۲۶ شهریور ۱۴۰۳ |۱۲ ربیع‌الاول ۱۴۴۶ | Sep 16, 2024
منظوم ولایتی

حوزہ/ جب میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں میرے سامنے میز پر ایک کتاب پڑی ہے، جس کا نام " درختِ صحرا" ہے۔ جسے ڈاکٹر جواد حیدر ہاشمی نے ترتیب و تدوین کی ہے، یہ بہت ہی دلچسپ کتاب ہے، راقم نے جستہ جستہ دو نشستوں میں کتاب کا مطالعہ کیا ہے۔ اب قارئین کو کیوں کر الجھائیں؟ کتاب سے متعلق قدرے تفصیل سے دیکھ لیجئے۔

تحریر: منظوم ولایتی

حوزہ نیوز ایجنسی| جب میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں میرے سامنے میز پر ایک کتاب پڑی ہے، جس کا نام " درختِ صحرا" ہے۔ جسے ڈاکٹر جواد حیدر ہاشمی نے ترتیب و تدوین کی ہے، یہ بہت ہی دلچسپ کتاب ہے، راقم نے جستہ جستہ دو نشستوں میں کتاب کا مطالعہ کیا ہے۔ اب قارئین کو کیوں کر الجھائیں؟ کتاب سے متعلق قدرے تفصیل سے دیکھ لیجیئے۔

کتاب"درختِ صحرا" اور پروفیسر مولانا غلام حسین سلیم کی شخصیت پر ایک نظر

عرض یہ ہے کہ یہ کتاب پاکستان کے شمال میں واقع جنت نظیر خطہ گلگت بلتستان کے بلتستان ڈویژن کے ضلع کھرمنگ کی وادی پاری سے تعلق رکھنے والے نامور خطیب اور سیاسی و سماجی شخصیت مولانا پروفیسر غلام حسین سلیم مرحوم کی سوانحِ حیات پر مشتمل ہے۔ پروفیسر غلام حسین سلیم صاحب مرحوم کو کون نہیں جانتا ہے۔ آپ کے نام سے ایک دنیا واقف ہے۔

آپ کے قوتِ بیان کی سحر انگیِزی دیکھنی ہو تو سوشل میڈیا پر زیرِ گردش ایک دو ویڈیو کلپس کو ہی سن لیجیے۔ اندازہ ہو جائے گا کہ آپ کے اندازِ بیان، طرزِ استدلال اور بالغانہ فکر کے ابلاغ کی شانِ رفعت کہاں تک سر چڑھ کر بولتی تھی۔

اب آتے ہیں "درختِ صحرا" کی طرف، یہ کتاب پچھلے سال یعنی ٢٠٢٣ء کو شایع ہوئی ہے۔ البتہ مطبع کتاب میں درج نہیں۔ کتاب کا نام مرحوم پروفیسر غلام حسین سلیم صاحب ہی کے اِس شعر سے لیا گیا ہے جو سرِ ورق پر تحریر ہے:

نظر ہے ابرِ کرم پر، درختِ صحرا ہوں

کیا خدا نے نہ محتاجِ باغباں مجھ کو

سکردو میں " درختِ صحرا" کی تقریبِ رونمائی کا ہم سب کو پتہ ہے کہ جہاں بلتستان بھر سے علماء و سرکردگانِ قوم وملت نے شرکت کر کے مرحوم کی زندگی کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالی اور کئی افراد کے انٹرویوز بھی ہم نے سن رکھا ہے۔

کتاب بڑی ضخیم اور ۵۵٨ صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ بات بھی یاد رہے کہ سوانحِ حیات، جسے خود پروفیسر غلام حسین سلیم صاحب نے ضبطِ تحریر میں لایا تھا وہ کتاب کے 64 صفحے تک ہے۔ جس میں آپ نے اپنے خاندانی پس منظر، ابتدائی تعلیم و تربیت، اعلیٰ تعلیم کیلئے کراچی روانگی، بڑا مقابلہ بڑی کامیابی، عراق میں وظیفہ کی پیشکش، فیصلہ کن موڑ، تعلیمی ریکارڈ، تنظیم ملازمین بلتستان، ١٩٧١ء کی جنگ میں بلتستان میں کیا ہوا؟ مفتی جعفر حسین مرحوم کا دورہ بلتستان، ذولفقار علی بھٹو کا دورہ بلتستان، لیکچرر شپ سے استعفٰی، ایران روانگی اور واپسی، انجمنِ تحفظِ حقوقِ بلتستان، انجمنِ امامیہ سکردو کی تشکیل، انتخابات اور انتخابی سیاست اور سانحہ ١٩٨٨ء جیسے موضوعات پر قلم فرسائی کی ہے۔

باقی کتاب کا بیشتر حصہ مرحوم کی زندگی کے مختلف گوشوں کے بارے میں مختلف اہلِ علم و دانش جس میں علماء، شعراء، ادباء اور سیاسی حضرات شامل ہیں، کے مقالات و مضامین پر مشتمل ہے، جنہوں نے مرحوم کی وفات کے بعد خصوصی طور پر تعزیتی ریفرنسز کیلئے لکھا ہے جسے مرحوم کے فرزند ارجمند محترم ڈاکٹر جواد حیدر ہاشمی صاحب نے کتاب کا حصہ بنایا ہے اور بہت اہم کام انجام دیا ہے۔

مزید اینکہ کتاب کے ایک حصے میں مرحوم پروفیسر غلام حسین سلیم کی مجالسِ حسینی اور مختلف مناسبتوں میں ان کے خطبات بھی شامل ہیں، جس میں چھے مجالس، جشنِ صادقین ع ، مقامِ امامت، جشنِ عید غدیر بمقام مکہ مکرمہ، نوجوان، بیداری، اتحاد، علامہ مفتی جعفر حسین، احیاء افکار شہید حسینی سیمینار قم سے خطاب کا متن اور یادگار چوک سکردو پر عوامی استقبالیہ اجتماع سے خطاب کا متن شامل ہے۔

"منتخب کلامِ سلیم" کے عنوان سے مرحوم کے ہی مقالات اور مضامین کا بھی ایک حصہ ہے۔ جس کے موضوعات کچھ یوں ہیں:

اسلام اور حقوقِ نسواں، حضرت علیؑ بحیثیت قائد حزبِ اختلاف، علامہ شیخ غلام محمد رح ایک ہمہ گیر شخصیت، دین اسلام کا نظریہ سیاست اور انقلاب اسلامی ایران، گولڈن جوبلی _ استحکام پاکستان اور شمالی علاقہ جات اور پیغام برائے مجلہ معراج ادب۔

بلتستان کی جن شخصیات اور اہلِ قلم نے مولانا پروفیسر غلام حسین سلیم کی شخصیت کے مختلف گوشوں سے متعلق مقالات اور مضامین لکھے ہیں اور جو اِس کتاب کا حصہ ہیں ان میں یہ افراد شامل ہیں: علامہ شیخ محمد جواد حافظی، محمد حسن حسرت، محمد قاسم نسیم، فدا محمد ناشاد، احسان علی دانش، اخوند حکیم، محمد علی عزیِزی، شیخ محمد علی ممتاز ،سید سجاد علی اطہر، سکندر علی بہشتی، تقی اخونزادہ، امتیاز صادقی، آغا مجتبٰی زمانی، شبیر احمد شگری اور محمد شریف کرار۔

کتاب میں مجالسِ ترحیم اور تعزیتی ریفرنسز کی رپورٹس کے علاوہ مختلف شعبہ ہائے زندگی کے افراد کی طرف سے مرحوم کی رحلتِ جاں گداز پر بھیجیے ہوئے تعزیتی بیانات و تعزیت نامے بھی شامل ہیں۔ اسی طرح کتاب کے آخر میں تصویری البم بھی شامل ہے۔

اب یہ بات کہ کتاب کا نام " درختِ صحرا" رکھنے کی وجہ تسمیہ کیا ہے؟ اس سوال سے متعلق کتاب کے مرتِّب و مدوِّن اور مرحوم کے فرزند ارجمند ڈاکٹر جواد حیدر ہاشمی صاحب کے قلم سے جواب پیشِ خدمت ہے، کہ ڈاکٹر صاحب مقدمہ میں یوں رقمطراز ہیں: "جہاں تک کتاب کا نام " درختِ صحرا" ہے تو اِس کا نام مرحوم والد محترم نے خود تجویز فرمایا تھا اور پھر جہاں تک اِس کی وجہ تسمیہ کا تعلق ہے تو اس کا سبب درخت صحرا کا والد محترم کی زندگی کے مفہوم سے جہاں تعلق اور شباہت ہے۔درخت صحرا کا عنوان اپنے اندر ایک انمول اور لازوال داستان سموئے ہوئے ہے، یہ اصل میں بہت سے ناگفتہ بہ حالات اور مسائل کو از خود بیان کر رہا ہے جن سے مرحوم والد محترم اپنے زمانے میں دوچار رہے"۔

مزید برآں اینکہ راقم الحروف، اِس حوالے سے ڈاکٹر جواد حیدر ہاشمی صاحب کا خاص طور پر از تہہ دل شکریہ ادا کرتا ہوں کہ جنہوں نے راقم کو بھی جب کتاب "درختِ صحرا" کی سکردو میں تقریب رونمائی منعقد ہورہی تھی تو خصوصی دعوت نامہ بھی بھیجا تھا لیکن راقم نے ملک سے باہر ہونے کی وجہ سے شرکت سے عذرخواہی کی تھی۔

ہماری اللہ تعالٰی کے حضور دعا ہے کہ مالک مرحوم مولانا پروفیسر غلام حسین سلیم کو جنت فردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور جیسا ڈاکٹر صاحب نے لکھا ہے حضرت صدیقہ طاہرہ حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا اور سالار شہیدان حضرت امام حسین علیہ السلام سے خصوصی عقیدت رکھا تھا، انہیں دو شخصیات کے طفیل ان کی قبر کو جنت کا ایک باغ بنا دے۔

مرحوم کی عقیدتِ اہلبیت رسول ؐ کے حوالے سے ہی " مودّت و عشق اہل بیت ع" کے عنوان سے ڈاکٹر صاحب نے جو واقعہ اور اشعار لکھے ہیں, انہیں پیش کر کے راقم قارئین سے اجازت چاہتا ہوں۔

کتاب کے صفحہ ٢٠ پر آپ لکھتے ہیں: " مجھے یاد ہے جب میں نے ایک منقبت لکھی اور تصحیح کے لیے آپ کو دکھائی تو آپ نے اس منقبت کو پڑھ کر میری حوصلہ افزائی تو فرمائی ہی، لیکن اس منقبت کے ایک بیت کو پڑھ کر آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور چند بار یہی دہراتے رہے اور اشک بہاتے رہے:

کوئی جو پوچھے کہ ہے کون ساقی کوثر

نبیؐ کے قول سے تم مرتضیؑ کی بات کرو

سمجھنا چاہو اگر کون اہل بیتؑ میں ہیں

بقیع میں بیٹھ کے اہلِ کساؑ کی بات کرو

مقامِ عصمتِ کبری کا تذکرہ جب ہو

زبان کو دے کے وضو، سیداؑ کی بات کرو

یہ اٹھارہ ابیات پر مشتمل پوری ایک منقبت ہے۔جس میں سے سیدہؑ کے تذکرے پر مشتمل مذکورہ بالا بیت پر جب پہنچے تو کافی دیر تک اسی کو دہراتے ہوئے اشک بہاتے رہے۔یہ یقینا جناب سیدہ طاہرہ صدیقہ کبری سلام اللہ علیہا کے ساتھ شدید مودت کی وجہ سے تھا"۔

خدا رحمت کند این عاشقانِ پاک طینت را

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .