تحریر: مولانا ابن حسن املوی واعظ
حوزہ نیوز ایجنسی| نہایت صبر آزما اور جرأت مندانہ و مدبرانہ تھا رہبر معظم کا یہ فیصلہ کہ اس ہفتہ نمازِ جمعہ میں پڑھاؤں گا۔ شہید ہانیہ سربراہ حماس تنظیم آزادی فلسطین اور شہید حسن نصر اللہ سربراہ حزب اللہ لبنان کی غاصب اسرائیلی بزدلانہ حملوں کے نتیجہ میں دردناک شہادتیں واقع ہوئیں، اس کے بعد اسرائیلی زرخرید میڈیا نے یہ افواہ بڑی تیزی سے پھیلائی کہ معاذ اللہ رہبر معظم آیۃ اللہ خامنہ ای خوف زدہ ہو گئے اور کسی محفوظ مقام میں چھپ گئے ہیں۔
اس کے بعد جن کشیدہ اور جنگی حالات میں 4؍ستمبر کو تہران کے مصلّیٰ امام خمینی ؒ میں آیۃ اللہ العظمیٰ رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت امام خامنہ ای کی امامت میں لاکھوں نمازیوں نے نماز جمعہ ادا کیا اس کا پوری دنیا میں لائیو ٹیلی کاسٹ دیکھا بھی گیا، سنا بھی گیا اور پڑھا بھی گیا۔ رہبر معظم نے انتہائی سکون و وقار کے ساتھ فارسی اور عربی زبان میں دو خطبے پیش کئے،پھر نماز جمعہ خشوع و خضوع کے ساتھ پڑھائی اور پھر نماز عصر بھی پڑھائی ورنہ کہتے ہیں کہ عام طور پر نماز جمعہ سے فارغ ہو کر آپ تشریف لے جایا کرتے تھے۔ پوری دنیا اس نماز جمعہ کے عظیم ترین روح پرور اجتماع جو انسانی سمندر کی شکل میں موجزن تھا اس کا منظر دیکھ کر مختلف جہات و وجوہات سے حیران و ششد رہ گئی، اس نمازِ جمعہ کے اجتماع کا نام ’’ وحدت آفرین و دشمن شکن ‘‘رکھا گیا تھا، بجا طور پر بہت موزوں اور مناسب نام رکھا گیا ۔اس کا ایرانی عوام پر بھاری اثر یہ ہوا کہ نیا انقلابی جوش و ولولہ پیدا ہوا، فلسطین و غزہ اور لبنان و یمن کے ستم رسیدہ مظلوموں کے زخموں کے لئے فرحت بخش مرہم بنا، مسلمانان عالم پر گہرا مثبت اثر مرتب ہوا تو غیر مسلم اقوام بھی اسلامی طریقۂ عبادت کی اہمیت پر غائبانہ غور و فکر کرنے پر مجبور ہوئے ہیں، چنانچہ دنیا کی مختلف زبانوں میں رہبر معظم کے مذکورہ خطبہ نماز جمعہ کے ترجمے شائع کئے جارہے ہیں اور پوری دنا میں مذہبی اور سیاسی امور کے ماہر صحافی اور دانشور حضرات اس کے مختلف پہلوؤں سے تجزیے اور چرچے کر رہے ہیں۔
ہندوستان کے مایہ ناز، مشہور و معروف، معتبر و مستند صحافی محترم جناب روش کمار جی Rawish Kumar ji نے نمازِ جمعہ تہران کے عظیم الشان اسلامی اجتماع پر اور کافی تفصیل کے ساتھ رہبر معظم کی تقریر کے مختلف اقتباسات پر بالکل بے باک ،منصفانہ تبصرے کرتے ہوئے کہا کہ رہبر معظم نے مسلمان دیشوں کو اتحاد کی صلاح دی تو امریکہ و اسرائیل کو گویا کھلی ہوئی چتاونی (چیلنج) بھی دے دی ہے کہ :کیا اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو بھی اس طرح اپنی عام پبلک کے بیچ میں آکر خطاب کر سکتے ہیں؟۔Rawish Kumar Ofical youTube پر ان کا پورا تبصرہ سننے کے قابل ہے۔
تاریخ اسلام کے ایک ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے مجھے تو حالیہ تہران کی نماز جمعہ میں رہبر معظم آیۃ اللہ خامنہ ای حفظہ اللہ تعالیٰ کے انداز امامت نماز سے نبی ؐو علی کی تاریخی یاد تازہ ہو گئی اور جس کے ذریعہ سے عالمی سطح پر انٹر نیشنل میڈیا کے ذریعہ اہل تشیع کی مکمل نماز کی تبلیغ و تشہیر اور تصویر دکھائی جا رہی ہے۔
’’بخاری کی روایت کے مطابق صحابی پیغمبر عمران بن حصین نے جب بصرہ میں حضرت علي بن ابي طالب علیہ السلام کے پیچھے نماز پڑھی تو کہا :علی کی نماز نے ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نماز یاد دلائی ‘‘ ۔
عن عمران بن حُصين قال : صلّي مع علي بالبصرة فقال: ذَكَّرنا هذا الرجل صلاة كنّا نصلّيها مع رسول اللّه صلي اللّه عليه وسلم.(صحيح البخاري: كتاب الأذان.. باب إتمام التكبير في الركوع من كتاب الأذان).
اسی کی مانند ایک روایت مطرف بن عبد اللہ نے نقل کیا ہے :
حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ قَالَ حَدَّثَنَا غَيْلَانُ بْنُ جَرِيرٍ عَنْ مُطَرِّفٍ قَالَ صَلَّيْتُ أَنَا وَعِمْرَانُ صَلَاةً خَلْفَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَكَانَ إِذَا سَجَدَ كَبَّرَ وَإِذَا رَفَعَ كَبَّرَ وَإِذَا نَهَضَ مِنْ الرَّكْعَتَيْنِ كَبَّرَ فَلَمَّا سَلَّمَ أَخَذَ عِمْرَانُ بِيَدِي فَقَالَ لَقَدْ صَلَّى بِنَا هَذَا صَلَاةَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ قَالَ لَقَدْ ذَكَّرَنِي هَذَا صَلَاةَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔(صحيح البخاري: كتاب الأذان.. باب إتمام التكبير في الركوع من كتاب الأذان.)
مُطَرِّف کہتے ہیں : میں نے اور عمران بن حُصين نے علي بن أبي طالب کے پیچھے نماز پڑھی۔۔۔۔ عمران نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا : حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم والی نماز پڑھی ۔۔۔۔‘‘
جنگ صفین کے موقع پر ابو موسی اشعری کا بھی یہی اعتراف موجود ہے۔
19737 - حدثنا عبد الله حدثني أبي ثنا حسن ثنا زهير عن أبي إسحاق عن بريد بن أبي مريم عن رجل من بنى تميم عن أبي موسى الأشعري قال : لقد صلى بنا علي بن أبي طالب رضي الله تعالى عنه صلاة ذكرنا بها صلاة كنا نصليها مع رسول الله صلى الله عليه و سلم فأما ان نكون نسيناها واما أن نكون تركناها عمدا يكبر في كل رفع ووضع وقيام وقعود
تعليق شعيب الأرنؤوط : حديث صحيح.. ۔۔ مسند أحمد بن حنبل (4/ 415):
2506- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ بُرَيد بْنِ أَبِي مَرْيَمَ، عْن أَبِي مُوسَى، قَالَ : صَلَّى بِنَا عَلِيٌّ يَوْمَ الْجَمَلِ صَلاَةً، ذَكَّرَنَا بِهَا صَلاَةَ رَسُولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم، فَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَسِينَاهَا، وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ تَرَكْنَاهَا عَمْدًا، يُكَبِّرُ فِي كُلِّ رَفْعٍ وَخَفْضٍ، وَقِيَامٍ وَقُعُودٍ، وَيُسَلِّمُ عَنْ يَمِينِهِ وَيَسَارِهِ…
مصنف ابن ابی شیبہ(1/ 217):
ابوموسیٰ اشعری سے روایت ہے کہ علی علیہ السلام نے ہمیں جنگ جمل کے دن ایسی نماز پڑھائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نماز کی یاد تازہ ہو گئی، جسے یا تو ہم بھول چکے تھے یا چھوڑ چکے تھے۔۔۔۔۔‘‘
اسی سے اندازہ ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حقیقی جانشین کو چھوڑنے اور ایسے لوگوں کے حاکم بننے کی وجہ سے جو جانشینی کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے، کیا کیا بگاڑ اسلامی معاشرے میں وجود آئے تھے اور شریعت پر کیا گزری تھی۔