۷ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۷ شوال ۱۴۴۵ | Apr 26, 2024
مولانا شمشیر علی مختاری

حوزہ/ علماء لکھنؤ سے گذارش ہے کہ ایسے دستور اور فیصلے مرتب ہوں جو صرف لکھنو کےلئے نہیں بلکہ پورے ملک کےعزاداروں کی سر بلندی کا سبب ہو۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجۃ الاسلام مولانا شمشیر علی مختاری ،مدیر مدرسہ جعفریہ کوپاگنج،ضلع مئو،اتر پردیش نے امسال محرم کے سلسلہ میں ڈی جی پی اتر پردیش کا  متنازعہ سرکلر شیعہ سماج اور عزاداروں میں زبردست اختلاف و انتشار کا باعث قرار دیتے ہوئے کہا ایک پیغام جاری کیا جسکا مکمل متن اس طرح ہے؛

بسم اللہ الرحمن الرحیم

محترم علماء، طلاب مدراس دینیہ، اور مومنین کرام-- السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ جزاکم اللہ خیرا،جیسا کہ آپ سبھی حضرات کو معلوم ہے کہ مکتب تشیع اور عزاداران مظلوم کربلا علیہ السلام پر اتر پردیش کے اعلی سرکاری ذمہ دار کی طرف سے تاریخ کے خطرناک اور سنگین ترین الزامات لگائے گئے ہیں، اور چند افراد کے علاوہ کسی کو لگتا ہے خبر ہی نہیں ہے۔۔۔کچھ علماء کرام اپنے اپنے اعتبار سے کوشش بھی کر رہے ہیں، کل سے مسلسل گروپوں پر مولانا کلب جواد صاحب کا بیان وائرل ہورہا ہے کہ احتجاج ختم میرے پاس ڈی،جی،پی،(.d.g.p)صاحب کا فون آیا تھا۔

باقی ساری باتیں آپ حضرات کو معلوم ہیں، سوال یہ ہے کہ جب یہ کہا گیا کہ یہ خفیہ ایڈوائزری تھی جو لیک ہوگئی تو یہ تو ایک اور سنگین جرم کا اضافہ ہوا کہ ہم شیعہ،عزادار جو کم بھی ہیں اور ایک حد تک کمزور بھی ہیں اب تک ہم بڑے سکون واطمینان سے اپنے مذہبی پروگرام بالخصوص عزاداری انجام دیتے تھے کیونکہ ہمیں یقین تھا ساشن،پرشاشن کے لوگ ہم پر ظلم نہیں ہونے دیں گے اور ہم اپنے مذہبی امور کی انجام دہی میں آزاد ہیں جو بھارت کی تاریخ میں سیکڑوں سال سے ہوتے چلے آرہے ہیں، اور اب اس گائڈ لائن کی وجہ سےہماری حفاظت اور دیکھ ریکھ پر مامور پولیس کے جوانوں میں جو زہر گھول دیا گیا ہے اس کا ازالہ کیسے ہوگا؟کیا صرف مولانا کلب جواد صاحب کا یہ کہدینا کافی ہے کہ میرے پاس فون آیا ہے۔

آپ حضرات اچھی طرح جانتے ہیں ہمارے اوپر تہمت،بہتان اور بےبنیاد الزامات پر مشتمل گائڈ لائن تقریبا ہندوستان کے بچے بچے تک پہونچ چکی ہے بلکہ اس موبائل نے ہندوستان سے باہر بھی ہمیں ذلیل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

ایسے ہمارے خلاف خفیہ سازش پر صرف خفیہ معذرت کافی نہیں ہے، بڑی معذرت کے ساتھ تمام علماء کرام بالخصوص علماء لکھنوء سے دست بستہ گذارش ہے کہ کم از کم مذہب بالخصوص عزاداری مظلوم کربلا علیہ السلام جوہماری روح،ہماری جان،ہماری شان اور پہچان ہے،کےلئے میں، سے نکل کر ہم، میں آجائیں تاکہ مظلوم یتیمان آل محمد علیھم السلام اور عزاداروں کا حوصلہ بلند رہے اور قوم و ملت کے بزرگ خاص طور پر علماء لکھنوء سے گذارش ہے کہ ایسے دستور اور فیصلے مرتب ہوں جو صرف لکھنو کےلئے نہیں بلکہ پورے ملک کےعزاداروں کی سر بلندی کا سبب ہو۔

آخر میں یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ چار(4)اگست کومصطفےآباد جلال پور میں ایک حسینیہ(قاعت المہدی)کے افتتاح کی تقریب میں ایک چینل(جون پور عزا) کے ذمہ دار محترم جناب سید خادم حسین صاحب نے انٹرویو لیا جس میں میں نے صاف طور پر کہا کہ جو الزامات ہمارے اوپر لگائے گئے ہیں اگر وہ سچ ہیں تو ہماری سزا یہ نہیں ہے کہ صرف ہمارے جلوس وغیرہ بند کیئے جائیں ایسے ایسے سنگین جرم والوں کی سزا پھانسی ہونی چاہئے،ہمیں قتل کردیا جائے یا پھر جن شیطانی سازشوں نے دنیا کے تقریبا چالیس کروڑ شیعیان حیدر کرار، عزاداران شہداء کربلا علیہم السلام کا دل دکھایا ہے انھیں بے نقاب کر کے، ہمارے ملک کی محترم عدالت میں کھڑا کیا جائے تاکہ آئندہ کوئی ہمارے ملک میں فتنہ فساد یا ہمارے دیش کے اچھے اور انصاف پسند ذمہ داروں کو بدنام کرنے کی ناکام کوشش نہ کرے، آخر میں تمام قومی،مذہبی خدمات انجام دینے والوں کے لئے صحت وسلامتی اور طول عمر کی دعاؤں ساتھ اگر میرے اس مضمون سے کسی کو تکلیف ہوئی ہو تو معذرت خواہ ہوں، گائڈ لائن کے الفاظ نے پوری طرح زخمی کردیا ہے خدا را امام اور مکتب تشیع کے نام پرہمارے اہل حل وعقد ایک ہوکر اقدام کریں مولا کو سب پتہ ہے کس کی کوشش کا نتیجہ کیا ہے۔

خاتون جنت بی بی زہرا سلام اللہ علیہا سے زیادہ کوئی اجر نہیں دے سکتا ۔۔۔تمام مومنین کرام سے بھی عاجزانہ التماس ہے کہ ایام عزا کے ساتھ ہمیشہ بہت سوچ سمجھ کر زندگی گذاریں،صرف ہندوستان نہیں بلکہ پوری دنیا میں کہیں بھی شیعوں نے صدر اسلام سے لیکر آج تک جو کام نہیں کئے اسے بڑی ہوشیاری سے دشمنوں نے ہم سےمنسو ب کروا کر ہمیں ذلیل کرنے کی ناکام کوشش کیا ہے ۔۔۔۔دعاؤں میں یاد رکھنے کی گذارش کے ساتھ فی امان اللہ، شمشیر علی مختاری پرنسپل مدرسہ جعفریہ کوپاگنج مئو یوپی انڈیا---27/ذی الحجہ 1442(7/اگست 2021)

نوٹ:-اگر مناسب ہو تو ہمارے بزرگ علماء، مولانا حمیدالحسن صاحب قبلہ، مولانا شمیم الحسن صاحب قبلہ،مولانا آغا روحی صاحب قبلہ،  مولانا ابن حسن صاحب قبلہ، مولانا کلب جواد صاحب قبلہ اور مولانا یعسوب عباس صاحب قبلہ مولانا ناظم صاحب قبلہ مولانا قاضی عسکری صاحب قبلہ وغیرہ دام ظلہم بیٹھ کر سنجیدگی سے اس سلسلے میں غور و فکر فرمائیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .