۱۸ آبان ۱۴۰۳ |۶ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 8, 2024
مولانا سید زاہد حسین

حوزہ/مولانا سید زاہد حسین نے علی گڑھ ہندوستان میں مجلسِ عزاء سے خطاب میں عبادت کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کثرت عبادت؛ ملائکہ کی صف میں شامل ہونے کا ذریعہ ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، گزشتہ روز بمناسبت شہادتِ امام علیؑ ابن الحسینؑ زین العابدین، امام بارگاہ زینبیہ علی نگر دھورہ، بائی پاس علی گڑھ ہندوستان میں ایک مجلسِ عزاء منعقد ہوئی، مجلس سے عالی جناب مولانا سید زاہد حسین صاحب قبلہ، شعبۂ شیعہ دینیات و امام جمعہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے خطاب کیا۔

مجلس کا آغاز معروف سوز خوانی اور سلام سے ہوا، سوز خوانی جناب سید دانش زیدی صاحب نے کی، جبکہ جناب سید ضیاء امام نے سلام پیش کیا۔

عالی جناب مولانا سید زاہد حسین نے مجلس سے خطاب کرتے ہوئے سورۃ نمل کی آیت مبارکہ نمبر 62 کو مطلع سخن قرار دیا جس میں ارشاد باری تعالٰی ہو رہا ہے "بھلا وہ کون ہے جو مضطر کی فریاد کو سنتا ہے جب وہ اس کو آواز دیتا ہے اور اس کی مصیبت کو دور کر دیتا ہے اور تم لوگوں کو زمین کا وارث بناتا ہے۔ کیا خدا کے ساتھ کوئی اور خدا ہے؟ نہیں بلکہ یہ لوگ بہت کم نصیحت حاصل کرتے ہیں۔" معبود چاہتا ہے کہ اس کا بندہ اس سے مطالبہ کرے، مانگے۔ وہ عطاء کرنے والا ہے۔ دینے والے کے پاس کمی نہیں ہے، بلکہ لینے والے کو جب رحمتیں اور نعمتیں عطاء فرماتا ہے تب پانے والا مغرور و متکبر ہو جاتا ہے، جسے پروردگار ناپسند و ناگوار کرتا ہے۔

انہوں نے عبادت کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کثرت عبادت سے صف ملائکہ میں پہنچا جا سکتا ہے، لیکن ایک حکم نہ ماننے کے سبب ابلیس ہمیشہ کے لئے بارگاہ یزدی سے مردود کہہ کر نکالا گیا اور لعنتی قرار پایا یہ عبادات گزاروں کے لئے عبرت ہے کہ اپنی عبادات کثرت پر تکیہ نہ کریں، بلکہ معرفت پر توجہ مرکوز کریں۔

مولانا موصوف نے صحیفہ کاملہ کے طرزِ تحریر و انداز نگارش، اسلوبِ خطاب، دعا کی تعلیم، خوف و رجاء کی تلقین، صحیفہ کی جامعیت، غرض و غایت، مفہوم، حکم، دعاؤں کی ہمہ گیری و فطری اہمیت، نفسیاتی فوائد، الفاظ دعاء، ترتیب دعاء کا لحاظ، ہیئت دعاء، شرائط قبولیت دعاء، آغاز و ختم دعاء کے آداب، ذریعہ و توسل، اوقات دعاء، مقامات قبولیت دعاء وغیرہ پر مفید گفتگو کی۔

مولانا سید زاہد حسین صاحب لکھنوی نے صحیفہ کاملہ کی ساتویں دعاء کی ترجمہ کے ساتھ تلاوت کی اور کہا کہ اسے دعا فی المھمّات کہتے ہیں، اس کی اہمیت و افادیت پر بھی روشنی ڈالی، جب کرونا کا دور تھا، لوگ مضطرب تھے، سانس لینے میں دشواری ہو رہی تھی، افرا تفری کا منظر عام تھا، ہلاکتیں ہو رہی تھیں، دوست و احباب ایک دوسرے سے دوریاں اختیار کیے ہوئے تھے تب مراجع کرام نے اس دعاء کو کثرت سے پڑھنے کی تاکید کی، کیونکہ اس دعا کے تخلیق کار، امام زین العابدین علیہ السلام بھی جب کوئی مہم در پیش ہوتی یا کوئی مصیبت نازل ہوتی یا کسی قسم کی بے چینی ہوتی تو آپ یہ دعاء پڑھتے تھے۔

انہوں نے سید الساجدین، عابد و پیغمبرِ کربلا کے اخلاق، صبر، زہد، تقویٰ علم اور آپؑ کے حلم پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ صحیفۂ کاملہ آپؑ کی ۵۴ دعاؤں کا مجموعہ ہے، جس میں بے شمار علوم و فنون کے جوہر موجود ہیں۔ اسے علماء کرام نے زبورِ آل محمد اور اِنجیل اہلبیت علیہ السّلام کہا ہے۔

کثیر تعداد میں سوگواران پیغمبرِ کربلا نے مجلسِ عزاء میں شرکت کی۔ مجلس کے انتطام، اہتمام، انعقاد اور کامیاب بنانے میں پروفیسر محسن صاحب نے کلیدی کردار ادا کیا۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .