تحریر: مولانا حیدر رضا،متعلم مدرسہ جامعۃ العلوم قم
حوزہ نیوز ایجنسی। روز اربعین در حقیقت وہ دن ہے جس دن رسول اللہ کے مخلص اور بامعرفت صحابی جناب جابر بن عبداللہ انصاری مدینہ سے کربلا جگر گوشہ رسول ,یادگار علی و فاطمہ علیہما السلام مولا امام حسین اور انکے اعوان و انصار کی زیارت کے قصد سے آئے ۔
جناب جابر کا یہ علم و آگاہی اور عشق و معرفت سے بھرپور طرز عمل در حقیقت منکرین زیارت رسول و اولاد رسول کے رخ پر اک ایسا طمانچہ ہے کہ جس کا جواب دینے سے دشمنان اہل بیت قاصر اور غضب اور غصے کے سبب اپنی انگلیاں چبا رہے ہیں۔
صحابی رسول ( جناب جابر) کا پیری کے عالم میں اور وہ بھی اس وقت کہ جب انکی آنکھیں دیکھنے کی صلاحیت کھو چکی ہیں مدینہ سے کربلا آنا نہ صرف شد رحال کو جائز قرار دیتا ہے بلکہ انکا یہ طرز عمل اس بات کااعلان ہے کہ زمانہ کی ستم شعار حکومت یہ سمجھ لے کہ اگر چہ حسین کو اس نے بڑی بے دردی سے شہید کر ڈالا ہے لیکن اب بھی مقصد حسین باقی ہے اور اس راستے کے راہگیر بھی باقی ہیں جس پر حسین بن علی گامزن تھے۔
تاریخ کے صفحات پر جناب جابر کے اس مقدس اور نورانی سفر کا تذکرہ کچھ اس انداز میں ملتا ہے:
جناب جابر عطیہ کوفی کے ہمراہ شہادت زار کربلا پر پہونچے آب فرات سے غسل کیا خوشبو لگائی اور عطیہ کوفی سے کہا اے عطیہ مجھے قبر حسین پر لے چلو عطیہ کا بیان ہے کہ میں انہیں مولا حسین کی قبر پر لایا جابر نے اپنے ہاتھوں کو قبر حسین بن علی پر رکھا لیکن تاب ضبط نہ لاسکے اور غش کھا کر قبر پر گر پڑے اور جب غش سے افاقہ ہوا تو یا حسین ورد زباں تھا پھر جابر نے امام کی قبر کو دیکھ کر سوال کی صورت میں امام حسین علیہ السلام کی مصیبت کو بیان کیا حبیب لا یجیب حبیبہ؟
کیا ایک دوست اپنے دوست کا جواب نہیں دے گا؟
پھر جناب جابر نے اپنے اس سوال کا جواب کچھ اس طرح دیا کہ: آخر وہ دوست اپنے دوست کا جواب کیسے دے جس کے سر و تن میں جدائی کر دی گئی ہو اور جس کا شانہ اور سینہ اس کے گلے کی رگوں کے خون سے تر بتر ہو۔
اس کے بعد جناب جابر نے اک مخصوص متن و الفاظ میں امام کی زیارت کی۔
یہ بات مسلم ہے کہ جناب جابر نے روز اربعین امام حسین علیہ السلام کی زیارت کی ہے ۔ لیکن جناب جابر کی اہل حرم سے روز اربعین ملاقات کے سلسلہ میں نظریات مختلف ہیں ;
جو اس بات کے قائل ہیں کہ جناب جابر کی امام سجاد علیہ السلام سے روز اربعین ملاقات ہوئی ہے وہ واقعہ کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ:
عطیہ نے راہ شام کی جانب جو نظر کی تو انہیں سیاہی نظر آئی لہذا انہوں نے اس کا تذکرہ جناب جابر سے کیا جناب جابر نے اپنے غلام سے کہا کہ پتہ کرو کہیں یہ دشمن کا لشکر تو نہیں جو بڑھا چلا آ رہا ہے اگر دشمن کا لشکر ہو تو ہم خود کو کسی محفوظ جگہ چھپا لیں اور اس طرح انکے شر سے محفوظ ہوجائیں اور سن اے میرے غلام اگر یہ اہل حرم کا قافلہ ہوا تو میں تجھے آزاد کردونگا غلام اس راستہ پر پہونچا جو شام سے کربلا آرہا تھا اور واپس آکر اس نے جناب جابر سے کہا اے میرے آقا یہ اہل حرم ہی کا قافلہ ہے ۔ جابر نے اپنے غلام سے کہا اے میرے آزاد کردہ غلام بس تجھے اک آخری زحمت دینا چاہتا ہوں مجھے اہل حرم کے استقبال کے کئے ان کے قافلہ کے پاس لے چل ۔
جناب جابر غلام کے ہمراہ قافلہ کی طرف بڑھے مولا سجاد نے کیا دیکھا نانا کا صحابی جابر کچھ بنی ہاشم اور دیگر شیعوں کے ہمراہ کربلا زیارت کرنے کے لئے آیا ہے ۔
کربلا سے کوفہ اور کوفہ سے شام تک کوئی اپنا ایسا نہ ملا جس سے امام اپنا غم بانٹتے لیکن جیسے ہی امام جابر کے پاس پہونچے امام نے تڑپ کر اپنے نانا کے صحابی جابر کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا :
یا جابر ھھنا واللہ قتلت رجالنا و ذبحت اطفالنا و سبیت نسائنا و حرقت خیامنا
اے میرے نانا کے صحابی جابر یہ وہی سرزمین ہے جہاں ہمارے مردوں کو قتل کر ڈالا گیا اور ہمارے بچوں کو ذبح کر ڈالا گیا اور ہمارے گھر کی نوامیس کو اسیر بنایا گیا اور ہمارے خیموں کو جلایا گیا۔
ادھر سیدانیوں نے خود کو اپنے ناقوں سے گرالیا اور تمام مناظر نظروں پر چھا گئے سیدانیاں ایک قبر سے دوسری قبر پر جاتی رہیں ۔
جب زینب اپنے ماں جائے حسین کی قبر پر پہونچیں تو تاب ضبط نہ رہا اور بےہوش ہوگئیں جب غش سے افاقہ ہوا تو اب اک بہن اپنے بھائی سے مخاطب ہوئی بھیا: تیری بہن آئی ہے لیکن تیری امانت کو بہن نہ لا سکی ہاں بھیا زینب اس سفر سے نانا کی امت کی عطا کردہ سوغات لائی ہے اور نامحرموں کا مجمع نہ ہوتا تو زینب اپنی پشت کے نشانات دکھاتی۔
تاریخ کے صفحات پر اشکبار قلم نے یہ بھی لکھا کہ :
تین شب و روز تک کربلا کے میدان میں مسلسل عزاداری برپا تھی سیدانیاں ایک قبر سے دوسری قبر پر جاتی رہیں اہل حرم کی حالت کو دیکھ کر مولا سجاد نے مدینہ کی طرف کوچ کرنے کا اعلان کیا اور ادھر جناب رباب نے امام حسین علیہ السلام کی قبر پر عہد کرلیا کہ جب تک زندہ رہوںگی سایہ میں نہ جاؤنگی اور جب تک زندہ رہیں اپنے اس عہد پر باقی رہیں۔ تین شب و روز عزاداری کے بعد یہ قافلہ مدینہ کے لئے روانہ ہوگیا۔
کچھ حضرات اس بات کے قائل ہیں کہ جناب جابر کی امام سجاد سے ملاقات روز اربعین نہیں ہوئی ہے بلکہ اسی سال یعنی 61 ہجری ہی میں جابر اک اور دفعہ زیارت کے لئے آئے اس وقت جناب جابر کی امام سجاد سے ملاقات ہوئی ہے ۔
نتیجہ:
ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مندرجہ ذیل نتیجے حاصل ہوتے ہیں:
(1) روز اربعین جناب جابر نے عطیہ کوفی کے ہمراہ امام حسین علیہ السلام کی زیارت کی ہے یہ بات مسلم ہے
(2) امام سجاد اہل حرم کے ہمراہ کربلا آئے ہیں اور شہدا کے سروں کو ان کے تنوں سے متصل کر کے دفن کیا ہے
اختلاف صرف اس بات میں ہے کہ روز اربعین آئے ہیں یا کسی اور دن ۔ اور جناب جابر سے ملاقات ہوئی ہے یا نہیں۔