۱۳ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۳ شوال ۱۴۴۵ | May 2, 2024
مولانا شیخ علی حسین مبارکپوری

حوزہ/ مولانا شیخ علی حسین مرحوم و مغفور اپنی تمام تر مصروفیات کے با وجود اپنا اکثر وقت عمیق تاریخی ، تفسیری ، فلسفی ، علم کلامی اور سیرت کی کتب کے مطالعے میں گزارتے تھے ۔ کثر ت مطالعہ ہی کا نتیجہ تھا کہ آپ ہر موضوعات پر سیر حاصل گفتگو فرماتے تھے ۔

تحریر : محمد رضا ایلیا مبارکپوری

حوزہ نیوز ایجنسی | مولانا شیخ علی حسین مرحوم و مغفور کی کا میاب زندگی بے حد مشکلات کے دور سے گزری لیکن آپ نے ان سختیوں کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے بجائے مستحکم ، عزم مصمم کے ساتھ ان کا مقابلہ کرتے رہے ۔ بعد ازاں آپ ’’ مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہوگئیں ‘‘ کے مصداق قرار پائی۔ آپ نے سختیوں سے نپٹنے کی خود اپنے اندر قوت پیدا کی ۔ دھیرے دھیرے یہی آپ کی فطرت ثانیہ بن گئی ۔ ان تمام دنیاوی مشکلات کے سامنے اپنے اہداف کو مشکلات کی نذر نہیں ہو نے دیا کیونکہ جس کے ہاتھ میں دامن رسولﷺ آل رسولؐ اور دل میں الفت اہلبیتؑ ہو وہ ہر مشن میں کامیاب کامران ہو تا ہے ۔

آپ اپنے دور کے بہترین خطیب تسلیم کیے جا تے ہیں ۔ مشکل اور ظریف علمی مطلب کو آسان اور سلیس لہجے میں سامعین کے دلوں میں ثبت کر دینا آپ کا خا صہ تھا ۔ اپنے مقصود کو سامعین تک منتقل کرنے کے لیے ایسے مقدمہ سازی کرتے کہ جس کے بعد مطالب کو سمجھنا بہت ہی آسان ہو جا تا تھا ۔ اس کے علا وہ محا فل اور آل انڈیا مقا صدے میں ایسے سبق آموز واقعات کا سہارا لیتے کہ جسے سننے کے بعد سامعین میں خوشی کی فضا قائم ہو جاتی، اس کے فوراً بعد اسی سبق آموز واقعے سے مربوط ایک اصلاحی نکتہ ارشاد فرماتے تھے جس کے بعد لو گوں کے دانتوں تلے انگلیاں آجا تی تھیں ۔ فن خطابت کی ایک خصو صیت یہ بھی تھی کہ کبھی بھی اپنے سامعین کو تھکاوٹ محسوس نہیں ہونے دیتے تھے۔ آپ کی مدلل با تیں عوام کے درمیان ان کے فہم و ادراک کے مطابق ہو تی تھیں۔ وہ یہ محسوس کر تے کہ گویا آپ کی تقریر بس انہیں کے لیے ہیں کیو نکہ ان کی خطابت مقتضائے حال کے عین مطابق ہو ا کرتی تھی ۔

مولانا عارف حسین مبارکپوری اپنے مضمون ’’ مولاناعلی حسین کی کچھ اہم خصوصیات ‘‘ لکھتے ہیں :
’’ میں اپنے طالب علمی کے زمانہ میں اکثر مولانا علی حسین مرحوم و مغفور کی خدمت میں حا ضر ہو تا رہتا تھا ۔ اس وقت ایسا محسوس ہو تا تھا کہ گویا ایک شفیق اور دل سوز باپ اپنے بیٹے کو نصیحت کر رہا ہو ۔ یہی تو آپ کا کمال تھا کہ ہر صنف سے تعلق رکھنے والے شخص آپ سے محبت و الفت اور ہمیشہ آپ کی زیارت کے مشتاق رہتے تھے ۔ ‘‘ (مضمون’’مولاناعلی حسین کی کچھ اہم خصوصیات‘‘ مولانا عارف حسین مبارکپوری صفحہ 01)

قسط اول:

مولانا شیخ علی حسین مبارکپوری ایک ہمہ گیر شخصیت

مولانا علی حسین نے کئی کتابیں تحریر کیں جس میں ’’ رد الاغلاط ‘‘ ،’’مناقب الحسنین‘‘،’’ مسیحی مناظر ہ ‘‘،’’اصول مدرس ‘‘،’’مناظرہ حسینہ‘‘،’’ درس مفصل ‘‘، مخزن علم ‘‘ ، ’’ فن تدریس ‘‘ ، باب العلم از دید گاہ علما ‘‘،’’ حسینی شا عری ‘‘( شاعری مجموعہ غیر مطبوعہ) وغیرہ تحریر کیں ۔ ’’ رد الاغلاط ‘‘ کے علا وہ دیگر کتابیں طبع نہ ہونے کی صورت میں منظرعام پر نہ آسکیں۔ رد قادیانیت پر منحصر لاجواب کتاب ’’وفات قادیانیت ‘‘ نانا مرحوم کا ایک قلمی نسخہ جو میرے پاس موجود ہے جس کو میں کمپوزنگ کرا کر اختتامی منزل میں ہے اور شائع کرنے کے فراق ہوں۔

مولانا شیخ علی حسین مرحوم و مغفور اپنی تمام تر مصروفیات کے با وجود اپنا اکثر وقت عمیق تاریخی ، تفسیری ، فلسفی ، علم کلامی اور سیرت کی کتب کے مطالعے میں گزارتے تھے ۔ کثر ت مطالعہ ہی کا نتیجہ تھا کہ آپ ہر موضوعات پر سیر حاصل گفتگو فرماتے تھے ۔ آپ کی گفتگو میں اتنی تاثیر ہو تی تھی کہ جس سے ایک بار سمجھا دیا وہ آپ کے سامنے سر تسلیم خم کر دیتا ۔ آپ کی سب سے اہم خصو صیت یہ بھی تھی کہ آپ نے اپنی زندگی میں کبھی کسی منصب کے لیے سعی و کو شش نہیں کی نہ آپ سیا سی الجھنوں کے شکار ہوئے اور نہ ہی کسی اختلاف کی نذر ہوئے ۔ آپ نے کبھی بھی اپنی شخصیت کو سیا ست دانوں کے مفادات کی سولی پر چڑھنے نہیں دیا ۔ آپ ہمیشہ تبلیغ دین اور اصلاح امت سے سروکار رکھتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی ہر دل میں آپ کی باتیں اور سبق آموز نصیحتیں ہر طبقے اور گروہ کی زبان پر جاری ہیں ۔

مولانا نا ظم علی خیر آباد ی مولانا علی حسین کی علمی صلاحیت کااعتراف کرتے ہیں تحریر کرتے ہیں :
’’مولاناعلی حسین کے انتقال کے بعد حقیر راقم الحروف کو کچھ کتابیں دیکھنے کا موقع ملا تو کتابوں پر ان کے وقیع حاشیوں اور فٹ نو ٹ سے ان کی علمی بلند ی اور مطالعہ کے تبحر کا اندازہ ہو تا ہے ۔ ‘‘ (دیار مشرق، تذکرہ علما شیعہ ص 63)

مبارکپور کی معمر معزز بعض شخصیات کے پاس مولانا کے قلمی نسخے موجود ہیں ۔ علا وہ ازیں مولانا شیخ علی حسین مرحوم و مغفور کے مضامین بھی کا فی اہمیت کے حامل ہے ۔مو صوف نے جتنے بھی مضامین لکھے وہ اپنے آپ میں تحقیق کے اعلیٰ نمونہ کی مثال ہیں ۔ موصوف کے مضامین میں علمی کا وش ، ریسر چ ، تعلیمات آل محمد ، تحریر مبنی بر دلائل کے علا وہ جنتے موضوعات پر قلم اٹھایا اس مو ضوع کا حق ادا کر دیا ۔ آپ کے تما م مضامین کو تحقیقی دستاویزمیں شما ر کیا جا تا ہے ۔ آپ کے زیا دہ ترمضامین لکھنؤ سے شایع ہونے والا رسالہ ’’ الواعظ ‘‘ اور’’ سرفراز ‘‘میں شایع ہوئے ہیں ۔

مولانا علی حسین نے قادیا نیت کی رد میں ایک رسالہ تحریر کیا جو طبع ہوا ۔ اس وقت انہوں نے وہ قیمتی رسالہ بطور تحفہ شاعر اہل بیت جناب ایو ب صاحب مبارکپوری کو عطا کیا تھا ۔ بعد میں یہ رسالہ جناب ایوب نے مولانا ناظم علی خیرآبادی کو دے دیا جو اب بھی ان کے پاس بحفاظت موجود ہے ۔ مولانا ناظم علی صاحب قبلہ اپنی کتاب ’’ تذکرہ علماء شیعہ ‘‘ دیار مشرق یو پی میں تحریر کرتے ہیں :

’’مولاناعلی حسین نے قادیانیت کی رد میں ایک مختصر رسالہ بھی تحریر کیا جو طبع ہوا۔ حقیر کے پاس ایک نسخہ موجود ہے جسے شاعر جناب ایوبؔ مبارکپوری نے دیا ہے ۔ یہ رسالہ اگرچہ مختصر ہے لیکن قادیا نیت کے تقریباً تمام غلط عقائد و اعمال کی مفصل تردید کی گئی ہے ۔‘ ‘ ( دیار مشرق ،تذکرہ علما ء شیعہ ص 63)

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .