١۔ میں ان کی مدحت کروں گا کیسے کہ جن کا معبود مدح خواں ہے
انہیں کے دم سے شعاعِ شمس و قمر، فلک کا یہ سائباں ہے
ہر ایک زینت جہانِ فانی کی ان کے زیرِ قدم نہاں ہے
فضیلتوں میں نہ ان کا ثانی برابری میں کوئی کہاں ہے۔
نظامِ دینِ امان ظلمِ یزیدیت سے بکھر گیا تھا
بچایا بعدِ حسین اس نے نہیں تو اسلام مر گیا تھا
٢۔ عبادتوں کے نصیب جاگے تو لاج رکھی طہارتوں کی
کرم اسی کا ہے کربلا پہ اسی سے زینت ہے مجلسوں کی
اسی نے سجدوں کو زین بخشا اسی سے رونق ہے ساجدوں کی
اسی کی بیڑی کی گھن گھرج نے اُڑا دی نیندیں ہی ظالموں کی
نظر کی ساری حدوں سے آگے جنابِ سجّاد کی نظر ہے
اٹھا کے بیعت کو دور پھینکا یزید دونڈھا کرے کدھر ہے
٣۔ پئے مصلیّٰ یہ آ گئے تو انہیں کو عابد کہا گیا ہے
جو ہر شجر کے قریب سجدہ کیا تو ساجد کہا گیا ہے
اُصولِ علم و عمل میں اترے کھرے تو زاہد کہا گیا ہے
کیا جو خاکِ شفا پہ سجدہ تو اس کا واجد کہا گیا ہے
حرم بھی واقف ہے خوب ان سے انہیں کو بطحا بھی جانتا ہے
خدا بھی سارے جہاں کو روزی انہیں کے صدقے میں بانٹتا ہے
٤۔ لبیب ہیں یہ مجیب ہیں یہ مصیب ہیں یہ نصیب ہیں یہ
طبیب ہیں یہ نجیب ہیں یہ اریب ہیں یہ حبیب ہیں یہ
نقیب ہیں یہ حسیب ہیں یہ ادیب ہیں یہ خطیب ہیں یہ
قرار دل کا سرور دل کا ہمارے دل کے قریب ہیں یہ
لہو سے کرب و بلا کی بستی کو کرکے آباد آگیا ہے
یزیدیوں کی صفوں میں ماتم ہوا کہ سجّاد آگیا ہے
٥۔ علی کا بیٹا ہوا مخاطب یزید سے سن ہماری مدحت
خدا نے واجب کتابِ حق میں کیا ہے سب پر ہماری اُلفت
ذلیل خود کو کیا ہے اس نے کیا نہ جس نے ہماری عزت
ہماری جوتی کے بھی برابر نہ ہو سکے گی تری حکومت
میں اپنی ٹھوکر سے قصرِ بیعت تمہارے اوپر پلٹ کے رکھ دوں
میں آستیں کو اگر اُلٹ دوں تمہارا تختہ اُلٹ کے رکھ دوں
٦۔ چلا ہے ہم کو ذلیل کرنے خدا نے عزّت جنہیں عطا کی
ہمی ہیں جن کے لئے خدا نے اُتاری آیت یہ انّما
تمہیں لگے گا مرا قصیدہ اگر تلاوت ہو ھل اتیٰ کی
دیا کو حاجت ہماری ہوگی نہیں ہے حاجت ہمیں دیا کی
تمہارے ذہن و دماغ و دل کو ہمارا لہجہ ستا رہا ہے
یزید تم ڈر رہے ہو ہم سے تمہارا چہرہ بتا رہا ہے
٧۔ جو مجھ کو پہچانتا نہیں ہے وہ جان لے یہ ہے میرا شجره
میں ابنِ زمزم میں ابنِ مکّہ صفا کا بیٹا منیٰ کا بیٹا
ہیں میرے دادا علیِ صفدر تو میری دادی بتولِ عذرا
ہیں میرے نانا رسولِ اکرم جو آخری تھا نبی خدا کا
بیان کیسے کریں فضیلت انہیں کا سکّہ رواں دواں ہے
خطابِ عابد میں تھی حرارت یزید کا گھر دھواں دُھواں ہے
٨۔ سلام تم پر اے کربلا کو حیات و عزّت دلانے والے
سلام تم پر اے پائے اقدس سے بيعتوں کو دبانے والے
سلام تم پر اے فخرِ عیسیٰ مرے ہوئے کو جلانے والے
سلام عرفان کا اے چھالوں کو در سے اچھا بنانے والے
سمیٹ لائے قبائے طوقِ گراں میں صبرِ مزید کتنے
خدا ہی جانے کُچل کے پاؤں سے تم نے مارے یزید کتنے
شاعر اہل بیت: عرفان مانٹوی غازی پور