آپکی اطاعت کیلئے سراپا تسلیم رہنا۔
  • حاج قاسم جیسے شہیدوں کو اپنے لئے نمونہ عمل قرار دینا۔
  • دینی غیرت رکھنے والی نسل کی ہمہ جہت تربیت کے لئے حتی المقدور میدان فراہم کرنا۔
  • وقت امام وقت(ع) کو ہمیشہ اپنی دعاؤں میں یاد رکھنا۔
  • اس ترانہ سے استکباری اور استعماری طاقتوں کی ناراضگی اور اسکے خلاف بیان بازی یہ بتا رہی ہے کہ تیر اپنے نشانہ پر لگا ہے۔
  • اس ترانہ کا ایک پیغام یہ ہو سکتا ہے کہ ہمیں اپنے فن اور ہنر کا استعمال دینی اقدار کی ترویج کے لئے کرنا چائیے۔
  • ہمیں امام (ع) کے حضور مستقل طور سے اپنی والہانہ عشق و محبت اور بے تابی کا اظہار اور اپنی نصرت کا اعلان کرتے رہنا چاہئے۔
  • امام (ع)کے برحق نائب رہبر انقلاب کی آواز پر لبیک کہنا چاہئے۔
  • اس ترانہ کی معجزنما تاثیر یہ بتارہی ہے کہ جیسے اس پر امام (ع)کی خاص عنایت ہو۔
  • سلام فرماندہ کا ایک پیغام یہ ہے کہ ترانہ ہی سہی لیکن اگر اخلاص کے ساتھ ہو تو اللہ اسے عالمی مقبولیت عطا کر سکتا ہے۔
  • اس ترانہ کا ایک اہم پیغام یہ ہے کہ معاشرہ میں امید زندہ ہے اور عالم بشریت اپنی ہدایت اور نجات کیلئے مھدی دوراں کی منتظر ہے۔

اللہم عجل لولیک الفرج

تبصرہ ارسال

You are replying to: .