۱۸ شهریور ۱۴۰۳ |۴ ربیع‌الاول ۱۴۴۶ | Sep 8, 2024
علی گڑھ ہندوستان

حوزہ/گزشتہ روز ایک مجلس عزاء امامیہ ہال نیشنل کالونی علی گڑھ ہندوستان میں منعقد ہوئی، مجلس کا آغاز شاعر اہلبیت، اظہر زیدی صاحب کے نذرانہ منظوم سے ہوا۔ اس کے بعد الحاج شاہد حسین جعفری صاحب نے اپنی منفرد آواز و انداز میں سوز خوانی پیش کی۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مجلس کو خطاب پروفیسر (ڈاکٹر) اصغر اعجاز قائمی صاحب قبلہ (شعبۂ شیعہ دینیات، اے ایم یو، علی گڑھ) نے فرمایا۔ آپ نے خطاب کا سرنامہ کلام و مطلع سخن حضرت محمد مصطفٰی ﷺ کی معروف حدیث پاک "اوّل محمد، اوسط محمد، آخر محمد و کل محمد" بنایا۔ مولانا موصوف نے اپنے خطاب کے عنوان پر کچھ کہنے کے قبل افسوس کا اظہار کرتے ہوئے مومنین کے اذہان عالیہ میں نشیں کرنے کی سعی کرتے ہوئے کہا کہ شہر علی گڑھ جن کے نام پر ہے ان کی برکت تو لی لیکن زبان نہ لے سکے۔ اب تو ستم ظریفی یہ ہے کہ منبر سے آیت کی تلاوت غلط ہو رہی ہے اور نمازوں میں سورۃ فاتحہ و سورۃ اخلاص بھی صحیح نہیں پڑھی جا رہی ہیں اور اپنے شعبہ دنیات کا المیہ انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ درس دیتے ہوئے دیکھا گیا کہ اب طلباء کو بارہ اماموں کے نام بھی صحیح معلوم نہیں۔ یہ اپنے معاشرے کا درد افسوسناک حقیقت ہے۔

نہج البلاغہ اور صحیفہ کاملہ کا مطالعہ اور ان پر عمل باعث نجات ہے، پروفیسر اصغر اعجاز قائمی

پروفیسر اصغر اعجاز قائمی صاحب قبلہ اپنے تحقیقی، عالمانہ اور ظریفانہ انداز میں بیان کرتے ہوئے "محمود، محمد، حمد، مدح، خطبا اور دعا" پر وضاحت کے ساتھ گفتگو کی۔ آپ نے بتایا کہ پروردگار عالم نے اپنے آپ کو 'محمود' فرمایا جس کا مفہوم ہے تعریف کرنا، لیکن اپنے حبیب، خاتم النبیینؐ کو قرآن کریم میں محمد کہا جس کے معنی ہیں بہت زیادہ تعریف۔ وضاحت و تشریح یہ ہے کہ پروردگار کائنات اپنے لیے تعریف کی بات فرماتا ہے اور تاجدار انبیاءؐ کے لئے بہت زیادہ تعریف کرنے کی بات فرماتا ہے۔

پروفیسر اعجاز قائمی صاحب نے شرکائے مجلس کو 'خطبا' اور 'دعا' میں فرق بتایا اور باب العلم، حضرت علیؑ ابن ابی طالب علیہ السلام کے خطبوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جب آپؑ کے سامنے عوام اور اصحاب تھے، حالات سازگار تھیں تو منبر و محراب سے خطبے فرمائے جسے نہج البلاغہ میں مطالعہ و مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ لفظ 'دعا' کے معنی و مطالب بتاتے ہوئے کہا کہ اس کا معنی ہے اللہ پاک سے باتیں کرنا۔ واقعہ کربلا کے مصائب کے بعد حالات ناسازگار تھے تب علیؑ ابن الحسینؑ جن کے القاب زین العابدین و سید الساجدین بھی ہے، رب العزت سے باتیں کرتے ہوئے دعاؤں کا مجموعہ تیار کیا جسے صحیفہ کاملہ کہتے ہیں۔ فضیلت، عظمت و کمالات کا مشاہدہ کرنے کے لئے نہج البلاغہ اور صحیفہ کاملہ کا مطالعہ اور ان پر عمل لازمی ہے۔ دنیا و آخرت میں سرخرو ہونے کے لئے ہدایت و سفینہ ہے۔

انہوں نے حضرت سکینہؑ کے مصائب بیان کرتے ہوئے کہا کہ بعد شہادت سید الشہداء حضرت سکینہ سلام اللہ علیہ اپنے پدر کی تلاش میں صدائیں دیتی ہوئی نکلیں، آپؑ کی تلاش میں حضرت زینبؑ نکلیں، آپ نے دیکھا سکینہؑ ایک لاش سے لپٹی رو رہی ہیں، حضرت زینبؑ نے سکینہؑ سے سوال کیا کہ بیٹی نہ سر ہے اور نہ جسم پر لباس ہے تو کیسے پہچانا کہ یہ آپ کے بابا کا جسم ہے، بابا کے جسم سے آواز آئی "میں ادھر ہوں" عزاداران شہدائے کربلا سکینہ سلام اللہ علیہا کے مصائب سماعت کر اشکبار ہوئے اور گریہ بلند کیا۔

مجلس میں شرکت کرنے والوں میں الحاج سید شباب حیدر صاحب قبلہ، محمد مجلسی صاحب قبلہ، مبارک زیدی صاحب، حسنین زیدی صاحب اور ڈاکٹر مہتاب احمد صاحب وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ سید علی نواب رضوی صاحب کی جانب سے مجلس منعقد ہوئی اور تبرک تقسیم کیا گیا۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .