۲۶ شهریور ۱۴۰۳ |۱۲ ربیع‌الاول ۱۴۴۶ | Sep 16, 2024
ڈاکٹر اصغر اعجاز قائمی

حوزہ/ علی گڑھ ہندوستان میں مثل سالہائے گزشتہ امسال بھی حضرت ابا عبداللہ الحسین علیہ السلام اور آپؑ کے باوفا اصحاب کی عظیم قربانیوں و اسیرانِ کربلا کے دلخراش مصائب کی یاد تازہ رکھنے کے لیے ایک مجلسِ عزاء امامیہ ہال، نیشنل کالونی میں منعقد ہوئی۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، علی گڑھ ہندوستان میں مثل سالہائے گزشتہ امسال بھی حضرت ابا عبداللہ الحسین علیہ السلام اور آپؑ کے باوفا اصحاب کی عظیم قربانیوں و اسیرانِ کربلا کے دلخراش مصائب کی یاد تازہ رکھنے کے لیے ایک مجلسِ عزاء امامیہ ہال، نیشنل کالونی میں منعقد ہوئی۔

مجلسِ عزاء کا آغاز محترم قاری میر راشد حسین صاحب کی سوز خوانی سے ہوا۔ آپ نے اپنے مخصوص انداز و آواز اور لب و لہجے میں شیر خدا کے فرزند، حضرت عباس علمدارؑ کے فضائل پیش کیے اور داد و تحسین حاصل کی۔

ہیبت شیر خدا تھی حضرت عباس میں

قوت خیبر کُشا تھی فطرت عباس میں

حکم سرور نے کیا مجبور ورنہ اے رواں

قہر حق نازل ہوا تھا حضرت عباس میں

شہر علم و ادب میں یہ قدیمی مجلس مرکزی حیثیت کی حامل ہے، جس کا آغاز الحاج مرتضٰی حسین بلگرامی مرحوم نے 72 سال قبل کیا۔ اس مجلس کی روایت یہ رہی ہے کہ بانی مجلس اپنی ضعیفی میں بھی خود پیش خوانی کیا کرتے تھے، اس روایتی سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے آپ کے فرزند ارجمند محمد منتظر صاحب نے پیش خوانی کی۔

پروفیسر (ڈاکٹر) اصغر اعجاز قائمی، شعبۂ شیعہ دینیات، اے ایم یو، علی گڑھ نے مجلس سے خطاب کرتے ہوئے بیان کیا کہ پروردگار عالم اپنے نمائندے، ہادی کا انتخاب خود کرتا ہے اور اپنے انتخاب کردہ کی خصوصیات کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ انسان دو طرح کے ہوتے ہیں جس میں ہادی کی زندگی ہدایت کرنا ہے اور دوسرے عام لوگ جن کا مقصد خلقت ہے ہادی سے ہدایت پانا۔ ہادی اور عام لوگوں میں فرق بتاتے ہوئے کہا کہ ہادی وہ ہوتا ہے کہ جس طرح سے اپنے آگے دکھتا ہے اسی طرح وہ پیچھے بھی دکھتا ہے۔

اس خوبی کی وضاحت کرتے ہوئے مولانا موصوف نے حاضرین مجلس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ رسول اکرم (ص) نماز میں جب قیام میں رہتے تو صحابی کرام رکوع میں ہوتے، آپؐ سجدے میں ہوتے تو صحابی حضرات قعُود یا تشہد میں ہوتے۔ بعد نماز رسول اکرمؐ دریافت کرتے کہ یہ کیا کرتے ہو۔ یہ نماز نہیں ہوتی۔ صحابی سمجھتے کہ ہم لوگوں نے جو کچھ کیا رسولؐ نے نہیں دیکھا لیکن رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ جتنا میں آگے دکھتا ہوں اتنا ہی پیچھے بھی دکھتا ہوں۔ مزید فرمایا کہ ہادی دل و دماغ کی بات کو بھی جانتا ہے۔ اسی طرح میں جانتا ہوں کہ تمھارے دل میں کیا ہے۔ تخت سلیمانی کا گزر ہوا، حضرت سلیمان نے چینوٹی کی آواز سن لی، آج اکیسویں صدی میں سائنسدانوں کی قوت و علم سے باہر ہے کہ کسی چینوٹی کی آواز کی سماعت کر لے۔ ایک اور مثال دیتے ہوئے اپنی گفتگو کا اختتام کیا کہ حضرت علی علیہ السلام ذرہ صرف سینہ پر لگاتے، پشت پر نہیں لگاتے، کسی نے کہا یا علیؑ آپ ذرہ پشت پر نہیں لگاتے۔ حضرت علیہ السلام نے جواب دیا کہ دشمن پشت پر وار کر نہیں سکتا، کیونکہ پیچھے سے دشمن کے حملوں سے واقف رہتا ہوں۔ ایسے ہوتے ہیں اللہ کے ہادیؑ۔

مجلس کا انتظام و اہتمام فرزندانِ الحاج مرتضٰی حسین بلگرامی مرحوم نے بڑے حسن و خوبی سے کیا۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .