اتوار 15 دسمبر 2024 - 22:06
کربلا: دہشت گردی کے خلاف ایک جنگ

حوزہ/ آج کا انسان دہشت گردی اور ظلم و ستم سے جوجھ رہا ہے، لیکن کربلا کا دامن انسانیت کے لیے نجات کا مرکز ہے۔ ریگزارِ کربلا پر امام حسینؑ نے اپنے قیام سے ایسے اصول وضع کیے جو آج بھی دہشت گردی کے خاتمے اور انسانیت کی رہنمائی کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ یہاں خون کی سرخی عالمگیر حقیقت بن گئی اور حق کی قوت نے ظلم کی تمام دیواریں گرا دیں۔

تحریر: مولانا گلزار جعفری

حوزہ نیوز ایجنسی | کربلا انسانیت کی تاریخ کا وہ روح پرور واقعہ ہے جو متضاد کیفیات کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔ یہاں کی روحانیت کا عالم یہ ہے کہ ہواؤں نے چراغ جلائے، اور نازک گلے نے تیرِ سہ شعبہ کے جگر کو توڑ دیا۔ عطش زدہ ہونٹوں نے ذہنِ انسانی کو سیراب کیا، تو خاموشی اور سکوت نے اسلام کو نطقِ جاودانی عطا کی۔ یہی وہ مقام ہے جہاں بیمارِ کربلا نے دنیا کو شفا و حیات کا درس دیا۔ یہاں شیر خوار بچے کے زیرِ لب تبسم نے عزاداروں کو عشق کے موتی عطا کیے، اور آنسوؤں نے گناہگاروں کے غبارِ معصیت کو دھو دیا۔

یہاں بے ردائی نے کائنات کو محجب کیا، اور بچپن جوانی کی معراج کو پہنچا۔ غلاموں کو عزتِ شاہی عطا ہوئی، اور حیوانات نے بھی عقل و خرد کے مظاہرے کیے۔ کربلا کی ایک تاریک رات نے صدیوں کے دنوں کو روشنی عطا کی۔ امامت کے مقدس چراغوں سے پوری کائنات روشن ہوئی۔ زنجیروں کی جھنکاروں نے انسانیت کو استقامت بخشی، اور امام حسینؑ کے سفرِ ہدایت نے دنیا بھر میں پھیلے مظالم کا خاتمہ کیا۔

قرآن مجید نے کربلا کی عظمت کو ان الفاظ میں سمیٹا:

"جو لوگ راہِ خدا میں شہید کیے گئے، انہیں مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے رب کے یہاں رزق پا رہے ہیں۔" (سورہ آل عمران: 169)

امام حسینؑ کا قیام کسی ایک زمانے کے مسائل کا حل نہیں تھا، بلکہ قیامت تک کے لیے حق و باطل کے درمیان حدِ فاصل قائم کر دی۔ انہوں نے شریعت کے لیے ایسی شمع روشن کی جو ہر طوفان میں قائم رہے گی اور ہمیشہ رہنمائی فراہم کرے گی۔

کربلا: دہشت گردی کے خلاف ایک استعارہ

آج کا انسان دہشت گردی اور ظلم و ستم سے جوجھ رہا ہے، لیکن کربلا کا دامن انسانیت کے لیے نجات کا مرکز ہے۔ ریگزارِ کربلا پر امام حسینؑ نے اپنے قیام سے ایسے اصول وضع کیے جو آج بھی دہشت گردی کے خاتمے اور انسانیت کی رہنمائی کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ یہاں خون کی سرخی عالمگیر حقیقت بن گئی اور حق کی قوت نے ظلم کی تمام دیواریں گرا دیں۔

جب پوری امت مسلمہ حج کے لیے مکہ مکرمہ میں جمع ہو رہی تھی، امام حسینؑ نے حرمِ خدا کے تقدس کی خاطر حج کو عمرہ میں بدل کر مکہ سے روانگی کا فیصلہ کیا تاکہ خانہ کعبہ کے مقامِ امن پر خونریزی نہ ہو۔ انہوں نے واضح کر دیا کہ دہشت گرد وہ ہیں جو امن کے مراکز پر قتل و غارت کا ارادہ رکھتے ہیں، اور کربلا ان کی حقیقت کو آشکار کرنے کا نام ہے۔

یہی وجہ ہے کہ کربلا دہشت گردی کے خلاف ایک جنگ ہے۔ یہ ایک پیغام ہے کہ عزت و حرمت کے دشمن، چاہے وہ قبروں میں دفن ہوں یا زمین پر موجود، انسانیت کے لیے خطرہ ہیں۔ کربلا کا فلسفہ ہمیں ظلم کے خلاف ڈٹ جانے، اور حق کے ساتھ کھڑے رہنے کا درس دیتا ہے۔

ربِ کریم امت مسلمہ کو شعور و بصیرت سے مالا مال فرمائے۔آمین یا رب العالمین

حوالہ جات:

1. سورہ آل عمران:169

2. سورہ آل عمران: 97

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .