تحریر: سید عنبر عباس رضوی
حوزہ نیوز ایجنسی | فقیہ افہم رہبر معظم کا نمازِ جمعہ کی امامت کرنا دنیا بھر کی بکاؤ میڈیا اور پروپیگنڈا مشینری کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ تھا۔ جو رہبر معظم کے انڈر گراؤنڈ ہونے کی افواہیں پھیلا رہے تھے، انہیں یہ سمجھنا چھوڑ دینا چاہیے کہ سید علی خامنہ ای امریکہ یا اسرائیل سے خوف زدہ ہوتے ہیں۔ بھیڑیے کا دل کتنا بڑا ہوتا ہے، یہ شیر سے زیادہ بہتر کوئی نہیں جانتا۔ اس لیے رہبر معظم نے برسوں قبل ہی کہہ دیا تھا کہ: "اسرائیل و امریکہ چاہنے کے باوجود کوئی غلطی نہیں کر سکتے"، جس کی تصدیق آج منعقد ہونے والی نمازِ جمعہ سے ہوتی ہے۔
ورنہ یقیناً جنگ کے زمانے میں اس طرح کھلے عام سب کے سامنے کون آتا ہے؟ وہ حیدری شجاعت سے بھرپور خطبہ، پُرسکون نماز اور طویل سجدہ نے دنیا کو بتا دیا کہ جو 'اللہ اکبر' کہتے ہیں، وہ کسی اور طاقت کی پرواہ نہیں کرتے۔
وَالمُؤمِنونَ وَالمُؤمِناتُ بَعضُهُم أَولِياءُ بَعضٍ
جو لوگ یہ سوال کر رہے ہیں کہ ہمارا اسرائیل اور فلسطین کی جنگ سے یا لبنان کے مسائل سے کیا ربط ہے، ان کے لیے قرآن کا جواب اور دائمی ضابطہ ہے کہ مومن مومن کا ولی، دوست اور اس کے مسائل کا نگران ہوتا ہے۔ اس کی خوشی یا مصیبت میں اس کا ساتھی و مددگار ہوتا ہے۔
فقیہ افہم رہبر معظم نے اپنے خطبے میں دشمن کی نشاندہی کی کہ ایران، لبنان، فلسطین، شام، عراق، مصر سب کا دشمن ایک ہے، بس اس کی پالیسیوں میں فرق ہے۔ کہیں وہ اقتصادی جنگ لڑ رہا ہے تو کہیں سرد جنگ، کہیں مسلح جنگ تو کہیں مسکراہٹ کے ساتھ اپنے امور انجام دے رہا ہے۔ کہیں تلوار سے گردن کاٹ رہا ہے تو کہیں روئی سے شہ رگ ریت رہا ہے، لیکن کنٹرول روم ایک ہی ہے۔
اس دشمن کے سامنے صف آرا ہونا اور اہلِ ایمان کا ایک دوسرے کا دفاع کرنا سبھی کی شرعی ذمہ داری ہے۔ اس وظیفے کی ادائیگی کا نتیجہ من جانب اللہ رحمت کی شکل میں ظاہر ہوگا اور اللہ اپنے بندوں کو عزت اور افتخار عطا کرے گا۔
جب خدا عزیز و حکیم مطلق ہے تو عزت کی تشخیص اور اس سے نوازنا اس کا کام ہے۔ دولت و ثروت، ظاہری امکانات، جنگی ساز و سامان، یا بکاؤ میڈیا، ان میں سے کوئی بھی عزت کا معیار نہیں ہے۔ بلکہ عزت کا مفہوم حق کی حمایت اور حضرت حق کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے سے حاصل ہوتا ہے، چاہے آپ بظاہر تنہا کیوں نہ ہوں۔
اللہ عزیز ہے، لہذا اس نے اپنے مقرب بندوں کو معزز قرار دیا ہے:
اللہ عزیز ہے، اس نے فرعون کے مقابلے میں موسیٰ (ع) کو عزت دی ہے۔
اللہ عزیز ہے، اس نے نمرود کے مقابلے میں ابراہیم (ع) کو عزت دی ہے۔
اللہ عزیز ہے، اس نے کفار مکہ کے مقابلے میں محمد مصطفیٰ (ص) کو عزت دی ہے۔
اللہ عزیز ہے، اس نے معاویہ کے مقابلے میں امیر المومنین علی ابن ابی طالب (ع) کو عزت دی ہے۔
اللہ عزیز ہے، اس نے یزید کے مقابلے میں امام حسین (ع) کو عزت دی ہے۔
اللہ نے ہر زمانے میں اپنے مقرب بندوں کے مقابل آنے والے ظالموں کو اپنا دشمن قرار دیا اور آج اللہ نے اسی قانون کے تحت زمین پر اپنے مقرب ترین بندوں کو معزز کیا اور ظالم کو رسوا کیا ہے۔
خدا کا مقرب ترین بندہ وہ ہے جو الٰہی اصولوں کا نفاذ کرے، جو قرآن کی فکر سے لوگوں کی فکر کو ہم آہنگ کرے، جو لوگوں کو مظلوموں کا ولی، ہمدرد اور دوست بنائے۔
اگر کوئی جوارِ کعبہ میں بیٹھ کر زمینِ وحی کے تقدس کو پامال کرے اور کہے کہ سعودی کی زمین پر فلسطین کے لیے دعا نہ کی جائے، مظلومینِ غزہ کا ذکر مساجد میں نہ ہو، تو وہ مکہ میں رہنے والا بن سلمان، قرآنی اصولوں سے جنگ کرنے والا ابو لہب ہے۔ اور ایران میں بیٹھ کر مظلومین و مسلمینِ عالم کی فکر کرنے والا خامنہ ای، محمد عربی (ص) کا فرزند ہے۔
اب یہ آپ کو طے کرنا ہے کہ آپ کو قرآنی فکر کے مطابق آگے بڑھنا ہے یا فرعونی فکر پر، جہاں نہ مظلوموں کی فکر ہو اور نہ ان کی تکلیف کا کوئی احساس۔ یہ دو ضابطے ہیں جن کے اثرات آپ خود دیکھیں گے۔
رہبر معظم نے وعدہ صادق کی کارروائی کو عقلی اور قانونی قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ ہم مظلوموں کی حمایت کی راہ میں ذرہ برابر تامل یا ہچکچاہٹ سے کام نہیں لیں گے۔
وعدہ صادق وہ دو راتیں ہیں جن میں غزہ کے معصوم بچے چین و سکون کی نیند سوئے، انہیں معلوم تھا کہ آج کی رات دشمن کو کسی اور نے مشغول کر رکھا ہے۔
ان شاء اللہ، اس بار آتشکدہ ظلم خاموش ہوگا۔
ان شاء اللہ، دریائے ظلم و جور خشک ہوگا۔
ان شاء اللہ، استکبار و طاغوت کے ستون منہدم ہوں گے۔
کیونکہ اس آپریشن کی نسبت رسولِ اسلام سے ہے، اور یہ وعدہ، وعدہ صادق ہے۔
آپ نے اپنے بیان میں افغانستان سے لے کر یمن تک تمام مومنین کو اس طرح ایک نقطۂ دفاع پر جمع کیا جہاں کسی قسم کی کوئی نسلی یا فرقہ وارانہ تفریق نہیں تھی۔
آپ نے فرمایا: غزہ کی کارروائی کے بعد اسرائیل کا وجود مزید خطرے میں پڑ گیا ہے۔ گویا خود کو ایڈوانس ترین اور طاقتور ترین نظامی قوت کہنے والے اسرائیل کی حیثیت کیا ہے، یہ غزہ جیسے دبے کچلے علاقے کی کارروائی سے سب کے سامنے آگئی کہ اسرائیل کی مثال ابرہہ کے ہاتھی سوار لشکر سے زیادہ نہیں ہے جس کا انجام سب پر واضح ہے۔
آپ نے لفظ "توجہ" کے ساتھ فرمایا: خطے میں اسرائیل کی سرکش کارروائیوں کے جواب میں ہم نہ تاخیر سے کام لیں گے اور نہ ہی عجلت سے۔
اس بات سے جہاں آپ نے امریکی ایوان کو خبردار کیا کہ وہ ہرگز گمان نہ کریں کہ غزہ و فلسطین کی پشت خالی ہے اور ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے، وہیں آپ نے داخل ملک و بیرون ملک سپاہ پاسداران پر ہونے والی انگشت نمائی کا جواب دیا اور بند الفاظ میں یہ بات سمجھا دی کہ سپاہ و جمہوری اسلامی اپنے موقف کو بخوبی پہچانتے ہیں کہ کب، کیا اور کیسے کرنا ہے۔
رہبر معظم کی یہ اعتدال پسندی اشارہ کرتی ہے کہ قرآن نے ہمیں "امت وسطی" قرار دیا ہے، لہٰذا ہمیں جنگ میں افراط و تفریط سے نہیں بلکہ اعتدال سے کام لینا ہے۔
ساتھ ہی آج اسلامی جمہوریہ ایران نے رہبر انقلاب اسلامی کے تاریخی، شجاعانہ خطبۂ جمعہ کے علاوہ ایک اور تاریخی قدم بھی اٹھایا۔ اسرائیلی دھمکیوں کے باوجود ایرانی وزیرِ خارجہ عباس عراقچی آج صبح 10 ٹن دوا اور غذائی امداد کے ساتھ بیروت ایئرپورٹ پر اترے۔
جب رپورٹر نے پوچھا کہ کیا آپ کو اس خطرناک وقت میں لبنان آتے ہوئے خوف محسوس نہیں ہوا؟ تو انہوں نے جواب دیا: "جب کوئی ذمہ داری ہوتی ہے تو اسے انجام دینا ہوتا ہے۔ ہم نے اس طرح کے حالات دفاع مقدس اور اس کے بعد بھی بہت دیکھے ہیں۔ رات بھی (ضاحیہ) میں وحشیانہ بمباری ہوئی ہے اور صبح بھی ہمارے یہاں آنے سے پہلے ایئرپورٹ پر بمباری ہوئی ہے۔ ہمیں ان سب چیزوں کی عادت ہے، ہمارا ارادہ اس سے زیادہ طاقتور ہے۔"
اندورنِ ایران، رہبر انقلاب کا خطبہ اور عباس عراقچی کا اسرائیلی وحشیانہ بمباری کے شکار لبنان میں بیرونی دورہ زمانۂ غیبت میں حکومت علوی کی حشمت و اقتدار کا شاہکار نمونہ ہے۔
جب رہبر انقلاب کا خطبہ پوری دنیا کے میڈیا پر لائیو دکھایا جا رہا تھا، اسی وقت حزب اللہ نے قیساریہ پر میزائل داغے، تو نتن یاہو اپنے گھر سے بنکر کی طرف چھپنے بھاگا، اور بکاؤ میڈیا طاقت کے بے جان بتوں کے آگے سر جھکائے یہ سمجھ رہی تھی کہ اسرائیل حملہ کرنے والا ہے۔
کہاں خیبر شکن کا بیٹا اور کہاں صہیونی چوہا
حیدر حیدر یا صہیون۔