آیاتِ زندگی | کیا آپ نے آخرت کے سفر کے لیے صحیح ہمسفر چن لیا ہے؟

حوزہ/ ہم دنیاوی سفر میں ہمسفر کے انتخاب میں نہایت احتیاط سے کام لیتے ہیں تاکہ کوئی ایسا رفیق ملے جو بوجھ نہ بنے بلکہ سہارا بنے۔ تو پھر آخرت کے اس ابدی سفر کے لیے ہم کیوں غفلت برتیں؟ وہاں بھی ایک ایسا ہمسفر درکار ہے جو ہمیشہ ساتھ رہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی | ہم دنیاوی سفر میں ہمسفر کے انتخاب میں نہایت احتیاط سے کام لیتے ہیں تاکہ کوئی ایسا رفیق ملے جو بوجھ نہ بنے بلکہ سہارا بنے۔ تو پھر آخرت کے اس ابدی سفر کے لیے ہم کیوں غفلت برتیں؟ وہاں بھی ایک ایسا ہمسفر درکار ہے جو ہمیشہ ساتھ رہے۔

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:

«مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا وَمَنْ جَاءَ بِالسَّیِّئَةِ فَلَا یُجْزَیٰ إِلَّا مِثْلَهَا وَهُمْ لَا یُظْلَمُونَ.» (سوره انعام، آیه ۱۶۰)

> "جو کوئی نیک کام انجام دے گا، اس کے لیے اس جیسی دس نیکیوں کو لکھا جائے گا، اور جو کوئی بد کام انجام دے گا تو اسے صرف ویسا ہی بدلہ دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہ کیا جائے گا۔"

سورہ انعام، آیت 160

قیامت کے دن وہ لوگ جو دنیا میں خدا سے رو گردانی کئے ہوئے تھے حسرت سے کہیں گے:

«فَلَوْ أَنَّ لَنَا کَرَّةً فَنَکُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ.» (سوره شعراء، آیه ۱۰۲)

> "کاش ہمیں ایک بار پھر دنیا میں لوٹایا جاتا تاکہ ہم ایمان لانے والوں میں سے ہوتے۔"

(سورہ شعراء، آیت 102)

حقیقت یہ ہے کہ آخرت کا اصل ہمسفر کوئی انسان نہیں بلکہ عمل ہے۔ یہی عمل قبر میں بھی ساتھ ہوگا، برزخ میں بھی اور قیامت میں بھی۔ اگر یہ نیک عمل ہوگا تو روشنی اور سہارا بنے گا، اور اگر برا عمل ہوگا تو بوجھ اور مصیبت کی شکل میں ساتھ رہے گا۔

امیرالمؤمنین حضرت علیؑ ایک حدیث میں فرماتے ہیں:

«إِنَّ اِبْنَ آدَمَ إِذَا کَانَ فِی آخِرِ یَوْمٍ مِنْ أَیَّامِ اَلدُّنْیَا وَ أَوَّلِ یَوْمٍ مِنْ أَیَّامِ اَلْآخِرَةِ مُثِّلَ لَهُ مَالُهُ وَ وُلْدُهُ وَ عَمَلُهُ فَیَلْتَفِتُ إِلَی مَالِهِ فَیَقُولُ وَ اَللَّهِ إِنِّی کُنْتُ عَلَیْکَ حَرِیصاً شَحِیحاً فَمَا لِی عِنْدَکَ فَیَقُولُ خُذْ مِنِّی کَفَنَکَ قَالَ فَیَلْتَفِتُ إِلَی وُلْدِهِ فَیَقُولُ وَ اَللَّهِ إِنِّی کُنْتُ لَکُمْ مُحِبّاً وَ إِنِّی کُنْتُ عَلَیْکُمْ مُحَامِیاً فَمَا ذَا عِنْدَکُمْ فَیَقُولُونَ نُؤَدِّیکَ إِلَی حُفْرَتِکَ نُوَارِیکَ فِیهَا قَالَ فَیَلْتَفِتُ إِلَی عَمَلِهِ فَیَقُولُ وَ اَللَّهِ إِنِّی کُنْتُ فِیکَ لَزَاهِداً وَ إِنْ کُنْتَ لَثَقِیلاً فَیَقُولُ أَنَا قَرِینُکَ فِی قَبْرِکَ وَ یَوْمَ نَشْرِکَ حَتَّی أُعْرَضَ أَنَا وَ أَنْتَ عَلَی رَبِّکَ.» (وسائل‌الشیعه، ج ۱۶، ۱۰۵)

"جب انسان اپنی دنیا کی زندگی کے آخری دن اور آخرت کی زندگی کے پہلے دن (یعنی وقتِ موت) پر پہنچتا ہے تو اس کے سامنے اس کا مال، اولاد اور عمل مجسم ہو جاتے ہیں۔ وہ مال کی طرف دیکھ کر کہتا ہے: میں نے تجھ پر بہت محنت اور بخل کیا، اب میرے لیے کیا ہے؟ مال جواب دیتا ہے: تیرا کفن۔ پھر اولاد کی طرف رخ کرتا ہے اور کہتا ہے: میں تمہیں چاہتا تھا اور تمہاری حفاظت کرتا تھا، اب میرے لیے کیا ہو؟ اولاد کہتی ہے: ہم تجھے قبر تک لے جائیں گے اور دفن کر دیں گے۔ پھر عمل کی طرف رجوع کرتا ہے اور کہتا ہے: میں نے تجھ سے کنارہ کشی بھی کی اور تجھے بوجھل بھی سمجھا، اب میرے لیے کیا ہے؟ عمل جواب دیتا ہے: میں قبر میں اور قیامت کے دن تیرا ساتھی ہوں گا، یہاں تک کہ تجھے تیرے رب کے سامنے پیش کیا جائے۔"

(وسائل الشیعہ، ج 16، ص 105)

لہٰذا اس سفر میں اگر ہم نے صحیح ہمسفر کا انتخاب نہ کیا تو یہ غفلت ابدی پشیمانی میں بدل جائے گی۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha