حوزہ نیوز ایجنسی | حضرت حمزہ بن عبدالمطلب (علیہ الرحمہ) رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محترم چچا اور رضاعی بھائی تھے۔ آپ، اپنے برادر محترم حضرت ابو طالب علیہ السلام اور بھتیجے حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی مانند، رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانثار محافظین میں شامل تھے۔
آپ نے اُس زمانے میں بھی رسولِ مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حمایت کی جب ابھی دامنِ اسلام سے وابستہ نہ ہوئے تھے، اور قریش کے رؤسا میں شمار ہونے کے باعث آپ کی حمایت نے کفارِ قریش کی ایذا رسانیوں میں نمایاں کمی کا سبب فراہم کیا۔
اسلام سے پہلے بھی حضرت حمزہ (علیہ الرحمہ) ایک باوقار اور بااثر شخصیت کے طور پر جانے جاتے تھے۔ آپ نے زمانۂ جاہلیت کے معروف معاہدہ حِلفُ الفضول اور جنگِ نَجار میں شرکت کی۔
روایات میں آیا ہے کہ ایک روز جب آپ کو یہ اطلاع ملی کہ ابوجہل نے رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ اقدس میں گستاخی کی ہے، تو آپ نے تلوار و کمان سنبھالی اور دشمنِ دین ابوجہل کے سر پر زخم لگایا۔ اس واقعے کے بعد آپ نے برملا اسلام قبول کرنے کا اعلان فرمایا۔ امام زین العابدین علیہ السلام کے بقول، حضرت حمزہ علیہ الرحمہ کا اسلام قبول کرنا آپ کی غیرت و حمیت کا مظہر تھا۔
آپ نے کبھی بھی ہجرتِ حبشہ کا قصد نہ کیا، بلکہ رسولِ گرامی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ ہر لمحہ مدافعت اور نصرتِ دین میں مصروف رہے۔ شبِ ابی طالب کی صعوبتیں بھی خندہ پیشانی سے جھیلیں۔ گویا آپ کی خدماتِ اسلام ناقابلِ فراموش ہیں۔
آپ نے متعدد غزوات میں نہ صرف شرکت فرمائی بلکہ علمبرداری جیسے عظیم فرائض بھی انجام دیے۔ جیسے غزواتِ ابوَاء، وَدّان، ذوالعُشیرة اور بنی قَینُقاع میں پرچمِ اسلام آپ ہی کے ہاتھوں میں تھا۔ غزوۂ بدر میں آپ صفِ اوّل کے مجاہدین میں شامل تھے۔
غزوۂ اُحد میں آپ نے عہد کیا کہ جب تک دشمن سے معرکہ آرائی نہ کر لوں، کچھ نہ کھاؤں گا۔ آپ قلبِ لشکر کے سپہ سالار تھے اور دو تلواروں سے جہاد فرما رہے تھے۔ مگر بعض افراد کی سستی اور نافرمانی کی بنا پر دشمن کو غلبہ حاصل ہوا اور آپ نہایت مظلومانہ انداز میں شہادت کے درجے پر فائز ہوئے۔
ذیل میں رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمۂ معصومین علیہم السلام سے حضرت حمزہ (علیہ الرحمہ) کے فضائل و مناقب پر مشتمل چند احادیث پیشِ خدمت ہیں:
1. حدیث کے مطابق سب سے پیارا نام حمزہ ہے
عن الامام الصادق علیه السلام
جاءَ رَجلٌ اِلَی النبی صلی الله علیه و آله فقال یا رَسُول اللّه وُلِدَ لی غلامٌ فماذا اُسَمّیه؟ قال: سَمِّهِ بأحَبِّ الأسماء اِلیّ؛
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:
ایک شخص نے رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا:
"یارسول اللہ! میرے ہاں فرزند پیدا ہوا ہے، اسے کیا نام دوں؟"
آپؐ نے فرمایا: "میرے نزدیک سب سے محبوب نام حمزہ ہے۔"
(کافی، کتاب العقیقة، باب الأسماء والکنی)
2. رسولِ خداؐ کے محبوب چچا
عن الصادق عن رسول اللہ (ص)
اَحَبّ اِخوانی اِلَیَّ علّی بن أبی طالب و أحَبّ أعْمامی اِلیَّ حَمْزَه.
حضرت امام صادق علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں:
"میرے سب سے محبوب بھائی علی بن ابی طالب ہیں، اور میرے چچاؤں میں سب سے محبوب چچا حضرت حمزہ ہیں۔"
(امالی صدوق، مجلس 82؛ عمدہ ابن عقدہ)
3. حضرت حمزہؑ کے القاب
عن الباقر ع عن رسول اللہ ص
«وَعَلی قائمة العرش مکتوبٌ: حمزة اسدالله و اسد رسوله و سیدالشهدا».
امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے:
"عرش کے ستون پر لکھا ہے: حضرت حمزہ، اللہ اور اس کے رسول کا شیر، اور سید الشہداء ہیں۔"
(بصائر الدرجات، ص 34)
4. حضرت حمزہؑ، فخرِ رسولؐ
ایک دن رسول خدا صلی الله علیه و آله نے حضرت فاطمه علیهاالسلام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: «شهیدنا أفضل الشهداء و هو عمّک وَ مِنّا مَنْ جَعَل اللّه لَهُ جِناحَین یطیرُ بِهِما مَعَ الملائکة وَ هُوَ ابنُ عَمِّکَ۔۔۔۔۔
"ہم میں سے ایک شہید سب شہیدوں سے افضل ہے، اور وہ تمہارے چچا حمزہ ہیں، اور ہم ہی میں سے ایک اور شخصیت جعفر طیار ہیں جنہیں خدا نے دو پر عطا کیے ہیں جن سے وہ ملائکہ کے ساتھ پرواز کریں گے۔"
(قرب الإسناد، ص 39)
5. امیرالمؤمنینؑ کا فخر
عن امیرالمؤمنین علیه السلام
«منّا سبعةٌ خَلَقَهم اللّه عزوجل لم یخلق فی الأرض مثلهم؛ مِنّا رسول اللّه صلی الله علیه و آله سید الأوّلین والآخرین، خاتم النبیین و وصیّه خیرالوصیین و سبطاه خیرالأسباط؛ حَسَنا و حُسَینا و سیدالشهداء حمزة عمّه و من قد کان مع الملائکة جعفر والقائم عجل الله تعالی فرجه۔
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
"ہم میں سات شخصیات ایسی ہیں جن کی مانند اللہ تعالیٰ نے زمین پر کسی کو پیدا نہ کیا؛ ان میں رسول اللہؐ، آپؐ کا وصیؑ، حسنینؑ، حمزہؑ، جعفر طیارؑ اور امام مہدیؑ شامل ہیں۔"
(بحارالأنوار، ج 22، ص 273)
6. رسولؐ کا احساسِ تنہائی
جنگ خندق میں جب امیر المومنین علیہ السلام عمر بن عبدود سے مقابلے کرنے کیلئے جارہے تھے تو پیغمبر ص نے یوں دعا کی: «أللّهمّ اِنّکَ اَخَذْتَ مِنّی عُبیدة یومَ بَدر وَ حمزة یَوْمَ اُحُد فَاحْفَظ عَلَیَّ الیومَ علیّا... رَبِّ لاَتَذَرْنِی فَرْدا وَ أَنْتَ خَیْرُالْوَارِثِینَ۔
"اے اللہ! بدر میں تُو نے عبیدہ کو، اور احد میں حمزہ کو مجھ سے لے لیا؛ آج علی کو میرے لیے محفوظ رکھ، اور مجھے تنہا نہ کر، کہ تو سب سے بہترین وارث ہے۔"
(شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج 19، ص 61)
7. حمزہؑ کی شہادت، رسولؐ پر شاق ترین دن
«نَظر علیّ بن الحسین سیّدالعابدین علیهماالسلام الی عبیداللّه بن عبّاس بن علیّبن ابی طالب علیه السلام فاستعبر ثمّ قال: ما مِنْ یوم اَشَدّ علی رسول اللّه مِنْ یوم اُحُد قُتِلَ فیه عمّه حمزة بن عبدالمطلب اسداللّه و اسد رسوله و بعده یوم موته قتل فیه ابن عمّه جعفربن ابی طالب، ثمّ قال ولایوم لیوم الحسین علیه السلام اذ دلف الیه ثلثون ألف رجل یزعمون اَنّهم من هذه الأمّة کلٌ یتقرّب اِلیاللّه عزوجل بدمه...۔۔
شیخ صدوق کی روایت کے مطابق امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا:
"رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر احد کا دن سب سے زیادہ شاق گزرا، کہ اس دن آپؐ کے چچا، شیرِ خدا و رسول، حمزہ شہید ہوئے۔ اس کے بعد جنگِ موتہ کا دن سخت ترین تھا جب جعفر طیار شہید ہوئے، اور ان دونوں سے بھی زیادہ سخت دن امام حسین علیہ السلام کا تھا، جس دن تیس ہزار افراد نے آپ کو گھیر رکھا تھا اور سب آپؑ کے خون سے تقربِ الٰہی حاصل کرنا چاہتے تھے۔"
(امالی صدوق، ص 277؛ بحارالأنوار، ج 22)
حضرت حمزہ بن عبدالمطلب (علیہ الرحمہ) کی حیاتِ طیبہ اور ان کی شہادت، دینِ اسلام کے لیے ایثار و قربانی کی بے مثال مثال ہے۔ وہ نہ صرف رسولِ خداؐ کے چچا تھے بلکہ اسلام کے پہلے علمبرداروں اور سرفروشوں میں شامل تھے۔ ان کا نام تا قیامت اہلِ ایمان کے دلوں میں عظمت و عقیدت سے زندہ رہے گا۔
آپ کا تبصرہ