۱۵ مهر ۱۴۰۳ |۲ ربیع‌الثانی ۱۴۴۶ | Oct 6, 2024
اشرف سراج گلتری

حوزہ/اصل عزاداری خود رسول اللہﷺ، جناب سیدہ سلام اللہ علیہا، امام سجاد علیہ السلام، جناب زینب سلام اللہ علیہا اور دیگر ائمہ علیہم السلام کی سیرت سے ثابت ہے۔

تحریر: اشرف سراج گلتری

حوزہ نیوز ایجنسی| اصل عزاداری خود رسول اللہﷺ، جناب سیدہ سلام اللہ علیہا، امام سجاد علیہ السلام، جناب زینب سلام اللہ علیہا اور دیگر ائمہ علیہم السلام کی سیرت سے ثابت ہے۔

مجلس عزاء میں ائمہ علیہم السلام کے فضائل بیان کرنا،توحید اور دین کی تعلیم دینا،امام حسین علیہ السلام کے قیام کے مقاصد کو بیان کرنا،امام کے دشمنوں کے رذائل کو بیان کرنا،ان پر لعن کرنا اور امام پر ڈھائے گئے مصائب کو سن کر رونا اور رُلانا بلکہ امام حسین علیہ السلام کے غم میں بلند آواز سے رونے کی بھی تلقین ملتی ہے۔

بعض احادیث امام کے غم میں روتے روتے غشی میں چلاجائے اور سر اور سینے کو پیٹے تو اس عمل کوبھی احسن عمل کہتی ہیں۔

سوال عزاداری سے مربوط اس خونی رسم پر ہے کہ جس کی ابتداء 10ویں صدی میں برصغیر سے ہوئی ہے اور بعد میں مختلف لوگوں نے اپنی سوچ اور فکر کے مطابق خونی رسم کی قسمیں بناکر عزاداری میں شامل کردیا ہے۔

خونی رسم کو عزاداری میں کس شخص نے شامل کیاہے اس حوالے سے درست معلومات کسی بھی کتاب میں موجود نہیں ہیں اور یہ رسم کس انسان کے ذہن کی اختراع ہےاس شخص کاتذکرہ بھی نہیں ملتا ہے۔

اس دورمیں خونی رسم کو عزاداری میں شامل کرنے کا اصل ہدف اور فلسفہ کیا تھا یہ بھی معلوم نہیں ہے۔

اس حوالے سے تحقیق کی تو اس زمانے میں کسی بھی مسلمان فرقہ یا قبیلے کے ہاں بھی ایسی کوئی رسم موجود نہیں تھی کہ جو اظہار غم کےلئے خون نکالنا ان کے ہاں رسم موجود ہو اور اس رسم کو عزاداری میں شامل کی گئی ہو۔

اس بناپر نزاع یہاں سے ہی شروع ہو جاتا ہےکہ زنجیر مارنا،قمہ لگانا،گرز مارنا،زبان پر سوئی چبانا،مہندی لگانا،عاشور کےدن شادی کاماحول بنانا،کسی بچی کو شہزادہ قاسم کی دلہن بناکر ڈولی اٹھانا، گھوڑہ نہ ہو تو انسان کو ذوالجناح بنانا۔۔۔وغیرہ یہ رسومات جزع و فزع کے مصادیق میں سے شمار ہوتی ہیں یا نہیں ہیں؟

اور اگر ان رسومات کو جزع و فزع کے مصداق میں سے قرار دیاجائے تو پھر اس کا بنیادی معیار کیاہے؟

یہ بات مسلمہ حقیقت ہے کہ ان رسومات کو ائمہ علیہم السلام کی احادیث اور سیرت سے ثابت کرنا تو ناممکن ہے۔

اسی لئے ان رسومات کا جواز صرف اس بات پر ہے کہ یہ رسومات جزع و فرع کے مصادیق میں آتی ہیں اس لیے جائز ہے۔

کیا جزع و فزع کے مصادیق کو شریعت کے مطابق ہونے کے ساتھ ساتھ معقول ہونا بھی ضروری ہے یا نہیں ہے؟

اور ان رسومات کے پیچھے ایک معقول ہدف اور پیغام کا بھی ہونا ضروری ہے یا نہیں ہے؟

یا یہ کہ جو بھی رسم عزاداری سے منسوب کی جائے تو وہ جزع و فزع کے مصادیق میں سے شمار ہوتی ہے اور جائز ہے چاہئے وہ رسم کچھ سال پہلے ایجاد کی گئی ہو،یا آج ایجاد کی جائے یا پھر کل ایجاد ہو جائے۔

مخصوصاً خونی ماتم کا اسلام کے ایک حکم سے ٹکراؤ بھی ہے۔

قرآن، روایات اور احادیث کی تعلیمات کے مطابق انسان اپنے جسم کو مشققت اور ایذاء نہیں دے سکتا ہے اور نہ خون نکال سکتاہے مگر یہ کہ کسی خاص علاج کےلئے ہو یا پھر اللہ،رسول اور آئمہ جو انسانوں کی جانوں پر تصرف رکھنے کا حق رکھتے ہیں ان کی طرف سے صریح حکم ہو۔

اب برصغیر کے ایک عام انسان نے اس حکم سے لاعلمی کی بناپر خونی رسم کو عزاداری میں شامل کردی ہے تو کیا اس بندے کا یہ عمل اسلام کے اس حکم کو اس وجہ سے معطل کر سکتا ہے کیونکہ یہ عزاداری سے منسوب ہے اور امام حسین کے ساتھ محبت کی وجہ سے اس نے یہ رسم ایجاد کی ہے لہذا آج سے یہ رسم جزع و فزع کے مصادیق میں سے قرار دیا جائے گا۔

اسی طرح شہزادہ قاسم سلام اللہ علیہ کی شادی جو کربلا میں عاشور کے دن ہونا احادیث سے ثابت ہی نہیں ہے،ایک جھوٹی نسبت دے کر اس رسم کو عاشور کے دن ہی منانا اور ڈولی اٹھانا یہ بھی جزع و فزع کے مصداق میں سے ہوگی؟

کیا احادیث سے یہ بات ثابت نہیں ہے کہ ائمہ علیہم السلام سے جھوٹی نسبت دے کر کسی عمل یا بات کو ترویج دینا گناہ ہے اگرچہ عمل مباح ہی کیوں نہ ہو؟

کیا اس مفہوم کو سمجھانے والی تمام روایات کے حکم کو بھی چھوڑ دیں کیونکہ فلاں شخص نے یہ نسبت رولانے کےلئے انجام دیاہے یہ بھی آج سے جزع و فزع کے مصادیق میں سے شمار ہوگی؟

ذوالجناح کی شبیہ بنانے کےلئے گھوڑا نہ ہو تو کوئی نہیں مسئلہ گائے یا انسان بھی ذوالجناح بن سکتے ہیں۔

اگر کسی انجمن نے انسان کو ذوالجناح کی شبیہ بنایاہے تو بس یہ عمل بھی جزع و فزع کے مصادیق میں سے شمار ہوگا؟

جبکہ انسان کی عقل کہتی ہے کہ اگر کربلا کی منظر کشی کرنی ہے تو گھوڑے کی شبیہ گھوڑے سے بنائیں یا پھر مٹی یا لکڑی وغیرہ سے گھوڑے کا خاکہ بنائیں پھر اس کے ذریعے منظر کشی کی جائے،انسان کو گھوڑے کی شبیہ بنانا باعث تضحیک ہے۔

کیا عقل سلیم کے حکم کے خلاف اس قسم کی رسم مذہب حقہ کی تضحیک کی باعث نہیں ہوتی ہے؟

جبکہ چھوٹے بچے کے سر پر چاقوں مارنے کی رسم کو عالمی میڈیا وحشیانہ عمل بناکر پیش کررہا ہےاور اس کے مقابلے میں جانوروں کا اپنے بچوں کے ساتھ کئے جانے والے اچھے برتاؤ کو دکھا کر یہ پیغام دیتا ہے کہ یہ مذہب اپنے بچوں پر ظلم کرنے کی تعلیم دیتا ہے جبکہ جانور بھی اپنے بچوں سے حسن سلوک کے قائل ہیں۔

کیا اس رسم سے مذہب حقہ کی ہتک نہیں ہوتی ہے؟

لہٰذا علمائے کرام سے، مخصوصاً ان علمائے کرام سے گزارش ہے کہ جو ان رسومات کا بھرپور دفاع کرتے ہیں اور ان رسومات کے خلاف بات کرنے پر اسے مکتب تشیع سے خارج کر دیتے ہیں تفصیلا جواب دیں۔

اور یہ واضح کردیں کہ وہ ان رسومات کو کس دلیل کی بناکر جزع و فزع کے مصادیق میں سے شمار کرتے ہیں اس کی دلیل اور اس کا معیار بھی بتائیں تاکہ درست رہنمائی ہوسکے۔

لہٰذا پہلے علمی اور تحقیق لحاظ سے حکم کا موضوع اور ان کے مصادیق کا محدودہ اور معیار معلوم ہو جائے پھر مراجع کے فتاوی کی طرف رجوع کرنے کی بات کی جائے۔

اور اس بات کا جواب بھی دے دیا جائے کہ ان رسومات کو عزاداری میں بعض ایسے لوگوں نے ایجاد کیاہے جو دین سے آگاہی بھی نہیں رکھتے ہیں کیا ان کا یہ عمل بھی میں استحباب کے طور پر انجام دے سکتا ہوں جو میرے علم اور تحقیق کے مطابق ائمہ علیہم السلام کی احادیث اور سیرت سے ثابت نہیں ہے بلکہ انھوں نے اپنے ذہن اور خیال کے مطابق ان رسومات کو اختراع کیا ہے اور میں ان رسومات کو جزع و فزع کے مصادیق میں سے ہی نہیں سمجھتا ہوں ،پھر بھی میرے لئے مستحب عمل ہوگا، کیونکہ بعض مراجعین نے فتاوٰی دیا ہے۔

میرے سامنے ہمارے مکتب کا ایک مسلمہ اصول یہ بھی ہے کہ حکم شرعی کے منابع صرف قرآن، رسول اللہ اور ائمہ کی روایات، احادیث، سیرت، اجماع جو کاشف ہو اور عقل سلیم ہی ہیں حتی ایک عالم برجستہ اور متقی کا عمل بھی جو احادیث اور سیرت سے ثابت نہ ہو وہ بھی دوسرے انسانوں کےلئے حجت نہیں ہے۔

لیکن عزاداری پر ایک عام انسان کی طرف سے ایجاد کی گئی رسم دوسروں کےلئے استحباب کا درجہ کیسے رکھتی ہے؟ تکفیر کے بغیر علمی اور تحقیقی جواب دیجئے گا۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .