تحریر: ابو ثائر مجلسی
وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَاهُ بِهَا وَلَٰكِنَّهُ أَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ وَاتَّبَعَ هَوَاهُ ۚ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ الْكَلْبِ إِن تَحْمِلْ عَلَيْهِ يَلْهَثْ أَوْ تَتْرُكْهُ يَلْهَث ۚ ذَّٰلِكَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا ۚ فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ (سورة الاعراف - آیت 176) اور اگر ہم چاہتے تو ان آیتوں کی برکت سے اس کا رتبہ بلند کرتے لیکن وہ دنیا کی طرف مائل ہو گیا اور اپنی خواہش کے تابع ہو گیا، اس کا تو ایسا حال ہے جیسے کتا، اس پر تو سختی کرے تو بھی ہانپے (زبان نکالے) اور اگر چھوڑ دے تو بھی ہانپے، یہ ان لوگوں کی مثال ہے جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا، پس آپ انہیں یہ حکایتیں سنا دیجئے کہ شاید وہ فکر کریں۔
حضرت امام رضا علیہ السلام سے منقول ہے کہ یہ آیت بلعم باعور کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ اسے اسم اعظم کا علم دیا گیا تھا جس سے اس کی دعائیں قبول ہوتی تھیں۔ جب فرعون حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کی طلب میں نکلا تو فرعون نے بلعم باعور سے کہا: موسیٰ علیہ السلام کے خلاف دعا کرو۔ بلعم باعور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تعاقب میں نکلنے کے لیے اپنے گدھے پر سوار ہوا لیکن گدھے نے ساتھ نہ دیا اور اسم اعظم بھی ذہن سے نکل گیا۔ (تفسیر الکوثر)
مفسرین و محدثین کو اختلاف ہے کہ یہ آیت کس کے بارے میں نازل ہوئی۔ بعض کے نزدیک امیہ بن ابی صلت ہے۔ بعض کے نزدیک عامر بن نعمان راہب ہے۔ لیکن حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ اس آیت کا اصل شان نزول بلعم باعورا کے بارے میں ہے۔ (مجمع البیان)۔
وَلَوْ شِئْنَا : اگر ہم چاہتے۔ اللہ کی مشیت ہے۔ اس کی مشیت حکمت و مصلحت کے تحت ہوتی ہے۔ اس شخص نے اگر اپنے علم پر عمل کیا ہوتا تو اس کا رتبہ بلند ہونا تھا۔ مگر اس نے بد عمل ہو کر اپنے آپ کو گرا دیا اور زمین بوس ہو گیا۔ جب علم رکھنے والا خواہش پرست اور دنیا دار ہو جاتا ہے تو اس کی مثال کتے کی سی ہو جاتی ہے کہ وہ اپنے مزاج اور طبیعت میں لچک نہیں رکھتا، اسے نصیحت کرو یا اسے اپنی حالت پر چھوڑ دو، وہ قابل ہدایت نہیں ہوتا۔ یعنی اس کی حرص و ہوس کی آتش بجھنے والی نہیں ہے (تفسیر الکوثر)
بلعم باعورا کون تھا اور اس نے کیا کیا تھا ؟؟؟
بلعم باعورا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دور کا ایک عالم تھا جس کو خدا نے بہت سے فیوضات سے نوازا تھا ۔ اپنے زمانے کا عابد پرہیزگار اور صاحب علم یہاں تک کہ مستجاب الدعوۃ یعنی جب وہ خدا کی بارگاہ میں جب دعا کرتا تھا تو اس کی دعائیں قبول ہو جاتی تھیں ۔ بلعم باعورا کو خداوند متعال نے یہ تمام فیوضات اس لیے دیے تھے کہ اس نے اسم اعظم الھی کو درک کیا تھا اسی وجہ سے اس کی دعائیں بھی قبول ہو جاتی تھیں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اسے تبلیغ دین کے لیے اور لوگوں کی ہدایت کے لیے مدین یا بنی کنعان بھیجا تھا اور پھر وہ جا کر وہی ساکن ہوگیا تھا اور لوگوں کو دین الھی کی جانب دعوت دیتا رہا بلعم باعورا اپنے علم اور کرامات کی وجہ سے لوگوں میں بہت مشھور ہوچکا تھا یہاں تک کہ لوگ دور دراز سے اپنے مسائل کے حل کے لیے بعلم باعورا کے پاس آتے تھے۔
ایک دن اس کے شھر کے ساکنین اور حکومتی کارندے اس کے پاس آئے اور انہوں ایک درخواست کی وہ درخواست یہ تھی کہ حضرت موسیٰ اور اس کے لشکر والے کہ جن کی تعداد ہزاروں میں ہے وہ ہماری جانب آرہے ہیں اور وہ لوگوں کو موسیٰ کے دین کی طرف بلانا چاہتے ہیں اور بیت المقدس پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں اور ہماری حکومت کو سرنگون کرنا چاہتے ہیں لھذا آپ سے گزارش کے ان کے خلاف بد دعا کریں تا کہ کہ ہماری حکومت بھی بچ جائے اور ہم موسیٰ کے دین سے لوگوں کو بچا سکیں لیکن بلعم باعورا نے انکار کیا میں کیسے خدا کے صالح بندے کے لیے بد دعا کرسکتا ہوں اس کے انکار کرنے پر لوگوں نے اس کی بہت تعریف کی اور بعض روایات کے مطابق اس کی زوجہ کے ذریعے اس کو ورغلایا المختصر اس نے اپنی زوجہ کی باتوں میں آکر یا لوگوں کی تعریف کی وجہ سے قبول کرلیا کہ میں حضرت موسیٰ کے لشکر والوں کے خلاف بد دعا کروں گا ۔ اس کام کے لیے اس نے اپنے گدھے کو تیار کیا اور ایک پہاڑ کی چوٹی کی طرف بد دعا کرنے کے لیے نکل پڑا۔ بیج راستے میں اس کی سواری آگے نہیں بڑھی اس نے پوری کوشش کی کہ وہ اپنی سواری کو آگے بڑھائے لیکن وہ گدھا آگے نہیں بڑھا ایسے میں خدا کے اذن سے اس کے گھدے نے کلام کیا اور اس سے مخاطب ہوکر کہا اے بلعم تجھے معلوم ہے تو کیا کرنے جا رہا ہے؟؟ اور کس کے خلاف بد دعا کرنے جا رہا ہے؟؟ لیکن چونکہ مقام اور شہرت کی ہوس میں اس قدر ڈوب چکا تھا یہ خدا کی جانب سے یہ نصیحت اس پر اثر انداز نہ ہوئی اور اس نے لجاجت اور ہٹ دھرمی دکھائی یہاں تک کہ اس نے اپنی سواری کو اتنا مارا کہ سواری نے جان دے دی۔
اس کے بعد بلعم باعورا پیدل پہاڑ کی چوٹی پر جا پہنچا اور اس نے حضرت موسیٰ کے لشکر والوں کے لیے بدعا کرنے کے لیے ہاتھ اٹھائے لیکن اس کی دعا برعکس ہوئی اور اس نے اپنے شھر کے لوگوں کے خلاف بد دعا کی اور اس کی زبان اس کے سینے پر لٹک گئی اور اس سے اس اعظم خدا نے چھین لیا ۔ لوگ پریشان ہوگئے تو نے یہ کیا کردیا ؟ ہمارے ہی خلاف بد دعا کی ؟ اس نے جواب دیا یہ میرے اختیار میں نہیں تھا میں موسیٰ کے لشکر والوں کے خلاف بد دعا کرنا چاہتا تھا لیکن میری زبان پلٹ گئی ۔ اب اس مقام پر آکر جب اس نے دیکھا کہ اس کے کرامات خدا نے اس سے چھین لیے ہیں تو وہ علنا خدا کی دشمنی پر آگیا اور اس نے کہا کہ اگر تم لوگ موسیٰ کے لشکر والوں کو شکست دینا چاہتے ہو تو میرے پاس اس سے بہتر طریقہ کار ہے جس سے تم لوگ موسیٰ کے لشکر والوں کو شکست دے سکتے ہو لوگوں نے پوچھا وہ کیا ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ اپنی خواتین کو آرائش کے ساتھ تیار کرو اور اشیاء کے فروخت کے بہانے موسیٰ کے لشکر والوں کے درمیاں بھیجو اور اور ان کو فعل حرام کی طرف اکساو اس کے شھر والوں نے یہی کیا خواتین کو زیبا لباس اور آرائش کے ساتھ موسیٰ کے لشکر والوں کے درمیان بھیجا اور پھر جناب موسیٰ کے لشکر میں ضعیف الایمان افراد بہک گئے اور فساد اور گناہ میں مبتلا ہوئے جس کی وجہ سے خدا نے ان پر طاعون کی بیماری نازل کی۔
بلعم باعورا کے کردار کو قرآن کریم نے اس انداز میں بیان کیا ہے :
وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَاهُ بِهَا وَلَٰكِنَّهُ أَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ وَاتَّبَعَ هَوَاهُ اگر ہم چاہتے تو اس کے بلند مقامات اور مراتب عطا کرتے لیکن اس نے دنیا کو انتخاب کیا زمین کو انتخاب کیا وَلَٰكِنَّهُ أَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ اور اس نے اپنے ہوا و ہوس کی پیروی کی وَاتَّبَعَ هَوَاهُ پس اس کی مثال اس کتے کی مانند ہے فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ الْكَلْبِ یہاں قرآن نے دنیا پرست عالم اور اپنی خواہشات کی پیروی کرنے والے کو کتے سے تعبیر کیا ہے کتے کی ایک خاصیت یہ ہے کہ وہ مسلسل ہانپتا رہتا ہے (يَلْهَث) یعنی زبان باہر نکالتا ہے اور کتے کے ہانپنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ پیٹ میں گرمی کی وجہ سے اور زبان میں پانی کی وجہ مسلسل ہانپتا رہتا ہے اگر اس کی جانب بڑھا جائے تب بھی زبان نکالتا ہے اور اگر چھوڑ دیا جائے تب بھی ہانپتا ہے اور دنیا پرست عالم اور خواہشات کی پیروی کرنے والے عالم کی مثال بھی یہی ہے اگر اس کو سمجھایا جائے تب بھی لجاجت دکھاتا ہے اور اگر اسے چھوڑ دیا جائے تب بھی لجاجت دکھاتا ہے۔ إِن تَحْمِلْ عَلَيْهِ يَلْهَثْ أَوْ تَتْرُكْهُ يَلْهَث۔